شمس تبریز قاسمی
اجین شہر مختصر تاریخ جان لینے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس شہر کا مسلمانوں اور ہندؤوں دونوں سے کتنا گہر ا تعلق ہے ، اس کی تعمیر وترقی میں دونوں قوموں کاکتنا کردار شامل ہے، یہ مخلو ط تہذیب ثقافت کا مرکز ہے اور کسی کی وابستگی دوسرے سے کم نہیں ہے ،یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں جہاں کثرت سے مندر بنے ہوئے ہیں وہیں جگہ بہ جگہ مسجد کے مینارے بھی نظر آتے ہیں اور ہر سومیٹر پریہاں مندر یا مسجد موجود ہیں ، ہندومسلم کے درمیان اتحاد ویکجہتی اور قومی ہم آہنگی بھی بے مثال اور قابل تقلید ہے ،فرقہ پرستی اور نفرت کا دور دور تک یہاں کوئی شائبہ نہیں ہے ۔ شہر کے معروف عالم دین مولانا اشفاق الرحمن اس شہر کی خوبی کچھ یوں بیان کرتے ہیں
اجین کی بنیادوں میں انسانیت ،ہمدردی ،اخلاق ،ایثار وہمدردی ،اتحاد ویگانگت اور باہمی رواداری جیسی اعلی صفت پیوست ہیں،یہاں تہذیبیں ایک دوسرے سے برسرپیکار نہیں رہتیں،بلکہ یہاں کی صاف ستھری فضاء میں ہر انسانی تہذیب کو سانس لینے ،نشو ونما پانے اور پھلنے پھولنے کا موقع ملتاہے۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب اس شہر کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں۔
’’دور سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ شہر پوری طرح ہندو رنگ میں رنگا ہواہے ،یہاں کے مسلمانوں کی کوئی پہچان نہیں ہوگی،لیکن اس شہر میں قدم رنجہ ہونے کے بعد اندازہ ہوتاہے کہ یہاں ہندو اور مسلم ثقافت ایک دوسرے سے بغل گیر ہے ،جہاں اس کو مندروں کا شہر کہاجاتاہے وہیں یہ مسجدوں کا بھی شہر ہے ،قندھار،عمر پورہ ،فاضل پورہ جیسے محلہ کے ناموں سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اس شہر پر مسلمانوں کی کتنی گہری چھاپ رہی ہے اور پھر یہاں جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے وہ بجائے خود پورے ملک کیلئے ایک نمونہ کا درجہ رکھتی ہے ‘‘۔
اسی تاریخی ، مذہبی اور قدیم شہر میں سال رواں عالم عرب ،جنوبی ایشیا اور مسلم اقلیتی ممالک کے درمیان معتبر حیثیت رکھنے والی تنظیم اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا 26 واں فقہی سمینار 4 تا6 مارچ 2017 کو یہاں کی معروف علاقائی تنظیم مجلس اتحادامت کے زیر اہتمام ہوٹل پریسڈینٹ کے وسیع وعریض میدان میں منعقد ہوا جس میں ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے تقریبا چار سو سے زائد علماء کرام، فقہاء اور اسلامی اسکالرس شریک تھے ۔
شہر اجین کی عوام نے اپنی سرزمین پر تشریف لانے والے تمام مہمانوں کا تاریخی استقبال کیا ،بے مثال ضیافت کی اور یہاں شریک علماء کرام اور فقہاء عظام کے دلوں پر انہوں نے مہمان نوازی کے ایسے بے مثال نقوش ثبت کئے کہ ہر ایک کی زبان اہل شہر کی تعریف میں رطب اللسان تھی ،جو حضرات مسلسل سمیناروں میں شرکت کرتے آرہے ہیں انہوں نے بھی بتایاکہ اجین والوں نے مہمان نواز ی کی نئی تاریخ رقم کی ہے او رایساوالہانہ منظر کہیں اور اب تک دیکھنے کو نہیں ملاہے ،اکیڈمی کے نائب سکریٹری رکن مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے بتایاکہ اکیڈمی کے سیمینار کی جو لوگ میزبانی کرتے ہیں وہ یقیناًتاریخ رقم کرتے ہیں او ر ہر سمینار پہلے کے مقابلے میں بہتر اور قابل ستائش ہوتاہے لیکن اجین والوں نے تمام لوگوں کو پیچھے چھوڑدیاہے ،تقریبا 16سو سے زائد افرادبطور رضاکارکے مہمانوں کی خدمت پر معمور تھے،پورے شہر میں مسلمانوں کی مارکیٹ تقریبا بندتھی،ریلوے اسٹیشن ،اندور ایئر پورٹ اور آمدورفت کے تمام مراکز پر سمینار انتظامیہ کی جانب سے استقبالیہ کیمپ لگے ہوئے تھے،مہمانوں کو ایک چھوٹاسا بیگ بھی پکڑنے نہیں دیا جارہاتھا،شہر میں مسلمانوں کے سولہ رہائشی ہوٹل ہیں جن کے مالکان نے اپنے ہوٹل کے دروازے کومہمانوں کیلئے فری کھول رکھاتھا،سبھی اہل شہر اپنی گاڑیاں لیکر حاضر تھے، ہوٹل پریسڈینٹ کے سامنے ایک میرج ہال تھا جہاں کھانے کا انتظام تھااور وہاں پہونچنے کیلئے روڈ کراس کرنا پڑتاتھا ،جب کھانے کا وقت ہوتاتھا تو راستہ بند کردیاجاتھا،تاکہ مہمانوں کو آنے جانے میں کسی طرح کی کوئی پریشانی نہ ہو،طعام انتہائی ذائقہ دار اور لذیذ تھا،ہر کھانے کے ساتھ میٹھا لازمی پیش کیاجاتھا،چائے واقعی چائے ہوتی تھی ،مجھے یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ اتنے بڑے مجمع میں پہلی مرتبہ ایسی اسپیشل چائے پینے کا اتفاق ہوا ورنہ اس طرح کی بھیڑ بھاڑ میں سب کچھ اسپیشل مل جانے کے باوجود چائے پیور دودھ کی نہیں مل پاتی ہے ۔
مجلس اتحاد امت اور انتظامیہ نے مہمانوں کو شہر کی زیارت کرانے کا بھی انتظام کررکھاتھا،چناں چہ دوسرے دن دوپہر کے وقت مائک سے یہ اعلان ہواکہ انتظامیہ نے شہر دیکھنے کیلئے بسوں کا انتظام کررکھاہے لہذا ظہرانے سے فارغ ہوکر آپ حضرات آج شہر کی زیارت کرلیں اور عصر تک پہونچ جائیں کیوں کہ بعد نماز عصر کچھ نوجوانوں کے نکاح پڑھائے جائیں گے اور اس کے بعد بھٹہ پارٹی ہوگی ۔
کھانے سے فارغ ہوکر ڈائننگ ہال سے میں جیسے باہر نکلا،سامنے ایک سفید کار کھڑی تھی ،جیسے میر ی نظر اس کار پرپڑی ڈرائیورنے فورا باہر نکل کرکہاحضرت آپ میری گاڑی پر بیٹھیں ،میرے ساتھ شہر گھومنے چلیں میں آپ کو دکھاؤں گا ،ساتھ میں معروف اسلامی اسکالر مفتی احمد نادر القاسمی،مولانا صفدر ندوی اور مولانا غفران ساجد قاسمی بھی تھے ،بہر حال اس کار پر بیٹھ کرایک ساتھ ہم لوگ شہر کی زیارت کیلئے نکل پڑے ۔
کار ڈرائیور دیکھنے میں تقریبا چوبیس سا ل کے لگ رہے تھے ،چہرے پر ہلکی ہلکی ڈاڑھی تھی،سر پر ٹوپی پہن رکھی تھی ،کرتا پائجامے میں ملبوس تھے ،رنگ ساؤنلااور چہر ہ نوارانی تھا،وہ شہر میں واقع ہندؤوں کے مختلف اہم مقامات پر لے گئے ،بہت ساری باتیں ہندو دھرم کے متعلق بتانے لگے ،شپرا ندی اور مہال کال مندرکے علاوہ کئی اور مقام پر چلنے کا مشورہ دینے لگے ،ہندو دھرم اور ان کے مقامات کے بارے میں ان کی جانکاری پر مجھے بہت تعجب ہوا میں نے یہ پوچھ لیا کہ واہ ،ماشاء اللہ ،آپ بہت معلومات رکھتے ہند ودھرم کے بارے میں ۔تب انہوں نے بتایاکہ دراصل میں بھی پہلے غیر مسلم تھا دوسال قبل میں مسلمان ہواہوں ،میرا پرانام گوپال سنگھ ہے اور اب اشفاق احمد ۔
بھائی اشفاق احمد کو قبول اسلام کی مبارکباد دینے کے ساتھ میں نے پوچھا کہ آپ کے اسلام قبول کرنے کی وجہ کیا رہی ؟،تو انہوں نے تفصیل کے ساتھ بتایاکہ دراصل میں ایک ٹرک ڈرائیورہوں ،میرے مالک مسلمان تھے ،میرے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کرتے تھے ،اپنے ساتھ کھانے میں مجھے شریک کیا کرتے تھے ،تہوار کی خوشیوں میں مجھے بھی یاد کرتے تھے ،کبھی کوئی غلطی اور کوتاہی ہوجاتی وہ در گزر کردیتے تھے ،ان کے گھروالے بھی میرے ساتھ حسن اخلاق کے ساتھ پیش آتے تھے ،ان کا یہ کردار او رعمل مجھے بہت بھایا اور میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا ،قبول اسلام کے بعد میرے گھر والوں نے میرا بائیکاٹ کردیا،گھر سے نکال دیا اور زمین جائیداد سے محروم کردیا تو اس وقت بھی میرے مالک نے مجھے حوصلہ دیا،اپنے مکان میں ٹھہرایا یہاں تک میری شادی میں بھی ان کا خصوصی تعاون شامل رہا، اس دوران میں نے اپنا کچھ وقت مولانا کلیم صدیقی صاحب کے یہاں بھی گزارااور تبغلیی جماعت میں بھی گیا ۔
شہرکی زیارت سے واپس لوٹتے وقت اشفاق احمد نے مجھے اپنا موبائل نمبر دے دیا اور میرا بھی نمبر انہوں نے لے لیا،ہوٹل پہونچانے کے بعد بہت محبت کے ساتھ کہاکہ اب جہاں بھی جاناہو،جس وقت بھی جاناہو مجھے ضرور فون کیجئے گا ،میں آپ کو لیکر جاؤں گااور ہاں !اپنی دعاؤں میں ضرور یادرکھئے گا۔ اشفاق احمد کی طرح کئی اورنوجوان دوست ملے جنہوں نے بے پناہ محبت عقیدت اور خلو ص کاثبوت پیش کیا جن میں محمد عد نان فاروقی اورصفوان فاروقی کانام سرفہرست ہے۔(جاری)