مذہبی شہر اجین : تاریخ وخصوصیات (آخری قسط)

شمس تبریز قاسمی
(گذشتہ سے پیوستہ)
اجین شہر میں مسلمانوں کی 18 فیصد آبادی ہونے کے باوجود یہاں کوئی بڑا ادارہ یا قابل ذکر معروف تنظیم نہیں ہے، یہاں کا سب سے بڑا دینی ادارہ مدرسہ عربیہ سراج العلوم ہے جہاں عربی سوم تک کی تعلیم ہوتی اور مولانا تقی الدین صاحب اس کے بانی ومہتمم ہیں ،یہاں کی سب سے معروف اور نمائندہ تنظیم مجلس اتحاد امت ہے جس کا قیام غالباً 2004 میں عمل میں آیاتھا، اس تنظیم میں بلا اختلاف مذہب و ملت سبھی مسلک کے افراد شامل ہیں اور ہر محاذ پر یہ تنظیم مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے ،اسی تنظیم کے اتحاد اور تعاون سے اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا یہ چھبسیواں سمینار اجین میں منعقد کیا گیا۔ جس میں تقریباً چار سو سے زائد علماء واسکالرس نے شرکت کی اور شہر اجین نے تاریخ ساز ضیافت کا فریضہ انجام دیا ، تنظیم کے ذمہ داران مولانا محمد طیب ندوی اور مجلس استقبالیہ کے سربراہ مولانا محمد جنید فلاحی کا اس سمینار کے انعقاد اور اس کو کامیابی و کامرانی کی منزلوں سے طے کرانے میں خصوصی اور نمایاں کردار رہا، یہاں کی تاریخ میں یہ دوسرا بڑا مسلمانوں کا اجلاس اور اجتماع تھا، اس سے قبل 2013 میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اجلاس عام بھی اسی شہر میں منعقد ہواتھا ۔
اسلامک فقہی اکیڈمی کے حالیہ سیمنار میں چار موضوعات زیر بحث تھے :
(۱) سرکار اسکیمیوں سے استفادہ۔
(۲) زمین کی خرید و فروخت سے متعلق چند مسائل
(۳) سونا چاندی کی تجارت سے متعلق مسائل
(۴) فضا ئی وصوتی آلودگی ۔
یہ چار موضوعات پر مدلل مقالے لکھے گئے، سمینار میں مقالوں کی تلخیص پیش کی گئی اور پھر بہت غور و فکر اور ہر ایک کے اتفاق رائے سے مذکورہ موضوعات سے متعلق مسائل پر تجویز پیش کی گئی ، سمینار میں نے یہ مشاہدہ کیا یہاں کسی پر کسی طرح کا کوئی دباؤ نہیں تھا، ہر ایک شرکاء کو اپنی رائے رکھنے اور بولنے کی مکمل اجازت تھی، تجویز کی نشست میں ایک مسئلہ پر تقریباً سبھی لوگ اتفاق کرچکے تھے اور اگلی تجویز پڑھی جانے لگی کہ اچانک سیمنار ہال سے ایک آواز آئی کہ اس مسئلے میں میرا اتفاق نہیں ہے، چناں چہ ان کی اس بات کو سنجیدگی سے لیا گیا اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اس تجویز میں ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے کچھ تبدیلی کی اور پھر ان کی رضامندی کے بعد وہ تجویز شامل کی گئی۔
سمینار کی ایک نششت میں ہونے والے مناقشے میں نے بھی حصہ لیا، سمینار کے پہلے دن مغرب بعد دوسری نشست میں سرکاری اسکیموں سے استفاد کا موضوع زیر بحث تھا، مولانا عتیق احمد سنبھلی صاحب نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ جو لوگ بولنا چاہتے ہیں وہ اپنا نام لکھ کر بھیج دیں چناں چہ میں نے بھی ایک مسئلے پر اپنی رائے پیش کرنے کیلئے پرچی لکھ کر بھیج دیا، کچھ دیر بعد مولانا عتیق احمد سنبھلی نے اعلان کیا، شمس تبریز قاسمی ایڈیٹر ملت ٹائمز مسئلہ نمبر کے بارے میں اظہار خیال کریں گے، پہلی مرتبہ فقہاء اور اہل علم کی مجلس میں کسی فقہی مسئلے پر میں نے اظہار خیال کیا، ساتھ ہی میں نے فقہ اکیڈمی کا اس بات کیلئے شکریہ بھی ادا کیا کہ ملت ٹائمز کو نمائندگی کا موقع دیا گیا، میرے بعد متعدد مفتیان کرام نے بھی وہی سوال قائم کیا جسے میں نے پیش کیا تھا کافی دیر تک اس مسئلے پر مباحثہ چلتا رہا۔ سمینار کی مجھے سب سے خاص بات اور اہم خوبی یہ نظر آئی کہ وہاں بولنے اور اپنی رائے پیش کرنے کی مکمل آزادی تھی، کسی بھی مسئلے میں کسی طرح کا کوئی دباؤ نہیں تھا، بہت مدلل اور تفصیلی مناقشہ اور مباحثہ کا ماحول تھا، یہی وجہ تھی کہ مجھے بھی اپنی رائے رکھنے کا حق دیا گیا جبکہ میں وہاں بطور جرنلسٹ گیا تھا بطور مفتی اور فقیہ کے نہیں، یہاں فقہ اکیڈمی میں پاس ہونے والی قرار داد اور تجاویز بھی پی ڈی ایف فائل میں منسلک کی جارہی ہے جسے آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔
پورے شہر اور اطراف میں سمینار کی ہلچل اور خبر تھی، مسلمانوں کے ساتھ شہر کے ہندو بھی سمینار کو کامیاب بنانے میں شریک تھے اور ان کا ہر ممکن تعاون شامل تھا، سمینار کی آخری نشست کے اختتام کے بعد مقامی میڈیا والے بڑی تعداد میں آگئی اور نہ چاہتے ہوئے بھی پریس کانفرنس کرنی پڑی، پریس کانفرنس میں تقریباً سو سے زائد علاقائی صحافی شریک تھے ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اپنے ساتھ پریس کانفرنس میں مجھے بھی شریک کیا ، مولانا نے سمینار کا موقف اور موضوعات کی وضاحت کے بعد صحافیوں کی جانب سے کئی گئے تمام سوالوں کا صحیح اور تشفی بخش جواب دیا، کئی سوالات کا جواب مولانا مجھے دینے کو کہا اور اس طرح مولانا کے ساتھ پریس کانفرنس میں بھی صحافیوں کے سامنے اظہار خیال کا موقع، اس کے بعد مولانا نے مجھے ایک پریس ریلیز تیار کرنے کو کہا اور یہ تاکید کی پریس کانفرنس میں جس انداز کی باتیں کی گئی ہے وہی ہونی چاہیئے ، چناں چہ اسی کے مطابق میں نے ایک پریس ریلیز تیار کی اور اس کا ہندی ترجمہ کرکے وہاں کے مقامی اخبارات کو بھیجا گیا جب کہ ہندوستان کے دیگر اخبارات میں بھی وہی پریس ریلیز بغرض اشاعت بھیجی گئی۔
اس پورے سفر میں مولانا خالدسیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں میرے کچھ وقت گزرے جن میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور قریب سے دیکھنے کے بعد اندازہ ہواکہ وہ کس طرح اپنے وقت کا استعمال کرتے ہیں اور کم وقتوں میں بہت سارا کام کرلیتے ہیں، ان کی ذات نے بہت متاثر کیا اور دل میں یہ خواہش انگڑائی لینے لگی کہ کاش اسی طرح مولانا کے ساتھ وقت گزرتا رہے اور ہم ہر پل کچھ نہ کچھ سیکھتے رہیں، ہماری رہنمائی اور تربیت ہوتی رہے ۔
فقہی اکیڈمی کے اس سمینار میں ملت ٹائمز کا ہر ایک کی زبان پر چرچا تھا، خبریں فوراً اپڈیٹ ہورہی تھی، سمینار کے دوران شرکاء ایک دوسرے کو وہاٹس ایپ پر ملت ٹائمز کی خبر بڑی تعداد میں شیئر کررہے تھے ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے بھی ملت ٹائمز کو سراہا، بہت تعریف کی دعاؤں سے نوازا اور آخری نشست میں یہ اعتراف کیا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ کہ ملت ٹائمز وغیرہ نے سمینار کی آواز کو بہت دور تک پہونچایا ہے ہم ان کے شکر گزار ہیں، مولانا نے ذاتی طور پر بھی ملت ٹائمز کی تعریف کی اور یہ کہاکہ بہت اچھا کام کررہے ہیں، میں بھی وقتاً فوقتاً ملت ٹائمز کا مطالعہ کرتا ہوں، چناچہ جب میں نے مولانا سے انٹرویو کیلئے کہا تو فوراً تیار ہوگئے اور دیئے گئے وقت پر انہوں نے ملت ٹائمز کے ساتھ بات چیت کی، جسے فیس بک پر لائیو پر ہزاروں کی تعداد میں دیکھا جاچکا ہے، سمینار کے اختتام پر رخصت ہوتے وقت جب میں مولانا سے ملنے گیا تو انہوں نے ایک مرتبہ پھر انتہائی گرمجوشی اور محبت بھرے انداز میں ملاقات کی اور اپنی جیب خاص سے ہزار روپے کے ہدیہ سے نوازا، یہ انعام اور تحفہ میرے لئے انتہائی اہم اور قابل رشک ہے اور اس ذرہ نواز ی کیلئے ہم مولانا کے ہمیشہ مشکور رہیں گے۔
اجین کا سفر بہت اہم اور تاریخی رہا، بہت سے علماء ، اسکالرس اور دوستوں سے ملاقات ہوئی، جن میں مولانا غفران ساجد قاسمی، مفتی فیاض عالم قاسمی، مولانا صدر عالم قاسمی، مولانا ولی اللہ مجید، مفتی حبیب اللہ چمپارنی ، مفتی عارف باللہ قاسمی ، مولانا سیف اللہ عرضی وغیرہم کے نام سرفہرست ہیں، اس کے علاوہ اکیڈمی کے رفیق مفتی احمد نادر القاسمی، مفتی امتیاز احمد قاسمی، مولانا صفدر ندوی، اور انیس اسلم صاحب کا مکمل تعاون حاصل رہا۔
چھ تاریخ کو سمینار کے اختتام کے بعد شام میں بعد نماز مغرب ایک اجلاس عام تھا جس میں تقریباً پچاس ہزار کا مجمع اکٹھا تھا ور انسانوں کا ہجوم نظر آرہا تھا، اس اجلاس کے اختتام کے فوراً بعد میں نکلنے کی تیاری کرنے لگا اور تقریباً ساڑھے گیارہ بجے میں ہوٹل سے نکل گیا، میری ٹرین اجین سے 45 کیلومیٹر دور ناگلہ سے تھی، اس لئے ڈیرھ گھنٹہ قبل نکلنا ضروری تھا، انیس اسلم صاحب ساتھ میں تھے، اسی دوران گیٹ پر سمینار کے روح رواں اور وہاں کی مقبول ترین شخصیت مولانا جنید عالم صاحب سے ملاقات ہوگئی، انہوں نے اپنی دعاؤں سے نوازا، ملت ٹائمز کے کاموں پر خوشی کا اظہار کیا اور زبردستی رات کا کھانا بھی رکھ دیا حالاں کہ عشائیہ سے فراغت ہوچکی تھی اور صبح 8 بجے میری ٹرین کے دہلی پہونچنے کا وقت تھا ، بہر حال ان کی محبتیں اور دعائیں لیتا ہوا میں کار میں بیٹھ گیا اور ناگا اسٹینش ہوتا ہوا راجدھانی ٹرین سے صبح آٹھ بجے نئی دہلی پہونچ گیا۔
خلاصہ یہ کہ اجین کا یہ سفر بہت تاریخی، اہم اور پر لطف رہا، ملت ٹائمز کی دور دور تک رسائی کا بھی علم ہوا اور مختلف اہل علم کی زبانی سن کر خوشی ہوئی کہ وہ ملت ٹائمز کو جانتے ہیں، ملت ٹائمز کا ایپ ان کے موبائل میں انسٹال ہے اور خبروں کے حصول کا اسے سب سے معتبر ذریعہ مانتے ہیں۔ اسلامک فقہ اکیڈمی ، مجلس اتحاد امت اور اہل اجین کی خدمت میں ہم دل کی اتہاہ گہرائیوں سے ہدیہ تشکر پیش کرتے ہیں ، اس داستان کو پڑھنے کیلئے آپ قارئین کے بھی تہ دل سے ہم مشکور ہیں اور یہ سلسلہ یہیں پر بند کرتے ہیں۔