علیزےنجف
انسان کی شخصیت رویوں سے بنتی ہے اور رویوں کی تشکیل میں شعور ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں شعور کو وہ اہمیت حاصل نہیں جو کہ ہونی چاہئے، ہمارے بیشتر رویے تقلیدی نفسیات کے تحت تشکیل پاتے ہیں، جن میں کچھ رویے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہم نے بچپن میں اپنے ماں باپ سے اخلاقیات کے نام پہ سیکھے ہوئے ہوتے ہیں جو کہ شعور کی متوازی سطح پہ پائے جاتے ہیں۔ ہمیں جن رویوں کی ترغیب بچپن سے دلائی گئی ہوتی ہے ان میں سے ایک شکر کا رویہ بھی شامل ہے ہمیں لفظی طور پہ بےشک شکر سے متعارف کروایا جاتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں بےسکونی کا شکار ہیں جذباتی طور پہ ہم اتنے تھکے ہوئے کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم بظاہر شکر تو ادا کرتے ہیں لیکن شکر کی روح سے نا آشنا ہی رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم نفسیاتی طور پہ بےکل اور غیر مطمئن ہوتے ہیں ایک جیسے سامان حیات اور وسائل کے ساتھ زندگی گزارنے والے دو افراد کی زندگی بھی بعض اوقات مختلف ہوتی ہے اس کی وجہ جذبۂ شکر ہے۔
اللہ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے لئن شکرتم لازیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں مزید عطا کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو بےشک میرا عذاب بہت سخت ہے اتنی واضح بشارت ملنے کے باوجود ہم میں سے بیشتر لوگ شکر کی نفسیات سے عاری ہیں اور شکر نہ کرنے کی صورت میں ملنے والی تنبیہ سے بھی ہم خوفزدہ نہیں، اس کی وجہ غالبا ہمارا غیر ذمہ دار اور بےشعور رویہ ہے، اس ناشکری کی ایک بڑی وجہ والدین بھی ہوتے ہیں جو بچوں کے سامنے ہمیشہ وسائل کمی اور مسائل کا رونا روتے رہتے ہیں وہ کبھی ملی ہوئی نعمتوں کا ذکر کر کے غلطی سے بھی شکر نہیں ادا کرتے جس سے بچوں کے ذہن پہ یہ بات نقش ہو جاتی ہے کہ ہمیں ملی ہوئی چیزوں سے زیادہ ان چیزوں پہ غور کرنا ہے جو کہ ہمارے پاس نہیں ہے اس نفسیات کی وجہ سے ملی ہوئی نعمتوں سے ملنے والی خوشیوں سے وہ محظوظ نہیں ہو پاتے، ہم میں سے بیشتر لوگ بچپن میں سکھائے گئے رویوں کے ساتھ پوری زندگی گزار دیتے ہیں جب کہ ہر انسان کے اندر وہ پوٹینشیل موجود ہے جس سے وہ اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر تر بنا سکتا ہے، اس ضمن میں سب سے پہلے ماں باپ کو یہ ذمےداری قبول کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ شکر کی عادت اپنائیں بچوں کی شخصیت سازی کرتے ہوئے ان چھوٹی بڑی باتوں پہ سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اپنے بچوں کی نفسیات کو بہتر بنانے کے لئے خود اپنے رویوں پہ بھی گہری نظر رکھیں انھیں آسائش سے زیادہ اچھا تربیتی ماحول فراہم کریں۔ ماں باپ بننے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ اپنے بچوں کو ظاہری آسانیاں مہیا کرائیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کو ان اخلاقی اوصاف سے روشناس کرایا جائے جو متوازن زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہیں۔ بحیثیت ایک فرد کے سب پہ یہ ذمےداری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے رویوں کا جائزہ لیتے رہیں اگر وہ کسی مشکل کا شکار ہیں یا کسی بھی وجہ سے بےسکون ہیں تو خود احتسابی کے زریعے مسائل کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کریں، غور کریں کہ جو کچھ ان کے پاس ہے ان سے ملنے والی خوشیاں کیوں انھیں محسوس نہیں ہوتیں کیا وجہ ہے کہ ان کا ذہن خواہشات کی دلدل میں اس طرح پھنسا ہوا ہے کہ وہ ان کے قابو میں نہیں رہا۔
ہمارے یہاں یہ عام مزاج پایا جاتا ہے کہ ہم ملی ہوئی نعمتوں پہ کم ہی غور کرتے ہیں ذہن ہمیشہ انھیں چیزوں میں اٹکا ہوا ہوتا ہے جو کہ میسر نہیں ہوتیں اگر وہ انتہائی جدوجہد کے بعد حاصل ہو جائے تو بھی اس کے ملنے پہ محض چند دن خوشی منا کر پھر سے کسی دوسری چیز کی طلب میں لگ جاتا ہے اور نہ مل سکنے کی صورت میں گہرے رنج و کرب اور افسوس کے گرداب میں دھنستا چلا جاتا ہے اس کی وجہ سے کئی طرح کے جسمانی و نفسیاتی عوارض کے پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانی ذہن ایسا کیوں کرتا ہے ؟
ہارورڈ میڈیکل اسکول کے سائیکالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر رابرٹ والڈنگر کہتے ہیں کہ ’’کبھی سوچا ہے کہ کسی کی شدید تعریف محض تنقید کرنے سے کیوں بے کار ہو جاتی ہے؟ ایک اچھی اور شاندار لمبی چھٹی کا مزہ آخری دن کسی چھوٹے مسئلے پر لڑائی سے کیوں برباد ہو جاتا ہے؟ کھانے کے گرد منڈلانے والی مکھی بہترین کھانے کی لذت کیوں چھین لیتی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ ’’منفی‘‘ چیزوں کو جلدی نوٹ کرلیتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں ’’ اس مشکل کا حل ’’ شکریہ ادا ‘‘ کرنے میں چھپا ہے۔ روزانہ تین چیزیں لکھیں جن کے لئے آپ شکر گزار ہیں۔ یہ طریقہ اپنانے سے آپ زندگی کی مثبت چیزوں پر توجہ دینا شروع کر دیں گے۔ اس طریقے کو اپنانے کے بعد بھی اگر زندگی میں کچھ مثبت تبدیلی محسوس نہ ہو تو ’’کاؤنٹر فیکچوئل تھنکنگ‘‘ کو اپنائیں۔ اس کے لئے ’’اگر ایسا نہ ہو تو….‘‘ فارمولے کی مدد لیں۔ اس میں آپ کو اپنے آپ سے ایسی چیزیں پوچھنی ہوں گی جیسے ’’اگر آپ کا کوئی بہترین دوست نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟‘‘ ’’اگر کھانے کو کچھ میسر نہ ہو تو کیا ہوگا؟‘‘ اس طریقے سے آپ محسوس کرنے لگیں گی کہ آپ کے پاس شکریہ ادا کرنے کے لئے بہت سی چیزیں ہیں ہم ان دنوں کے لئے کبھی شکر گزار نہیں ہوتے جب ہم بیمار یا تکلیف میں نہیں ہوتے۔ ان راتوں کے لئے کبھی شکریہ نہیں کہتے جب سر پر چھت کے ساتھ بارش ہوتی ہے۔ اُس صبح کا شکریہ ادا نہیں کرتے جو ایک نیا دن لاتا ہے۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر رابرٹ والڈنگر نے بالکل صحیح کہا ہے کہ ہم کبھی ان راتوں کا شکریہ ادا نہیں کرتے جو ہم نے اطمینان کی حالت میں گزاری ہوتی ہے ہم ان رشتوں پہ شکر نہیں ادا کرتے جو ہمیں میسر ہوتے ہیں بلامشقت شکم سیری کو اپنا حق سمجھتے ہیں جس پہ شکر کا کوئی تصور ہی نہیں اگر ہمارا ذہن منفی چیزوں سے جلدی اٹریکٹ ہوتا ہے تو ہم بھی کبھی یہ جاننے و سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے کہ ہم منفی مضمرات کے اسیر کیسے ہو رہے ہیں اس سے رہائی کیسے حاصل کریں، باوجود اس کے کہ یہ رویہ ہمیں نقصان ہی پہنچا رہا ہوتا ہے ہم کبھی اس پہلو پہ تجزیہ کرنے کے روادار نہیں ہوتے ۔ ناشکری کی نفسیات سے نمٹنے کے لئے کئی طرح کی حکمت عملی اپنائی جا سکتی ہے جیسے ہم اگر ان نعمتوں کو لکھیں جو کہ ہمیں میسر ہیں تو اس کی لمبی فہرست یہ بتائی گی کہ ہم کتنے خوش نصیب ہیں جس کو ایسی کتنی ہی نعمتیں حاصل ہیں جس کے لئے اس نے کبھی کوشش ہی نہیں کی کیا ایسی نعمتوں پہ شکر ادا کرنا واجب نہیں؟ یاد رکھیں اس فرض کی ادائیگی کے بغیر کسی بھی نعمت کو پائدار نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں موجود لذت اور خوشی کے احساس کو کبھی بھی محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ ہم جن خواہشات کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں وہ اکثر ہمارے لئے اتنی ضروری نہیں ہوتیں کہ ان کے بغیر خوش نہ رہا جا سکے، خوشیوں کو مادی نعمتوں سے مشروط کرنا خود کو زندان میں ڈالنے کے مترادف ہے جس سے پیدا ہونے والی گھٹن آپ کے لمحے لمحے کو بوجھل بنا دیتی ہے۔
ہمارے یہاں ایک تصور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ خوشی کا حصول تبھی ممکن ہے جب ہمیں فلاں فلاں مادی نعمتیں حاصل ہوں گی جب کہ ماہرین نفسیات کا کہنا یہ ہے کہ خوشی کا ظاہری چیزوں سے کوئی تعلق نہیں یہ ایک اسٹیٹ آف مائنڈ ہے جس کو سیکھنا پڑتا ہے اگر یہ اپنی جگہ پہ مین ٹین نہ ہو تو ہم لاشعوری طور پہ ایک کے بعد دوسری خواہش کے اسیر ہوتے جائیں گے پھر بھی خوش نہیں رہ پائیں گے کیوں کہ خوشیاں باہر نہیں ہمارے اندر ہیں اس لئے سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر شکر کی نفسیات کو پیدا کرنا ہوگا کیا آپ جانتے ہیں کہ شکر گزاری، شکر ادا کرنا اور اس کا اظہار کرنے کا بظاہر چھوٹا سا عمل آپ کی جسمانی اور ذہنی صحت پر کتنا گہرا اثر ڈالتا ہے۔ بارہا ریسرچ سے یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ شکر گزار ہونا آپ کی خوشیوں کے ذائقے کو بڑھاتا ہے۔ زندگی کو بامعنی بناتا ہے، ملی ہوئی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت دیتا ہے بہتر اور پرسکون نیند کی وجہ بنتا ہے۔ جسم کو طاقت اور اعتماد فراہم کرتا ہے۔ بے چینی/اضطراب (anxiety) اور اداسی (Depression) کی علامات کے تدارک میں معاون ثابت ہوتا ہے۔جسمانی درد میں بھی حیرت انگیز کمی کا باعث بنتا ہے۔
شکر گزار ہونے کا قطعا یہ مطلب نہیں کہ آپ جس حال میں ہوں تاحیات اسی میں رہنے کو ترجیح دینے لگ جائیں، اپنے دل سے خواہشات کا احساس ہی ختم کردیں، شکر گزار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ موجود نعمتوں پہ شکر ادا کرنے کی عادت اپناتے ہوئے خواہش کے حصول کی طرف حکمت عملی کے ساتھ قدم بڑھائیں اپنی خواہشات کو ہوس نہ بننے دیں کسی خواہش کی تکمیل نہ ہونے پہ مایوس دلگرفتہ ہونے کے بجائے اس مثبت پہلو کو تلاشنے کی کوشش کریں جو آپ کو یہ بتائے کہ ہو سکتا ہے یہ خواہش کی تکمیل میرے حق میں بہتر نہ رہی ہو زندگی امتحان کے لئے بنائی گئی ہے یہاں پہ ساری ہی خواہشیں پوری ہو جائیں ایسا ممکن نہیں۔ اپنی خوشیوں اور شکر کو کسی خاص شئے سے مشروط کرنے سے گریز کریں شکر کو اس لئے خود پہ لازم کر لیں کہ یہ عبادت کی طرح فرض عین ہے اور رب کے وعدے کے مطابق شکر گزاری سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، جب کبھی ناکامی کا سامنا ہو تو ایک بار یہ ضرور سوچیں کہ کہیں آپ ناشکری کی طرف تو نہیں جا رہے جس کی وجہ سے نعمتوں میں اضافے کا عمل رک گیا ہے محرومی پہ بھی شکر ادا کریں اس احساس کے ساتھ کہ اللہ کے ہر عمل میں بہتری ہوتی ہے۔ یاد رکھیں صبر کی طرح شکر کی بھی آزمائش ہوتی ہے جو کہ صبر سے کہیں زیادہ مشکل ہے مشکل وقت میں خدا کو یاد کرنا آسان ہے لیکن جب آسانیاں میسر ہوں اس وقت خدا کی نعمتوں پہ شکر ادا کرنا اور اس کو یاد کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، اس لئے شکر کرنے کی عادت کو باقاعدہ کوشش کے ساتھ اپنائیں تاکہ نہ صرف زندگی میں سکون کو برقرار رکھ سکیں بلکہ اپنے بندے ہونے کا حق بھی ادا کر سکیں۔