برلن،16؍فروری
ملت ٹائمز؍ایجنسی
یورپی بر اعظم کو ان دنوں متعدد بحرانوں کا سامنا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے میونخ سکیورٹی کانفرنس میں بحث و مباحثہ تو بہت ہوا تاہم کسی بھی مسئلے کا جامع حل تاحال دستیاب نہیں۔میونخ سلامتی کانفرنس چودہ فروری کو اپنے اختتام کو پہنچی۔ اگرچہ کانفرنس کا آغاز بڑی امیدوں اور ارادوں کے ساتھ ہوا تھا تاہم اختتام ذرا تاریک رہا۔ شام میں قیام امن کا منصوبہ ڈگمگا رہا ہے، جبکہ روس مسلسل تناؤ جاری رکھے ہوئے ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یورپ کو درپیش متعدد بحرانوں کے حل کے لیے جرمنی قیادت تو کر رہا ہے، لیکن کوئی اور یورپی ریاست اس کے پیچھے چلنے کو تیار نہیں۔
جرمن شہر میونخ میں سالانہ بنیادوں پر میونخ سکیورٹی کانفرنس کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں یورپ، مشرق وسطی، ایشیا و امریکا سے کئی رہنما اور مندوبین عالمی مسائل پر بحث اور مباحثہ کرتے ہیں۔ اس بار کے اجتماع کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بروکنگز انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ایک تجزیہ کار کانسٹینز اشٹیلزن مولر کہتے ہیں، رہنما گھبرائے ہوئے ہیں اور مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ ان کے بقول اس بار یہ کانفرنس عجیب و غریب انداز میں لنگڑاتی نظر آئی۔ ان کا مزید کہنا تھا، جرمنی سفارتی حوالے سے وہ سب کچھ کر رہا ہے، جو کیا جانا چاہیے تاہم کارآمد حل تلاش کرنا اور با اثر اتحاد کا قیام مشکل ثابت ہو رہا ہے۔
میونخ سکیورٹی کانفرنس کے انعقاد سے کچھ ہی دیر قبل جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر کی میزبانی میں عالمی رہنماؤں کے ایک اجلاس میں شام میں پر تشدد کارروائیاں روکنے پر اتفاق رائے قائم ہوا، جس کے نتیجے میں ایک امید سی پیدا ہو گئی تھی کہ شاید پانچ برس سے جاری اور قریب ڈھائی لاکھ افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والی شامی خانہ جنگی رک پائے گی۔ لیکن چند ہی گھنٹوں میں روسی وزیر خارجہ سیرگئی لارورف کے اس اعلان کے بعد کو روس شام میں اپنی فضائی کارروائیاں ترک نہیں کرے گا، تمام تر امیدوں پر پانی پھر گیا۔ بعد ازاں میونخ سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر روس کے وزیر اعظم دیمیتری مدودیف نے یہ بھی کہہ دیا کہ دنیا کو ایک نئی سرد جنگ کا سامنا ہے۔
دریں اثناء دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کی تاریخ کے بد ترین مہاجرین کے بحران کے حل کے لیے جرمنی تو کوشاں ہے لیکن دیگر یورپی ممالک اس کے نقش و قدم پر چلنے کو تیار نہیں۔ میونخ میں فرانسیسی وزیر اعظم مانوئل والس نے برلن حکومت پر واضح کر دیا کہ ان کا ملک یورپی یونین کے ساتھ طے شدہ تیس ہزار مہاجرین کے علاوہ ایک بھی تارک وطن کو پناہ فراہم نہیں کرے گا۔ والس نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا مہاجرین کی ایک طریقہ کار کے تحت مستقل تقسیم کے مجوزہ منصوبے کو بھی مسترد کر دیا۔
سفارت کار جرمنی اور چند دیگر یورپی ممالک کی جانب سے بحیرہ ایجیئن کی نگرانی اور انسانی اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا کام نیٹو کے دستوں اور بحری جہازوں کو سونپنے کو بھی شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک یورپی سفارت کار کے مطابق، ہم نہیں سمجھتے کہ یہ کار آمد ثابت ہو گا۔ میرکل صرف یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ جرمنی تنہا نہیں۔