سعودی عرب نے میری ہدایت پر قطر کا بائیکاٹ کیا ہے۔ یہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ کی ابتدا ہوگی۔ مسلم ممالک کا میرے بتائے ہوئے راستے پر چلنا قابل ستائش : ٹرمپ کا دعوی

 واشنگٹن (ملت ٹائمز )

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی وجہ سے ہی خطے میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے الزام میں قطر پر اس کے ہمسایہ ممالک نے دباؤ ڈالنا شروع کیا ہے۔
امریکی صدر کے مطابق ان کے سعودی عرب کے حالیہ دورے کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں اور حالیہ واقعات ہو سکتا ہے کہ دہشت گردی کے خوف کے خاتمے کی ابتدا ہو۔
پیر کوسعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین، لیبیا اور یمن نے قطر پر خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
قطر نے سعودی عرب اور مصر سمیت چھ عرب ممالک کی جانب سے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے اعلان کے بعد سفارتی تنازع کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات پر زور دیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی حالیہ سفر کے دوران سعودی عرب کو کہا تھا کہ قطر ‘انتہا پسند نظریات’ کی حمایت کر رہا ہے اور انہیں فنڈ دے رہا ہے۔
سعودی عرب کے کے دورے کے دوران دارالحکومت ریاض میں اپنی تقریر میں ٹرمپ نے ایران کو مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا مجرم ٹھہرایا تھا اور ساتھ ہی مسلم ممالک سے بنیاد پرستی کے خلاف کھڑے ہونے کی اپیل کی تھی۔
منگل کو انھوں نے ٹویٹ میں کہا کہ’میں نے اپنے مشرقٰ وسطیٰ کے حالیہ دورے کے دوران کہا تھا کہ انتہا پسند نظریات کا اب مزید فروغ نہیں ہو گا۔ رہنماؤں نے قطر کی جانب اشارہ کیا۔’
انھوں نے ٹویٹ میں کہا کہ’ یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ سعودی عرب کے دورے میں بادشاہ سے ملاقات اور وہاں 50 ممالک کی شرکت کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ انتہا پسندی کے فروغ کے خلاف سخت اقدامات اٹھائیں گے اور تمام کا اشارہ قطر کی جانب تھا۔ شاید یہ دہشت گردی کے خوف کے اختتام کی شروعات ہوں۔’
چھ عرب ممالک نے الزام لگایا ہے کہ قطر اخوان المسلمون کے علاوہ دولتِ اسلامیہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی حمایت کرتا ہے۔
منگل کو قطر کے وزیرِ خارجہ محمد بن عبدالرحمان الثانی کا الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو میں کہنا تھا کہ تمام ممالک کو بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات کو دور کرنے چاہئیں۔
الجزیرہ ٹی وی نے قطری وزیرِ خارجہ سے اس بحران کی وجوہات کے بارے میں سوال پوچھا تو ان کا کہنا تھا ‘ہم قطر کے خلاف پیدا ہونے والے حیران کن تنازعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم اس بحران کے پیچھے حقیقی وجوہات کے بارے میں نہیں جانتے۔’
(بشکریہ بی بی سی اردو )