مفتی احمدنادرالقاسمی
اس وقت موجودہ سرکار مسلمانوں کی اوقافی جاٸداد کے تعلق سے جو بل پارلمنٹ میں لے کر آٸی ہے۔۔جو پہلے مرحلے میں منظور نہ ہوپانے کی وجہ سے ۔ JPC یعنی جواٸنٹ پارلمنٹری کمیٹی کے حوالہ کردیا ہے۔ تاکہ مزید غور وخوض بلکہ یہ کہیے کہ بھرپورتیاری کے ساتھ اور پوری طاقت سے دوبارہ پیش کرسکے۔ ہمارے لیے غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آخر حکومت کا بل کے لانے کا مقصد کیا ہے؟۔ دراصل ہندوفرقہ پرست جوگزشتہ تقریباً سوسالوں سے مسلمانوں کو ہندوستانی سماج میں ہندووں کے دشمن کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں۔ ان کا ایجنڈا یہ ہے کہ مسلمانوں سے تعلق رکھنے والی وہ تما م چیزیں جن کی وجہ سے مسلمانوں مذہبی، ملی، اسلامی اور دینی شناخت باقی ہے۔ ان کو سبوتاز کردیا جائے اور ان کو پہلے ختم کیا جائے ۔ اگر ان پر ہمارا کنٹرول ہوگیا اورمسلمانوں کا ان سے رشتہ کٹ گیا تو رفتہ رفتہ ہندوستانی مسلمان خود بخود اپنی مذہبی شناخت کھوکر ہمارے مشرکانہ معاشرے کا حصہ بن جائیں گے، جس کا انھوں مضحکہ خیز نام ” گھرواپسی “ کا دیاہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی مذہبی شناخت دو چیزوں سے قائم ہے۔ ایک مدارس اور دوسرے مساجد ۔ اور یہ دونوں ہی مسلمانوں کی اوقافی جائدادیں ہیں۔ گویا ان کے نزدیک بنیادی طورپر اوقاف کا نظام مسلمانوں کی ملی اور دینی شناخت کی بنیاد ہے۔ عام مسلمانوں بلکہ ملک کو گمراہ کرنے کے لیے اس بل کو ”وقف کی ترقی ، تحفظ اور وقف کی آمدنی اور ریونیو بڑھاکر مسلمانوں پر خرچ کرنے کا خوبصورت نام دے رہے ہیں “۔ یہ کتنی بڑی دھاندھلی ہے۔ جس جماعت کو مسلمان قوم ملک میں ایک نظرنہیں بھاتے، وہ مسلمانوں کی ترقی کے بارے میں سوچے گی ،کیسا مذاق ہے؟۔ اس بل میں جتنی بھی دفعات ہیں، ان میں ایک بھی دفعہ ایسی نہیں ہے جس میں وقف کی بقا یا ترقی کی بات کی گئی ہو! مکمل طور پر یہ بل اوقافی جائداد اور وقف کے کنسپٹ ہی کو ختم کرنے والا ہے۔ مثال کے طور پر ۔اس میں ایک دفعہ By user وقف کے تعلق سے ہے جس کامطلب یہ ہےکہ کسی آدمی نے کوئی زمین اللہ کے لیے وقف کی کہ اس میں مسجد بنائی جائے یا قبرستان کے لیے وقف کی کہ اس میں مسلمانوں کے مردے دفن کئے جائیں یا مدرسہ بنیایا جائے یتیم خانہ بنایا جائے ، اور وہ بن بھی گیا اور برسہا برس سے مسلمان اس کو اسی مصرف میں استعمال کرتےچلے آرہے ہیں، مگر اس کا اندراج حکومت کے نزدیک یاوقف بورڈ میں وقف کی حیثیت سے نہیں ہوا ۔اسے ”بائی یوزر وقف “ کہا جاتا ہے۔ اور اب تک کے قانون کے مطابق اسے وقف ہی سمجھا جاتا ہے۔ مگر اس بل کے مطابق اسے وقف نہیں سمجھا جائےگا۔ اس طرح لاکھوں مساجد اور مدارس جو سن 47 کے بعد بنے ہیں ان سے مسلمانوں کو ہاتھ دھونا پڑے گا ۔ اگر ضلع کلکٹر نے پاس کرکے نہیں دیا اور اس بل میں یہ اختیار ضلع کلکٹرکو دیا جارہا ہے جو پہلے 1954 کے وقف قانون میں نہیں دیا گیا تھا بلکہ یہ اختیار وقف ٹریوبنل کے پاس تھا۔ اور یہ سب کو معلوم ہے کہ کلکٹر جو حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے کبھی لکھ کر نہیں دے گا، خاص کر ایسے ماحول میں جہاں حکومت کے چپہ چپہ پر آر ایس ایس کے کارندے بٹھا دیئے گئے ہیں ، اس طرح ان جائدادوں پر بلڈوزرچلیں گے۔ JPC کو ریفر کرنے کی چالاکی حکومت نے اس بل کو jpc کوبھیج کر یہ چالاکی کی ہے کہ چلو جتنی دفعات وقف کوختم کرنے کی اس بل میں شامل کی گئی ہیں، اس میں یہ چالاکی کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ چلو اس بہانے ساری دفعات منظورنہیں ہوگی ۔ تو رد و بدل کے بعد کچھ تو منظور ہو جائے گی اور بل پر PWD اورآرکیالوجیکل ذپارٹمنٹ سے بھی Jpc نے منظوری لے لی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو ہوشیاری اور بیدار مغزی کے ساتھ اس پورے بل کےمسودےکو رجیکٹ کرنا چاہیے ۔اورآواز بلند کرنی چاہیے کہ یہ بل مکمل انٹی مسلم ہے اوردستور کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے پورے بل کوواپس لیاجائے۔ جیساکہ ذمہ داران نے کہا ہے کہ اس بل کی کوئی ضرورت ہی نہیں اورجھوٹ بول کر اس میں خواتین کو نمائندگی دینے کی بات کہی گئی ہے، جبکہ خواتین تو پہلے سسے ہی اس میں شامل ہیں۔ وقف بورڈ جو خالص مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے۔ اس میں اس بل کے ذریعہ غیرمسلموں کو داخل کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کے اختیارات ختم یا کم کیے جاسکیں۔ غرض یہ کہ اس بل کے ذریعہ پورے وقف کے آئینی نظام کو مسدود کردینے اور اوقاف کو ختم کردینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جومسلمانوں کوقطعی منظور نہیں ….! اللہ حفاظت فرمائے۔ آمین۔