خبردرخبر(513)
شمس تبریز قاسمی
نریندر مودی ایک ایسا نام ہے جس سے کسی نے نفرت ،دوری اور کنارہ کشی اختیار کرنے کو فرض عین قراردیا ،انہیں مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن بتایا ، مودی اینڈ کمپنی سے نفرت کو عین ثواب گردانا،سترسالوں میں ہوئے تمام فسادات کو فراموش کرکے گجرات قتل عام کو ہمیشہ تروتازہ رکھا ،جس نے بھی مودی کی جانے انجانے میں تعریف کی ،یااس کے علاقہ ،اس کے متعلقین اور کسی طرح کی قربت رکھنے والے کے بارے میں کوئی مثبت جملہ کہااسے بھی قوم کا غدار ،میر جعفر اور میرصادق جیسے خطاب سے نوازا گیا،اقتدار سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی تو دوسری کسی نے مودی کو سب سے بڑا مسیحا سمجھا ،اس کی کامیابی وکامرانی کیلئے شب روز ایک کردیا ،اس کی قیادت میں ملک اور مذہب کی ترقی کا خواب دیکھا، اسے شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی اور سوئے اتفاق اس فریق کو کامیابی ملتی گئی جبکہ نفرت کرنے والے دن بہ زوال کے شکار ہوتے رہے اور اب نتیجہ یہ ہے کہ نریندر مودی سے شدید نفرت کرنے والے ان کے سامنے مکمل شکست کا اعتراف کررہے ہیں ، صاف لفظوں میں اقرار کررہے ہیں کہ مخالفت کی پالیسی اچھی نہیں رہی ،مسلم قوم کا خسارہ ہوا،مذاکرات اور باہمی تعلق بناکر رکھنے میں ہی مسلمانوں کا فائدہ ہے ،ماضی میں جوا ہو سو ہوا ،اسے بھول جائیں ،اب ہم ملتے جلتے رہیں گے ،ملاقات کا سلسلہ جاری رکھیں گے ،آپ بہتر کام کررہے ہیں ،ملک کی تمام عوام آپ سے خوش ہے ،آپ ایک بہترین وزیر اعظم ہیں ،سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ قابل ستائش ہے۔
قارئین !میں بات کررہاہوں ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی جنہوں نے 2008 میں تقریبا دس ہزار مسلمانوں کا قتل عام کرایا،اس فساد کے بعد ہندوستانی سیاست نے ایک نئی کروٹ بدلی ،دنیا بھر میں مودی کی مذمت ہوئی ،سیاسی پارٹیوں نے اسے سب سے بڑا ایشو بنالیا ،ہندوستانی مسلمانوں نے بھی نریندر مودی کو سب سے بڑا دشمن گردانا ،گجرات کے مسلمانوں نے اس فساد کو بھلادیا لیکن شمالی ہندوستان نے ہمیشہ یادرکھا ،ان سے ملنا ،ان سے باتیں کرنا ،ا ن کے ساتھ کسی تقریب میں شریک ہونا سب سے بڑا پاپ اور جرم سمجھا گیا ،جس کسی نے بھی ایسا کیا اس کا انجام عبرتناک ہوا یہاں تک کہ ان تمام مخالفتوں کے باوجود نریندر مودی 2014 میں جب وزیر اعظم بن گئے تو اس وقت بھی مسلمان اور مسلم قیادت نے مودی سے نفرت کا سلسلہ جاری رکھا،کسی نے بلیک ڈے منایا تو کسی نے کفس افسوس ملتے ہوئے کہاکہ کسی طرح پانچ سال گزار لیں گے لیکن کبھی اس سے ملاقات نہیں کریں گے ،اس دوران دوسرے اور تیسرے درجہ کے قائدین نے نریندرمودی سے ایک وفد کی شکل میں ملاقات کی تو اسے بھی نکار دیا گیا ،جن لوگوں نے ملاقات کی انہیں قو م کا غدار اور آر ایس ایس کا ایجنٹ کہاگیا،اس کے بعد سال رواں کے شروع میں مختار عباس نقوی کی قیادت میں مسلم دانشوران کے ایک گروپ نے ملاقات کی تو اس پر بھی چہ میگوئیاں ہوئیں،گذشتہ سال علماء مشائخ بورڈ کی صوفی کانفرنس مودی کی شرکت کو لیکر اس نتظیم کے ذمہ داروں کو اسلام دشمن اور غدار کہاگیا ،شاہی امام مولاناا حمد بخاری اور سراج الدین قریشی کی ملاقات کوبھی مثبت نظریہ سے نہیں دیکھا گیا ،تین سالوں کا عرصہ گزر جانے کے بعد اب جمعیت علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب کو بھی اپنی پالیسی تبدیل کرنی پڑی ہے اور گذشتہ کل 25 رکنی وفد کے ساتھ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ان کی رہائش گا ہ پر جاکر ملاقات کی ہے ۔
نریندر مودی ہزاروں مسلمانوں کے قاتل ہیں لیکن ان سب کے باوجود وہ ہمارے وزیر اعظم ہیں ،جمہوری ملک میں جمہوری طور پر وہ منتخب ہوئے ہیں اس لئے ان سے ملاقات کرنا ،ان سے ملنا اور مسلم مسائل کے حل کا مطالبہ کرنا کوئی معیوب نہیں بلکہ ضروری ہے ،یہی وجہ ہے کہ جب پہلی مرتبہ مولانا عمیر الیاسی نے ملاقات کی تو راقم الحروف نے اسی خبر درخبر کے کالم میں لکھاتھاکہ یہ ملاقات کوئی غلط نہیں ہے ،جب اعلی سطح کے قائدین مودی سے ملاقات نہیں کریں گے،مذاکرات کی اسٹیج سجانے کے بجائے نفرت کو پالے ہوئے رکھیں گے تو مجبوری میں دوسرے اور تیسر ے نمبر کے قائد ین کویہ کرنا پڑے گا ،اس مضمون کے بعدمیری شدید تنقید کی گئی ،مجھے بھی آ ر ایس ایس کا ایجنٹ کہاگیا ،ایک سینئر صحافی نے تو اخبار میں میرے خلاف ایک مراسلہ بھی لکھ دیا ۔محمود ۔مودی کی یہ ملاقات بھی وقت کی اہم ضرورت تھی ، ملت سے ہمدری پر مبنی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ جمود اور تعطل کو توڑکر پی ایم مودی سے ملاقات کرکے مولانا محمود مدنی نے ایک جرات مندانہ اور بیباکا نہ قدم اٹھایا ہے،موجودہ دور میں یہی بہتر ہے کہ نفرت کے بجائے محبت سے کام لیاجائے لیکن اتنی تاخیر کیوں ہوئی،یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ مولانا محمودمدنی نے دیگر مشہور قائدین کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا ،جمیعۃ کے بجائے مسلم وفد کی شکل اس ملاقات کو کیو ں نہیں دی گئی ، ان ملاقات کی حمایت کیوں نہیں کی گئی جو اس سے قبل ہوئی ، ان لوگوں کو کیوں غدار اوردشمن کہاگیا جنہوں نے اس سے قبل مودی سے ملاقات کی۔
مولانا محمود مدنی اور نریندر مودی کی ملاقات کن ایشوز پر ہوئی، کیا مدعا تھا ،مسلم وفد کا کیا مطالبہ تھا اور مودی نے کس ردعمل کا اظہار کیا وہ غیر واضح ہے ،جس مودی سے طلاق کے مسئلہ پر دخل اندازی نہ کرنے کی اپیل کرنے یہ وفد گیا تھا وہاں سے جاری پریس ریلیز میں یہ لکھاگیاکہ جمعیۃ نے طلاق کے مسئلے پر مودی کے موقف کی تسلیم کی ہے ساتھ ہی نریندر مودی نے مسلم وفد کو یہ نصیحت بھی کی ہے کہ وہ طلاق کے مسئلے پر سیاست نہ کریں ۔دوسری جانب جمعیۃ سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں اس کے برعکس یہ لکھاگیا ہے کہ مودی نے جمیعۃ کے موقف کی تسلیم کرتے ہوئے کہاکہ طلاق خالص مسلمانوں کا اندرونی معاملہ ہے حکومت کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں ۔
سچائی کیا ہے ،کون سی بات حقیقت پر مبنی ہے ،پی ایم او کی پریس ریلیز یا پھر جمعیت کی خبر؟۔جمعیۃ کے وفد میں شامل اکثر حضرات جید علماء کرام ،اکابراور متقی وپرہیزگار تھے ،ان سے ہر گز ایسی توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے ملت اسلامیہ کے مفاد کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا کیا ہوگا، مسلم مفادکے سوا کوئی اور بات کی ہوگی لیکن اس کے باوجو د پی ایم او سے اس طرح کی پریس ریلیز جاری ہوتی ہے ،جس مودی کی خدمت میں طلاق اور مسلم مسائل کے حل کیلئے وفد گیاتھا اسی نے وفد کے موقف کے خلاف خبرنشر کی ہے ، مسلمانوں سے قومی سلامتی میں تعاون کرنے کی بات کی ہے،اجیت ڈوبھال نے استقبال کیا ہے تو یہ بات تشویشناک اور پوری ملت اسلامیہ کیلئے افسوسناک ہے ، قائد ملت مولانا محمود مدنی صاحب کیلئے ضروری ہے کہ وہ پی ایم او سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کی تردید کریں ،پریس کانفرنس طلب کرکے نیشنل میڈیا کے کے سامنے اس بات کا اعلان کریں وزیر اعظم کے دفتر نے اس ملاقات کی غلط رپوٹنگ کی ہے ،کیوں کہ پی ایم او کی پریس ریلیز اہم ہوتی ہے ،نیشنل میڈیا میں اسے اہمیت ملتی ہے ،مودی ۔مدنی ملاقات کے سلسلے میں ملت ٹائمز نے جو خبر شائع کی ہے وہ بھی پی ایم او کی پریس ریلیز پر مبنی ہے ، ساتھ ہی جمعیۃ کی پریس ریلیز اور تضاد بیانی کی وضاحت بھی موجود ہے ،اس طرح کی ملاقات میں صحافتی نقطہ نظر سے پی ایم او کی پریس ریلیز ہی زیادہ اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے ۔برسبیل تذکرہ اپنے محبوب قارئین سے یہ گزارش ہے کہ نیوز اور ویوز کے درمیان ہمیشہ فرق ملحوظ رکھیں، دونوں کو کبھی ایک نہ سمجھیں ۔