نئی دہلی: ( پریس ریلیز) انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے مجدد سینٹر کے زیر اہتمام” توحید کے بدیہی تقاصے ماہ صیام کے استقبال کے پس منظر میں“ کے عنوان پر ایک پروگرام کا اہتمام کیاگیا جس میں پروفیسر محمد اسحاق سابق دین فیکلتی آف ہیومنٹیرین اینڈ لنگویجز جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی نے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اسلام کے بنیادی عقائد میں اہم ترین اور اصل عقیدہ ’توحید‘ ہی ہے۔ یہ ایمان کا جوہر اور دین کی محکم اساس ہے۔ باقی تمام عقائد اسی ایک عقیدے کے تکمیلی پہلو ہیں۔ ایمان باللہ پر ہی سارے اسلامی عقائد و اعمال کی عمارت قائم ہے۔ جملہ احکام و قوانین کے صدور اور قوت کا مرکز اللہ کی ذات ہے۔ ہم فرشتوں پر ایمان اس لیے رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی مخلوق ہیں اور اسی کے حکم سے کائنات میں اپنے فرائض بجا لاتے ہیں۔ ہم رسولوں پر ایمان اس لیے لاتے ہیں کہ وہ ا ±سی کی طرف سے اس کا پیغام انسانوں تک پہنچاتے ہیں۔ کتابوں پر ایمان اس لیے ہے کہ ا ±سی اللہ کے احکامات پر مشتمل ہوتی ہیں، اگرچہ اب صرف قرآن ہی اصل شکل میں محفوظ ہے اور ہم ا ±سی کے مطابق زندگی گزارنے کے پابند ہیں۔ اسی طرح آخرت پر ایمان اس لیے ہے کہ وہی ذات انصاف کے دن کی مالک ہے اور وہی انسانی اعمال کے مطابق انصاف کرے گی۔ اسی پر باقی سارے اعمال کو بھی قیاس کرلیا جائے کہ وہ کیوں بجا لائے جاتے ہیں تاکہ ہمارا مالک و آقا راضی ہوجائے۔
انہوں نے آگے کہاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف واکرم بنایا، اس کی فطرت میں نیکی اور بدی، بھلائی اور برائی ، تابعداری وسرکشی اور خوبی وخامی دونوں ہی قسم کی صلاحیتیں اور استعدادیں یکساں طور پر رکھ دی ہیں۔ اسی کا ثمرہ اور نتیجہ ہے کہ کسی بھی انسان سے اچھائی اور برائی دونوں ہی وجود میں آسکتی ہیں۔ ایک انسان سے حسنات بھی ممکن ہیں اور سیئات بھی، اس کے باوجود کوئی سیئات ومعصیات سے مجتنب ہوکر اپنی زندگی اور اس کے قیمتی لمحات کو حسنات وطاعات سے مزین اور آراستہ کرلے تو یہ اس کے کامیاب اور خالق ومخلوق کے نزدیک اشرف واکرم ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے اور یہی تقویٰ وپرہیزگاری ہے جو روزہ کا مقصدِ اصلی ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایاہے ۔
”اے ایمان والو! فرض کیا گیا تم پر روزہ، جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر، تاکہ تم پرہیزگار ہوجاو ¿، چند روز ہیں گنتی کے۔“
تقویٰ کا معنی ہے: نفس کو برائیوں سے روکنا اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ روزہ ہے، جیسا کہ ایک صحابی نے حضور اکرم سے عرض کیا: ”اے اللہ کے رسول! مجھے کسی ایسے عمل کا حکم دیجیے جس سے حق تعالیٰ مجھے نفع دے“ ، آپ نے ارشاد فرمایا’روزہ رکھا کرو، اس کے مثل کوئی عمل نہیں۔“ اب رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، گویا یہ مہینہ نیکیوں اور طاعات کے لیے موسمِ بہار کی طرح ہے، اسی لیے رمضان المبارک سال بھر کے اسلامی مہینوں میں سب سے زیادہ عظمتوں، فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اپنی رضا، محبت وعطا، اپنی ضمانت وا ±لفت اور اپنے انوارات سے نوازتے ہیں۔ اس مہینہ میں ہر نیک عمل کا اجروثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں جب ایمان اور احتساب کی شرط کے ساتھ روزہ رکھا جاتا ہے تو اس کی برکت سے پچھلی زندگی کے تمام صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور جب رات کو قیام (تراویح) اسی شرط کے ساتھ کیا جاتا ہے تو اس سے بھی گزشتہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس ماہ میں ایک نیکی فرض کے برابر اور فرض ستر فرائض کے برابر ہوجاتا ہے، اس ماہ کی ایک رات جسے شبِ قدر کہا جاتا ہے وہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دی گئی ہے۔
رمضان کا روزہ فرض اور تراویح کو نفل (سنت مو ¿کدہ) بنایا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور خیرخواہی کا مہینہ ہے، اس میں مو ¿من کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، اس میں روزہ افطار کرنے والے کی مغفرت، گناہوں کی بخشش اور جہنم سے آزادی کے پروانے کے علاوہ روزہ دار کے برابر ثواب دیا جاتا ہے، چاہے وہ افطار ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ کرائے، ہاں! اگر روزہ دار کو پیٹ بھرکر کھلایا یا پلایا تو اللہ تعالیٰ اسے حوضِ کوثر سے ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا۔ اس ماہ کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔ جس نے اس ماہ میں اپنے ماتحتوں کے کام میں تخفیف کی تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس کی مغفرت اور اسے جہنم سے آزادی کا پروانہ دیں گے۔
معروف دانشور پروفیسر محسن عثمانی سابق پروفیسر شعبہ عربی ای ایف ایل یونیورسیٹی حیدر آباد نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ توحید اور شرک میں واضح تضاد ہے جس کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری توحید کی دعوت دینا اور انسانیت کو شرکت کی ضلالت سے نکالناہے ۔ یہ بات ہمیشہ سبھی کے ذہنوں میں رہنا چاہیے کہ توحید ہی اصل ہے اور یہ میسیج ہمیشہ جانا چاہیے کہ توحید ہی اصل ہے ۔
پروفیسر حسینہ حاشیہ نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور مجدد سینٹر کے کنوینر جنا ب انجم نعیم نے پروگرام کی نظامت کا فریضہ انجام دیا ۔