شاہد صدیقی صاحب اردو دنیا کے ممتاز،بیباک اور نامور صحافی مانے جاتے ہیں ،آپ کے والد گرامی مولانا عبد الوحید صدیقی نامور صحافی تھے،انہوں نے جمعیۃ علماء ہند سے استعفی دیکر1951 میں نئی دنیااخبار کی شروعات کی تھی جس پر حکومت پابندی عائد کردی،شاہد صدیقی صاحب نے1973 میں از سرنو ہفت روزہ کی شکل میں نئی دنیا کا اجراء کیااور بہت جلد اسے عوام میں مقبولیت ملنی شروع ہوگئی ،ایک وقت ایسا بھی تھا جب چھ لاکھ سے زائد اس کا پیاں چھپتی تھی ، کشمیر سے کنیا کماری اور آسام سے لیکر گجرات تک اس کا ڈنکا بجتاتھا،لاکھوں کی تعداد میں شائع ہونے والا اردو کا یہ واحد اخبار ہے، موجودہ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نئی دنیا کی پیدوار ہے ،شاہد صدیقی صاحب کی نمایاں خصوصیت ہے کہ وہ نئی دنیا میں وہ چیزیں پیش کرتے ہیں جسے عام طور پر خبروں میں جگہ نہیں دی جاتی ہے۔۔
شاہد صدیقی صاحب صحافت کے ساتھ سیاست کا بھی طویل تجربہ رکھتے ہیں ،کانگریس اور سماجوادی پارٹی سمیت چار پارٹیوں میں اہم عہدہ پر فائزرہ چکے ہیں، بیک وقت سیاست اور صحافت سے تعلق رکھنے کے باوجود دونوں کو مخلوط نہیں کرتے ہیں ،2002 سے 2008 تک آپ راجیہ سبھا کے ممبر بھی رہے ہیں ۔آپ واحد صحافی ہیں جنہوں نے نریندر مودی سے گجرات فسادات کے موضوع پر انٹرویو کیا تھا اور فسادات سے متعلق تمام سوالات پوچھے تھے۔
رواں ہفتہ اسی نامور اور سینئر صحافی جناب شاہد صدیقی صاحب سے ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر شمس تبریزقاسمی نے بات چیت کی ہے ،گفتگو کے اہم اقتباسات پیش ہیں آپ کی خدمت میں (ادارہ)
شمس تبریز قاسمی
اردو صحافت کی تاریخ میں نئی دنیا کو نمایاں مقام حاصل ہے ،شروع سے یہ اخبار عروج کی راہ پر گامز ن ہے ،اس کے بانی آپ کے والد گرامی مولانا عبد الوحید صدیقی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ،ہیں ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کے والدگر امی نے کن حالات میں نئی دنیا کی شروعات کی تھی ؟۔
شاہد صدیقی
آزادی کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والا کوئی نہیں تھا ،مسلمان کسمپرسی کے حالت میں تھے ،مسلم لیڈر شپ ہجرت کرکے پاکستان جاچکی تھی ،مسلمان بے سہار اتھے مسلم لیگ ختم ہوچکی تھی ، کوئی حماعت نہیں تھی ،جماعت اسلامی بہت بعد میں بنی جمعیۃ علماء ہند کانگریس کے ساتھ مل کرکام کررہی تھی ،میرے والد صاحب جمعیۃ میں تھے اور 1947 کے بعد جمعیۃ کے ایڈیٹر بنے تھے ،انہوں نے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی جوشاید قیادت کو پسند نہیں آئی کیوں وہ پنڈٹ نہرو کے ساتھ کام کرنا چاہتے تھے،لہذا انہوں نے استعفی دیکر 1951 میں نئی دنیا کی شروعات کی ،نئی دنیا آزادی کے بعد مسلمانوں کی واحد آواز بن گیا گوند بلبھ پنٹ جو اس وقت کے وزیر داخلہ تھا انہوں نے کہاکہ ’’مولاناآپ ہمارے دشمن نمبر ایک ہو ،ہم نے مسلمانوں کے زبان کاٹ دی تھی آپ نے اسے دوبارہ زبان دے دی ہے ‘‘ اخبار نکلنے کے فورا بعد نئی دنیا پر پابندی عائد کردی گئی ،اس وقت برٹش حکومت کا ایک قانون تھا جس کے مطابق کسی بھی اخبار پر پابندی عائد کردی جاتھی لہذانئی دنیا پر بھی پابندی عائد کردی گئی ،والد صاحب نے اپنا تمام سرمایہ بیچ کر اس وقت بیس ہزارروپے جرمانہ دیااور دوبارہ اخبار شروع کیا ،آزادی کے بعد والد صاحب نے مختلف مقامات پر ہونے والے فسادات کے خلاف تحریک چلائی ،والد صاحب نے جبل پور اور دیگر جگہوں پر ہونے والے فساد ات کے خلاف احتجاج کیا ،چنے کھاکر احتجاج کرتے رہے ،اس وقت اخبار کا گلا گھوٹنے کی کوشش کی گئی اور بالآخر 1964 میں اسے بند کردیا گیا ،میرے والد صاحب پر تقریبا 160 مقدمے تھے ،کوئی کالاقانو ن ایسا نہیں بنا جس میں میرے والد صاحب جیل نہیں گئے ،میرے بڑے بھائی مصطفی راہی کو بھی کم عمری میں جیل جانا پڑا،نئی دنیا کبھی اخبار نہیں تھا بلکہ وہ ایک مشن تھا ،جس نے ہمیشہ مسلمانوں کی قیادت کی ہے۔
شمس تبریز قاسمی
آپ کے والد صاحب دارالعلوم دیوبند میں بھی رہ چکے ہیں ،وہاں ان کی کیا خدمات رہی ہیں ؟۔
شاہد صدیقی
میرے والدصاحب نے دارالعلوم دیوبند میں رہتے ہوئے 1914 میں مہاجر کے نام سے ایک اخبار نکالاتھا،غالبایہ ان کا اپنا ذاتی تھا ،انہوں نے دارالعلوم دیوبند میں نمایاں انتظامی خدمات انجام دی ،حیدر آباد کے نظام دارالعلوم دیوبند کو دولاکھ روپے دیتے تھے انہوں نے کہاکہ مولانا حسین احمد مدنی کو آپ نکال دیجئے ورنہ ہم آپ کی امداد بند کردیں گے کیوں کہ وہ تقسیم کے خلاف تھے ،اس وقت میرے والد یونین کے صدر تھے ،انہوں نے کہاکہ ہم پیسہ لاکردیں گے ،دارالعلوم دیوبند میں تنظیم و ترقی کا شعبہ والد صاحب نے قائم کیاتھا اور اس شعبہ کے ذریعہ انہوں نے درالعلوم دیوبند کی نمایاں خدمات انجام دی ،اسی لئے جب مولانا موددی الجمعیۃ چھوڑ کر چلے گئے تو اس وقت میرے والد لاہور میں مولاناظفر علی کے ساتھ مشہور زمانہ اخبار زمیندار میں ان کے ساتھ کام کررہے تھے جہاں سے انہیں بلاکر الجمعیۃ کا ایڈیٹر بنا یا گیا ۔
شمس تبریز قاسمی
صحافت سے آپ نے کب وابستگی اختیار کی اور کیوں ؟
شاہد صدیقی
میرپیداائش اخبار کے دفتر میں ہوئی ہے وہ اس طر ح کے بلی ماران میں نئی دنیا کا دفتر تھا ،نیچے کے حصے میں دفتر تھا اور اوپر کے حصے میں رہائش تھی صحن ملا ہواتھا جہاں میری پیدائش ہوئی ، میرے تمام بھائی بہن کی ولادت دیوبند میں ہوئی صرف تنہا میں ہوں جس کی پیدائش دہلی میں ہوئی ،ہم اخبار سے کھیلتے تھے ،پانچ چھ سال کی عمر میں ہمیں اندازہ ہوگیاتھا کہ اخبارات میں کیا لکھا ہوا ہے۔
شمس تبریز قاسمی
آپ نے لکھنا کب شروع کیا ہے ؟
شاہد صدیقی
دس گیارہ سا ل کی عمر میں ہم نے لکھنا شروع کردیا ،ایک مشہور صحافی عبد الباقی صاحب تھے جو باقیات میں کام کرتے تھے ،ایک مرتبہ انہوں نے مجھ سے کہاکہ بیٹے کرکٹ کھیلتے ہوہم نے کہاکہ جی ہاں کھیلتے ہیں تو انہوں نے کہاکہ یہ کرکٹ کی خبر بناکرلاؤ ،انگریزی سے ترجمہ کرکے اپنے اعتبار سے ہم خبر بنائی یہی ہماری شروعات ہے ،اس کے بعد 1966 میں والد صاحب نے ہما ڈائجسٹ شروع کیا جس کیلئے انگریزی کہانیوں کا ہم نے ترجمہ کیا،اس وقت اپنی فیملی میں انگلش صرف میں ہی جانتاتھاکیوں کہ میرے گھر میں ماشاء اللہ سبھی عالم تو تھے تاہم وہ انگریزی سے ناواقف تھے اس لئے انگریز ی کہانیوں سے میں ہی ترجمہ کرتاتھا۔1970 میں ہم نے واقعات نکالا جس وقت میں بی اے سال اول کا طالب علم تھا ،واقعات کا انداز ٹائم میگزین کا تھا ،جذباتی طرز ہم نے اختیا رنہیں کیا دوسری طرف نشمین نے جذباتی طرز کو اختیا رکیا ،اس وقت بنگلہ دیش کا معاملہ چل رہاتھااس لئے ’’واقعات‘‘ نہیں چل پایا۔
شمس تبریز قاسمی
نئی دنیا بندہوچکا تھا پھر دوبارہ اس کی شروعات کب ہوئی اور کنہوں نے کیا ؟۔
شاہد صدیقی
1973 میں عثمان فارقلیط صاحب کو جمعیۃ سے نکال دیا گیاتھا جس سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ،ہم نے والد صاحب سے کہاکہ عثمان ن فارقلیط صاحب کو نکا ل دیا گیا ہے انہیں لکھنے کیلئے کوئی پلیٹ فارم ملنا چاہئے ،والدمرحوم سے کہاکہ ہم نئی دنیا پھر سے ہفت روزہ شروع کرنا چاہتے ہیں ،والد صاحب نے کہاہمت ہے تو شروع کرو ،اس کے بعد عثمان فارقلیط صاحب سے مشورہ کیا انہوں نے بھی تائید کی ،صحافت کے ان بزرگوں مولانا عبد الوحید صدیقی اور مولانا عثمان فارقلیط صاحب کی دعائیں ملنے کے بعد میرے حوصلے بلند ہوگئے اور ہم نے نکالناشروع کردیا ،تین مہینے میں ہی یہ بے پناہ مقبول ہوگیا ،پہلاشمارہ سات ہزا ر چھپا ،دوسرا پندرہ ہزار اور تین مہینے کے اندر اندر 80 ہزار چھپنے لگا۔1973 میں عرب اسرائیل جنگ شروع گئی جس پر ہم نے لکھنا شروع کیا تمام اخبارات کو پڑھ ،تمام رپوٹس کو دیکھ کرتجزیہ کرتے تھے، ایک عربی داں کو اپنے ساتھ شریک کیا تو ان چیزوں کی وجہ سے بے پناہ مقبولیت ملی کیوں کہ اردو میں یہ سب چیزیں نہیں ہوتی تھی ،بلکہ اس وقت انگلش کا بھی کوئی اخباراس انداز کا نہیں تھا،انڈیاٹوڈے1976 اور سنڈے 1978 میں نکلنا شروع ہوا ہے ،یوں سمجھئے کہ اس وقت صحافت میں اس طرح کوئی چیز نہیں تھی۔
شمس تبریز قاسمی
نئی دنیا کے سلسلے میں یہ شکایت ہے کہ ڈیسک پر بیٹھ کر رپوٹ لکھی جاتی ہے اور یہ لکھاجاتاہے ’’بغداد سے نئی دنیا کی رپوٹ‘‘ ،واشنگٹن سے نئی دنیا کی رپوٹ ‘‘ سچائی کیا ہے ؟۔
شاہد صدیقی
ایسا ہوتا ہے کہ بغداد سے یا دیگر جگہوں سے جور پوٹ آتی ہے اسے پڑھ کر تحقیق کرکے ہمارا بیورو رپوٹ تیا رکرتاہے ،نئی دنیا کا جب عروج تھا اس وقت قاہرہ اور بغداد سمیت کئی ملکوں میں ہمارے نمائندے تھے اور وہ براہ راست وہاں سے نئی دنیا کیلئے لکھتے تھے ،عراق اور ایران جنگ کے دوران ہم نے ہفتوں وہا ں گزارے ہیں ،صدام حسین کا ہم نے انٹر ویو لیا ہے جس کا کسی بھی اردو صحافی کو موقع نہیں ملا ، ایسا بھی ہوتاہے کہ ہم کئی رپوٹ لکھتے ہیں تو ایک پر نام دے دیتے ہیں اور بقیہ پر لکھ دیتے ہیں ’’برطانیہ سے نئی دنیا کی رپوٹ ‘‘ ۔۔۔۔
شمس تبریز قاسمی
آپ کے تعلق سے یہ بھی کہاجاتاہے کہ لکھاری کا آپ نام نہیں دیتے ہیں اور ان کی تحریر نئی دنیا کی طرف منسوب کرتے ہیں ؟
شاہد صدیقی
میرے خیال سے اس سے بیہود ہ بات اور کوئی نہیں ہوگی ،میرے اخبار سے جو نکلے ہوئے لوگ ان کو جتنا ہم نے نام دیا ہے اتنا کسی نے بھی نہیں دیا ہوگا ،خواہ میم افضل صاحب ہوں ،معصوم مرادآبادی صاحب ہوں یا نیاز فاروقی صاحب سبھوں کو ہم نے کریڈٹ دیا ہے ،نئی دنیا واحد اخبار ہے جس کے دوایم پی ہوچکے ہیں، جب کسی کا نام زیادہ نام ہوجاتاہے تو باہر جاکر وہ آدمی بولتاہے کہ سب کچھ تو میں لکھتاہوں شاہد صاحب تو اردو بھی نہیں جانتے ہیں ،جو یہاں چپراسی ہوتاوہ بھی باہر جاکر بولتاہے کہ شاہد صاحب تو کچھ نہیں کرتے ،مسلمان احساس کمتری کا شکا رہے یا نہ جانے کیوں کہ انہیں لگتاہے کہ شاہد صدیقی انگریزی کا ماہر ہے تو وہ اردو کیسے جانتاہوگا،کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شاہد صدیقی یونیورسیٹی کا ٹاپر اورگول میڈیلسٹ ہے ،انگریز ی کا آدمی ہے تو وہ اردو میں کیوں آگئے ،اپنے لوگوں کی خامیاں نکالنا ہماری فطرت بن چکی ہے ،لوگوں کو شکایت ہے کہ شاہد صدیقی کو وزیر اعظم سے لیکر سبھی اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں،وہ ہماری خصوصیت ہے ،راجیو گاندھی بلاکر ہم سے مشورہ لیتے تھے ۔
شمس تبریز قاسمی
نئی دنیا کی چھ لاکھ کاپیاں نکلتی تھی آج پچاس ہزرا رتک محدود ہے اس زوال کی وجہ کیا ہے ؟
شاہد صدیقی
زوال کی وجہ یہ ہے کہ اب ویکلی کا دور ختم ہوچکاہے خواہ انگلش کے ہوں یا کسی اور کے زبان کے ،نئی دنیا تو ابھی برقرار ہے انگلش کے دومشہور اخبار نکلتے تھے نیوز ویک اورٹائم میگزین جس میں سے نیوز ویک بند ہوچکا ہے اور ٹائم میگزین لڑکھڑا چکاہے ۔ہندوستان ،رویوار ،دھرم یوگ جیسے بڑے بڑے ہندی کے ہفت روزہ اخبارات نکلتے تھے وہ سب آج بند ہیں ۔ویکلی کی جگہ اب ڈیلی اخبار نے لے لی ہے ،ویکلی میں نظریات اور انٹرویوز پیش کئے جاتے تھے لیکن ٹی وی کی وجہ سے یہ بھی ختم ہوگیاہے جو انٹرویوایک ہفتہ بعد آتاتھا اسے ٹی وی چینل اسی وقت پیش کردیتے ہیں، حالاں کہ پہلے وزیر اعظم سے لیکر بڑے بڑے سیاسی رہنمامیرے انٹرویو لینے کے منتظر رہتے تھے ۔
شمس تبریز قاسمی
نئی دنیا کے قارئین دنیا بھر میں ہیں،اردو صحافت میں رعب ودبدبہ ہے،قارئین آپ کو چاہتے ہیں تو پھر بدلتے وقت کے ساتھ آپ نے روزنامہ کیوں شروع نہیں کیا ؟
شاہد صدیقی
ہم نے عوام کے نام سے 1994 میں شروع کیا تھا اور وہ چلا بھی لیکن زیادہ کامیاب نہیں ہوسکا اس لئے ہم نے بند کردیا ، روزنامہ کی ایک مجبوری یہ ہے کہ اس کیلئے اشتہار ات چاہئے ،نئی دنیا میں بغیر اشتہارات کے چلاتاہوں، لیکن روزنامہ بغیر اشتہارات کے نہیں چل سکتے ہیں، اشتہارات لینے کیلئے جس طرح ضمیر کا سوداکرناپڑتاہے ،قدموں میں گرناپڑتاہے اس کیلئے میں تیار نہیں ہوں ،روزنامہ نکالنے کیلئے ضروری ہے کہ آپ کے پیچھے کوئی بڑی اانڈسٹری ہو،معاف کریں جتنے اردو کے اخبارات نکلتے ہیں انہیں اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے ،قدموں میں جاکر گرناپڑتاہے۔
شمس تبریزر قاسمی
موجودہ اردوصحافت کے تعلق سے کیا خیال ہے ،کیا اردو اخبارات ملک وملت کے حالات پر اثرانداز ہوتے ہیں ؟۔
شاہد صدیقی
اردو صحافت اسی وقت موثر ہوگی جب ایماندای سے کام لیاجائے گا ،آزاد او رخودمختار ہوکر حقیقت پر توجہ دی جائے ،صحیح سوالات اٹھاجائیں گے ۔دوسر وں کے قدموں پر گریں گے تو کیسے موثر ہوگی ،میں جانتاہوں کہ میرا اخبار موئثر ہے ،کیوں کہ میں صحیح سوال اٹھاتاہوں،میرا اخبار وزیر اعظم کے دفتر سے لیکر امریکن ایمبسی تک پہونچتاہے ،میں جس پارٹی میں تھا اسی کے خلاف لکھتاتھا،راجیوگاندھی ہمارے دوست تھے اس کے باوجودہم نے خلاف لکھاہے ،نرسمہاراؤ کے خلاف سب سے زیادہ نئی دنیا نے لکھاہے جبکہ میں کانگریس میں تھا،معاف کیجئے بہت سے اردو اخبار کو دیکھ کر لگتاہے کہ وہ کسی سیاسی پارٹی یا نیتا کا پمفلٹ ہے ،حقیقت لکھنے کے بجائے قصیدہ خوانی کرتے ہیں ،سماج وادی حکومت نے مسلمانوں سے کتنے وعدے کئے تھے آپ بتائیے مجھے کتنے اردو اخبارات نے اس پر سوالات پوچھے ہیں ؟۔
شمس تبریز قاسمی
اردصحافیوں پر بشمول آپ کے یہ الزام ہے کہ یہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں سنجیدہ مسائل کو اٹھانے کے بجائے جذباتی انداز اختیار کرتے ہیں ؟۔
شاہد صدیقی
کہنے والے بہت کچھ کہتے ہیں ،کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ شاہد صدیقی ملت کے مفاد میں نہیں لکھتے ہیں ،سچائی یہ ہے کہ نئی دنیا نے ہمیشہ مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند کی ہے ،ایک فکرا ور نظریہ پیش کیا ہے ، ملی مسائل کو ایوان اقتدا رتک پہونچانے کا کام کیا ہے ،1980 کے بعد سے میں ٹی وی چیلنوں پر جارہاہوں وہاں بھی میں مکمل اعتماد کے ساتھ مسلمانوں کے حقوق کی بات کرتاہوں ،اینکردوسروں سولات پوچھتے ہیں لیکن میں ان سے پوچھتاہوں ۔
شمس تبریز قاسمی
آپ نے نریند رمودی کا انٹرویو لیا جس کی پاداش میں آپ کو سماج وادی پارٹی نے برطرف کردیا ،میرا سوال صرف اتناہے کہ آپ انہیں گجرات فسادا ت کیلئے ذمہ دار مانتے ہیں ۔
شاہد صدیقی
ہاں !بالکل گجرات فساد کیلئے وہ ذمہ دار ہیں ،شاہد صدیقی واحد شخص ہے جس نے ان سے گجرات فساد کے موضوع پر انٹر ویو کیا ہے اور ہم نے وہ تمام سوالات پوچھے تھے جو کسی اور نے نہیں پوچھے ،نریندرمودی نے ہم سے کہاکہ آپ اپنے سولات پہلے بھیج دیں ہم نے کہاایسا نہیں ہوسکتا ہے،دوسری شرط یہ رکھی کہ تمام سولات فسادات سے متعلق ہوں گے، تب انہوں نے کہاایک شرط ہماری بھی ہے کہ من وعن انٹر ویو شائع کرناپڑے گا ہم نے کہایہ ہمار اصول ہے ہم من وعن وشائع کریں گے، 2002 سے 2012 کے درمیان یہ پہلا انٹرویو تھا جس میں مودی سے فسادات کے متعلق تما سوالات کئے گئے ،ان سے ہم نے پوچھاتھاکہ جب فساد ہورہاتھا،آپ کہاں تھے ،فوج کہاں تھی ؟ ۔
معاف کیجئے گا شمس صاحب !اردو والے آج کل پڑھے بغیر تبصرہ کرتے ہیں میرے انٹرویو کوبھی لوگوں نے پڑھانہیں اور تبصرہ کرنا شروع کردیا حالاں کہ فسادا ت کے موضوع پر ہم نے جو سوالات پوچھے تھے وہ کسی نے آج تک نہیں پوچھے اور اسی لئے ہم نے انٹرویو کیا کہ وہ گجرات فسادات کیلئے ذمہ دار ہیں ۔
شمس تبریز قاسمی
صحافت کے ساتھ سیاست سے آپ کی گہری وابستگی رہی ہے ،مختلف اوقات میں کانگریس ،ایس پی ،بی ایس پی اور لوک دل جیسی چار پارٹیوں میں آپ کلیدی عہدہ پر رہ چکے ہیں اور ہر ایک سے آپ کو شکوہ ہے کہ وہاں جمہوریت نہیں ہے ،ایسے میں میرا سوال ہے ان چار پارٹی سمیت ملک بھر کی دیگر پارٹیوں میں سے کہاں زیادہ جمہوریت ہے؟
شاہد صدیقی
کسی بھی پارٹی میں جمہوریت نہیں ہے ،مسلمانوں کا سب استعمال کرتے ہیں ،مجھے سیاست میں جانے کا بالکل شوق نہیں تھا،راجیوگاندھی میرے دوست تھے ،مجھ سے مشورہ کرتے تھے ،ایل کے اڈوانی کی یاترا کے بعد جب فسادات ہوئے تو میں لیکر انہیں مختلف جگہوں پر گیااور کہاکہ دیکھو کیا اصلیت ہے ،انہوں نے مجھے بہت کہاکہ پارٹی جوائن کرلو لیکن ہم نے نہیں کیا
منی فیسٹو ہم نے بنایاتھا ،اقلیتی امور کی وزرات ،مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا خاکہ ہم نے ہی پیش کیاتھا ،نرسمہاراؤ نے اسے نکلوادیا ،رات میں راجیو گاندھی نے ہمیں بلاکر کہاکہ اسے ڈالو، ان کی ناراضگی کی پرواہ مت کرو،راجیوکے قتل کے بعد جتن پرساد اور کئی لوگ ہمارے پاس آگر کہنے لگے کہ آپ نے یہ منی فیسٹو بنایاتھاآپ کے دوست جاچکے ہیں تو ان کا خواب پورا کون کرے گا؟ تب ہم نے جذباتی ہوکر پارٹی جوائن کرلیا ،اس کے بعد نرسمہاراؤ نے بابری مسجد کا معاملہ کردیا،اور ہم نے کہاکہ جب تک نرسمہاراؤ کو باہر نہیں کردیں گے اپنا مونچھ نہیں بنائیں گے ،سونیا گاندھی کے آنے کے بعد مائناریٹی سیل کا چیر مین تھا ،اس وقت شری کرشنا کمیشن کی رپوٹ آئی تھی مہاراشٹرا میں شیوسینا کی حکومت تھی ہم نے کہاکہ اسے نافذ کروورنہ ہم تحریک چلائیں گے ،سونیا گاندھی نے تحریک چلانے سے منع کیا تو ہم نے استعفی دیا ،اس کے بعد سماجوادی کے لوگ آگئے اور وہاں چلے گئے لیکن وہاں بھی آزادی نہیں ملی،پھر بی ایس پی کے لوگوں نے شامل کردیا لیکن وہاں بھی یہی معاملہ تھا کہ آپ صرف ایک چہرہ بن کر رہیں گے کچھ بول نہیں سکیں گے ،اس کے بعد اجیت سنگھ نے مجھے شامل کرلیا ،جہاں بھی میں گیا ہم نے شرط رکھی کہ ہم آپ کی پارٹی میں شامل ہورہے ہیں ہمارا اخبار نہیں ،اگر آپ غلط کریں گے ہم آپ کے خلاف لکھیں گے ۔
شمس تبریز قاسمی
یہ تمام حالات آپ جانتے تھے تو پھر دوبارہ سماج وادی میں آپ نے شمولیت اختیا ر کیوں کی ؟
شاہد صدیقی
یوپی میں میرا علاقہ مظفر نگر ،سہارن پور،بجنور وغیر ہ ہے ،یہاں کے لوگ بڑی تعداد میں میرے پاس آئے او ر کہنے لگے کہ ہم ایس پی کے ساتھ ہیں آپ بھی شامل ہوجائیں یہ ہمارے مفادمیں ہے ،اعظم خان بھی آئے اور کہنے لگے کہ ہم بھی واپس آگئے ہیں شکایت ختم کرکے آپ بھی واپس آجائیں ،دوسری مجبوری بی جے پی کور وکناتھا،اپنی کوئی پارٹی نہیں ہے اس مجبوری میں ملائم سنگھ کی حقیقت کو ہم جانتے ہوئے وہاں گئے ۔مسلمانوں سے جو وعدے کئے گئے اس کو ہم نے پورا کرنے کا مطالبہ کیا جس پر وہ ناراض ہوگئے اور مودی کے انٹر ویو کوانہوں نے بہانہ بنایا۔
شمس تبریز قاسمی
موجودہ حالات میں مسلمانوں کی سیاسی ترقی کیسے ممکن ہے، انہیں کیا کرناچاہئے ، آئندہ سیاست میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں آپ اور کس پارٹی میں ؟
شاہد صدیقی
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ غیر سیاسی طور پر منظم ہوں ،یہود یوں کی کوئی پارٹی نہیں ہے لیکن وہ تعلیمی ،سماجی اور اقتصادی سطح پر بہت مضبو ط ہیں ،مسلمان بھی اگر پریشر گروپ بناتے ہیں تو سیاست ان کے گھر کی لونڈی ہوگی ۔ ایک ایسی پارٹی بننی چاہئے جوکسی شخص کی نہ ہوبلکہ وہ نظریاتی طور پر کام کرے ،ہندوستان کی جو بھی پارٹیاں ہے وہ شخصی ہے ،عام آدمی پارٹی سے یہ امیدتھی لیکن اب وہ کجریوال کی پارٹی بن گئی ہے ہر جگہ یہ کہاجارہاہے کہ کجریوال کی حکومت نے یہ کیا ،لوگ کہتے ہیں کہ شاہد صدیقی صاحب پارٹیاں بدلتے ہیں میں کہتاہوں کہ پارٹیاں بدل جاتی ہے شاہد صدیقی تو اپنی جگہ برقرار رہتاہے ،سیاسی پارٹیاں چاہتی ہے کہ مسلمان نمونے کے طور پر رہیں اپنے حقوق کی بات نہ کریں ۔ ابھی نتیش کمار وغیر ہ نے کوشش کی تھی لیکن عین موقع پر ملائم سنگھ نے دھوکہ دے دیا ۔
شمس تبریز قاسمی
شاہد صدیقی صاحب !آپ سے بات کرکے خوشی ہوئی ،ملت ٹائمز کو آپ نے وقت دیا اس کیلئے بہت شکریہ
شاہد صدیقی
صحافت کی نمائندگی کرنا اچھاکام ہے، کرتے رہیں ،ہماری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہے ،آپ نے میرا انٹرویو لیا اس کے لئے بہت شکریہ