محمد عارف اقبال
دنیا میں ہوش سنبھالتے ہی جس ہستی کے کلیجہ سے خود کوسمٹا ہوا پایا تھا وہ میری ماں تھی، ننھے ننھے اور چھوٹی چھوٹی انگلیوں سے جب امی کی آنکھیں چھوتا، ان کا رخسار چومتا، ان کا ناک سکوڑتا، ان کا کان مڑورتا تو ان کی مسکراہٹ،ان کا پیار، ان کی جان سب مجھ پر قربان ہو جاتی،وہ مجھے اپنے دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیتی اور محبت نچھاور کرنے لگتی۔ ان کی آغوش میں جب سر رکھتا تو میٹھی بھری نیند کے ساتھ ایسا محسوس ہوتا جیسے جنت نما کسی چیزکی سیر کر رہا ہوں۔آج بھی امی جان کا مسکراتا ہوا چہرہ اپنے وطن (دربھنگہ،بہار)سے ہزاروں کیلو میٹر دور(دہلی)رہ کر بھی محسوس کرتا ہوں تو ذہن و دماغ پر ایک بھینی بھینی خوشبو بکھرنے لگتی ہے،امی کو جب بھی دیکھنے کی خواہش ہوتی ہے تو ایک سرد بھری سانس لے کر آنکھیں موندلیتا ہوں۔پھر مجھے چودھویں جیسی چاندنی، فرشتوں جیسی معصومیت، پھول سے زیادہ خوبصورت، گلاب جیسی خوشبو،محبت کا ترشا ہوا ایک مجسمہ، سراپا خلوص و محبت کا سمندر، احساس کی ندی، سچائی ، قربانی اور جاں نثاری کی عظیم مثال، دنیا کی انمول ترین چیز یعنی میری امی جان کا مقدس چہرہ نظر آنے لگتا ہے، وہ ماں جس کے قدموں تلے جنت ہے،جو باپ سے زیادہ شفقت والی ہے، جو باپ سے زیادہ رحم دل والی ہے، جو باپ سے زیادہ جذبے اور پیار والی ہے۔
کبھی چاندنی ہے کبھی کہکشاں ہے
میری ماں محبت کا سارا جہاں ہے
میں آج جو کچھ بھی ہوں یہ ماں باپ کا فیض ہی تو ہے جنہوں نے شاہراہ حیات پر انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا، حق پرورش ادا کرتے ہوئے اچھی تعلیم اور بہترین زندگی کی آسائشیں فراہم کیں،میری امی جان ایک عام سی سیدھی سادی خاتون ہیں، مگر وہ پردہ دار ، وفادار ، با کردار ، حیا دار، جانثار ، پیکر ایثار ، عبادت گزار ، خدمت گزار، غریب پرور اوربلند عزائم سے سرشار ہیں ،ہر خوبی ان کی ذات میں موجود ہے ،وہ آئیڈیل ،قابل تقلید اور عظیم ماں ہے ،خوبیوں کو ان کے ساتھ منسلک ہونے پر ناز ہے۔
میں سوچتا ہوں میری امی جان کی تخلیق کس طرح ہوئی ہوگی، ان کے وجود کو بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کن کن چیزوں کا سہارا لیا ہوگا، ان کا مجسمہ تیار کرنے کے لئے کن کن خمیروں کا ستعمال کیا گیا ہوگا، تو فو راََیہ بات ذہن میں آتی ہے اللہ پاک نے تمام مائوں کو ایک ہی سانچے میں ڈھالا ہے، ان کے وجود کو تراشنے میں پہلے اللہ نے چاند سے اس کا حسن ، پھول کی پنکھڑی سے اس کی نزاکت، بلبل سے اس کا چہکار، پائل سے اس کی جھنکار، باغوں سے اس کی بہار، مور سے اس کی چال، قدرت سے اس کا پیار، ندیوں سے اس کا سکون، پانی کی لہروں سے ان کی تیزی، آبشاروں سے اس کا ترنم، آفتاب سے اس کی گرمی، فرشتوں سے ان کی محبت، ستاروں سے ان کی ٹھنڈک، چمن سے اس کی مہک ، پہاڑوں سے اس کی سختی، آسمان سے اس کا سایہ، کانٹوں سے اس کے پھول، سمندر سے اس کی وسعت، ہیرے سے اس کی چمک،موسموں سے اس کا تغیر، تلوار سے اس کی کاٹ، بادلوں سے اس کی کڑک اور بارش سے اس کی نغمگی کو جمع کیا ہوگا، پھر شفقت اور پیار و محبت کی آنچ میں ڈال کر ایک ماں کی تخلیق ہوئی ہوگی، بیشک میری امی جان کا وجود بھی ان مجسموں کا ایک نمونہ ہے جسے میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں۔ جسے آپنی آنکھوں سے محسوس کرتا ہوں، چلتے پھرتے ، سوتے جاگتے جس کا مشاہدہ کرتا ہوں۔جس کی کوکھ میں جنم لیا اور جس کی آغوش میں پرورش پائی، کیا یہ الفاظ اس کا حق ادا کر سکیں گے؟ نہیں ، ہرگز نہیں۔ الفاظ اظہار کا ذریعہ تو بے شک ہو سکتی ہیں مگر احساس کا پیکر نہیں ۔
ضروری تو نہیں کہہ دوں لبوں سے داستان اپنی
زباں اک اور بھی ہوتی ہے اظہار تمنا کی
پھر بھی اگر میں کہوں کہ دنیا میں محبت ، صبر اور ایثار گوندھ کر کوئی چیز تیار کی جاسکتی ہے تو وہ میری امی جان ہوں گی۔
امی جان کی گود سے لے کر ان کے دودھ کی امرت دھاریوں تک ،ان کی ممتا بھری لوریوں سے لے کر پیار بھری جھڑکیوں تک ،مرے رونے پہ ان کادل مچلنے سے لے کر مری ناز و نخریٰ اٹھانے تک، پیار سے شہزادے کی طرح سجانے سے لے کر چہرہ کی بلائیں لینے تک، مرہے روٹھنے پر منانے سے لے کر اپنے سینے پر سلانے تک، کسی بات کے نہ سمجھنے سے لے کراسے بار بار سمجھانے تک، مری اٹھکھلیوں میں پیچھے پیچھے بھاگنے سے لے کر ہاتھ نہ آنے تک ، غرض امی جان کی ہر اک ادا، ہر اک لمحہ، ہر ایک منظر جو اب فسانہ بن گیا ہے، مجھے سب یاد ہے، جسے آج بھی یاد کر میری آنکھیں شبنم ہو رہی ہیں۔
مجھے بھولا سا کچھ گزرا زمانہ یاد آتا ہے
جو بن کر رہ گیا اب اک فسانہ یاد آتا ہے
بچپن سے بغرض تعلیم گھر سے دور رہا، آج بھی چھٹیوں میں جب گھر آتا توامی ہر طرح سے ہمارا خیال رکھتی، جب تک گھر پرہوتا وہ ہمارے پسند کا اپنے ہاتھوں سے مختلف اقسام کے پکوان بنا کر کھلاتی، یوں توامور خا نہ داری میں ان کا کوئی جواب نہیں، مگر خاص طور سے امی کے ہاتھوں کی بنی لذیذ بریانی اور مچھلی میرا پسندیدہ کھانا ہے، جب غسل کرتا تو سامنے کھڑی ہوکر بچے کی طرح بدن کا میل صاف کرنے کی سخت ہدایت دیتیں، کبھی ان سنی کرتا تو خود ہی جسم پر ہاتھ چلانا شروع کر دیتیں، غسل کرنے کے بعد کپڑوں کو خو دہی صاف کرنے بیٹھ جاتیں، دسترخوان پر کھانے کے سامنے بیٹھی ہوتیں، خود نہ کھاتی مگر ہمیں پیٹ بھر کھلاتیں، طعام میں گوشت سے امی کو خاص لگاؤ ہے، جب گھر پر ہوتا وہ لازمی طور پر گوشت کا اہتمام کرتیں ، خود کم کھاتیں مگر ہم بھائی بہنوں پر زیادہ دھیا ن دیتیں ۔ جب بھی سفر پر نکلنا ہوتا تو وقت سے پہلے جاگ جاتیں ہیں اور ہمارا سامان تیار کرتیں ہیں، طرح طرح کے کھانے کا سامان باندھ دیتی،جب تک گھر سے نکل منزل تک نہیں پہنچ جاتا انہیں بے چینی سی رہتی، امی کا یہ عمل بچپن سے دیکھتا آ رہا ہوں،رفتہ رفتہ سب کچھ بدل رہا ہے، مگر ایک ماں!جو اپنے بچوں کے لئے جیسی کل تھی ویسے آج ہے، امی کی عادت و اطوار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ،آج بھی وہ ہمیں ایک معصوم بچے کی طرح گھر سے وداع ہوتے وقت ہمیں تکتی رہتی ہیں اور ہم بھی انہیں نم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے رخت سفر باندھتے لیتے ہیں۔
ہم چھ بھائی بہنوں میں سب ان کی نور نظر ہیں مگر لخت جگر کی دعویداری صرف میرے حصے میں آئی ہے، میری دوسری کتاب ’’ امیر شریعت سادس، نقوش و تاثرات‘‘پر امی جان کی قیمتی اور بیش بہا ’’نقش آرزو‘‘ کے نام سے سپرد قرطاس کی ہیں، یقیناً کسی بھی فرزند کیلئے سب سے بڑی سعادت وہ کلمات اور دعاء کے الفاظ ہوتے ہیں جو اس کی والدہ کی طرف سے کہے جاتے ہیں، بہت کم ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں جن کے لئے مائیں کچھ لکھتی ہوں، مگر میں خود کو ان خوش نصیب فرزندوں میں شمار کرتا ہوں جن کی ادنیٰ سی علمی کاوش پر امی جان نے چند جملے تحریر کی ہیں۔ امی جان کے قلم سے نکلے ایک ایک حروف کو میں آنکھوں سے چومتا ہوں، عقیدت اور محبت کی نگاہوں سے دیکھتا ہوں ،عبادت او رکار ثواب سمجھ کر باربا اس کو دہراتا ہوں کیوں کہ یہی میرے لئے توشہ آخرت ہے۔ مشعل راہ ہے ،میری کامیابی کی سرٹفیکٹ ہے، ملاحظہ کیجئے یہ چند سطور اور دیکھئے کہ انہوں نے راقم الحروف یعنی اپنے لخت جگر کو کس طرح مسرتوں اور دعائوں نواز ہے اور تصور کیجئے کہ یہ سطور قلم بند کرتے وقت ان کے دل کیا جذبات رہے ہوں گے:
’’بحیثیت ماں میں اپنے پروردگار کی بے انتہا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے عارف اقبال جیسا ہونہار، باکمال، باصلاحیت، محنتی، نیک صالح، اور وفا شعار لڑکا سے نوازا‘‘۔
آگے لکھتی ہیں:
’’ میرے چھ بچوں میں عارف اقبال چوتھے نمبر پر آتے ہیں، عزیزم کی عادت عام بچوں سے علاحدہ اورشروع سے خاموش و شریفانہ رہی ہے، محنت ، جدوجہد اور کچھ کرتے رہنے کی ہمیشہ اس نے کوشش کی ہے۔پڑھنے لکھنے اور اخبار بینی کا شوق بچپن سے ہی رہا ہے‘‘۔
ایک جگہ اور رقم طراز ہیں:
’’عارف اقبال جیسی کامیاب اولاد میری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہے، جس کے لئے میں پروردگار عالم کی بے انتہا شکر گزار ہوں اور امید کرتی ہوں کہ میرے بیٹے اسی طرح نمایاں کارنامہ انجام دے کر ملک و ملت کی خدمت کرتے رہیں گے۔اس عظیم کامیابی پر میں اپنے لخت جگر عارف اقبال کو صمیم قلب سے مبارک باد پیش کرتی ہوں‘‘۔
(امیر شریعت سادس، نقوش و تاثرات۔ صفحہ نمبر 48)
ماں بہر صورت ایک ماں ہے، چاہے وہ تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ،ماں کی ممتا کا کوئی مول نہیں ، وہ ہمیشہ اپنے فرزندوں کی کامیابی پر رشک کرتی ہیں، ماں ایک ایسا جامع لفظ ہے جس کانام لیتے ہی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک مضبوط دیوار ہمارے چاروں طرف چن دی گئی ہو اور ہمیں کوئی خطرہ نہیں ۔ ماں کا نام لیں تو ایسا لگتا ہے کہ چاروں طرف خوشبوئوں نے بسیرا کر لیا ہے، جس نے ماں کے وجود کو دنیا میں اہمیت میں نہ دی وہ کبھی دنیا میں عزت نہیں پا سکتا، ماں کی محرومی سے زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے اس کا ندازہ اس اولاد سے پوچھیں جو ماں کی محبت سے محروم ہے، بزرگوں نے کہا ہے جس کی ماں نہیں وہ بد نصیب ہے اور جس نے ماں کے ہوتے ہوئے اس کے وجود کا احساس نہ کیا تو وہ دوزخی ہے۔
ایک ماں کا اس کے بچوں سے کیا تعلق ہوتا ہے؟ وہ اس کی پرورش کے لئے کتنا خون جلاتی ہے؟اس کے تحفظ کے لئے کیا کیا جتن کرتی ہے؟ اس کی بڑی سے بڑی غلطیوں کو کس طرح معاف کرتی ہے؟اس کی خوشی کے لئے اپنے کتنے ارمانوں کو قربان کرتی ہے؟ اس کے دکھ درد کو کسی طرح اپنا بنا لیتی ہے ؟ اس کی جلی کٹی، طعنے ، بد تمیزی کس طرح ہنس کر ٹال دیتی ہے؟ کس طرح اس کی ناشکری کو نظر انداز کر دیتی ہے؟ یہ ایک ماں کے دل سے بہتر کوئی اور نہیں جان سکتا۔
وہ میری بد سلوکی میں بھی مجھے دعا دیتی ہے
آغوش میں لے کر سب غم بھلا دیتی ہے
لگے ہاتھوں ماں کی ممتا اور شفقت کا ایک واقعہ نظر نواز کرلیجئے ،2008میں میرے ساتھ کا ایک بھیانک واقعہ پیش آیا تھا ،اس واقعہ نے میرے ساتھ خاندان کے تمام افراد کو ہلا کر رکھ دیا تھا، وہ خوفناک منظر اور کالی رات کی دہشت آج بھی میرے آنکھوں میں تیرتے رہتے ہیں، جب اس واقعہ کی خبر امی کو ہوئی تھی تو ان پر کیا گزری تھی شاید اس کا اندازہ میں بھی نہیں لگا سکتا، میرے صحیح و سلامت گھر پہنچے کے لئے نہ جانے کتنے آنسو ان کے گرے، ہر چیز کو چھوڑ صرف بارگاہ رب العزت میں سجدہ ریز رہتی، اللہ نے والدہ کے ساتھ تمام احباب ، رشتہ دار اور خیر خواہ کی دعا سنی اور جب میں سلامت گھر پہنچا تو ان کی آنکھیں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، میں بھی خود کو نہیں روک پایا تھا، مجھے احساس ہوتا ہے کہ اگر ماں کی دعا نہ ہوتی تو جس مصیبت اور پریشانی میں پھنسا تھا شاید میں وہاں سے نہیں نکل پاتا۔
آج میں اپنے والدین کے لئے کچھ عزم کرنا چاہتا ہوں، خود سے کچھ وعدہ لینا چاہتا ہوں۔ وہ وعدہ جس کا مجھ پر حق ہے، وہ وعدہ جسے حق ادا کرنے پر بھی اس ایک چیخ کا حق ادا نہیں ہو سکتا، وہ وعدہ جسے آج ہر اولاد کو اپنے والدین کے لئے خود سے کرنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔جب آپ دونوں ضعیف ، کمزور ہو جائیں گے تو ہم آپ کا سہارا بنیں گے، جب آپ کپڑا گندہ کریں گے اور آپ میں کپڑے بدلنے کی طاقت نہ رہے گی تو اپنے ان وقت کو یاد کروں گا جب آپ نے ہمیں کھلانے پلانے اور کپڑا بدلوانے میں کتنا وقت لگایا تھا، جب آپ کی لرکھڑاتی زبان سے صاف آواز نہیں آئے گی تو ہم پر جھڑکیں گے نہیں بلکہ ہم اس دن کو یاد کریں گے جب آپ ہمیں ایک کہانی کو ایک ہزار بار سناتے تھے جب تک ہمیں نیند نہیں آتی، جب آپ کی یاد داشت کمزور ہو جائے گی تو ہم آپ کا دماغ بنیں گے، جب آپ کے تھکے ہوئے پاؤں ساتھ چھوڑ دیں گے تو ہم آپ کو تھام لیں گے ،جس طرح آپ ہمارے کمزور قدم اٹھانے کے وقت تھام لیتے تھے، وہ سارے آرام و اسائش کے سامان آپ کے قدموں میں رکھ دیں گے جس سے آپ یہ نہ سمجھیں گے کہ آپ ہم پر کوئی بوجھ ہیں، اگرآپ کے اندر کوئی کمزوری پائیں گے تو اسے چھپا دیں گے جس طرح آپ نے ہماری کمزوری چھپائی تھی اور جب آپ ہمارے درمیان نہ رہیں گے تو ہم آپ کے لئے اسی طرح دعا گو ہوں گے جس طرح آپ کی ہر سانس ہمارے لئے تا عمر دعا کرتی رہی۔
مگر افسوس ، آج والدین کی وہ عظمت باقی نہ رہی، نہ ان کے ساتھ وہ حسن سلوک کیا جاتاہے جس کا ہمیں حکم دیا گیا ہے،نہ ان کا وہ حق ادا کر پا رہے ہیں جس کی وہ حق دار ہیں، مغربی تہذیب و تمدن کے جس تھپڑے کی زد میں ہم آج ہیں ہمیں ان چیزوں کا خیال باتی نہ رہا، بعض موقعوں پر اپنے والدین کی ذرا سی خدمت کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ان کے تمام حقوق ادا کر دئیے، جیسے اہل مغرب سال بھر میں ایک دن ’’ مدر ڈے‘‘ منا کر یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے ماں باپ کے تمام حقوق کو بجا لایا اور بس۔ پھر سال کے بارہ مہینے ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اور والدین اپنے بڑھاپے کی زندگی انتہائی کسمپرسی، بے بسی اور مجبوری کے عالم میں اپنے گھر میں یا پھر ’’ اولڈ ہاؤس ‘‘ میں گزار کر اس عالم سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ پھر ان کے وصال کے بعد اولاد ان کی خوبیوں ، شفقتوں ، پیار و محبت اور لاڈ و ممتا کو یاد کر کے روتی ہیں اور اس نعمت کے زوال پر کف افسوس ملتی ہیں۔
٭٭٭