مولانا ندیم الواجدی
سیرت، حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں عامُ الحزن کا ذکر ملتا ہے، ابھی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ ہی میں تشریف فرماتھے، قریش مکہ کے ظلم وستم کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جارہا تھا کہ ہجرت سے تین سال پیشتر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دو محبوب ہستیوں نے داغِ مفارقت دیا، ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشفق چچا حضرت ابو طالب تھے، جنہوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اپنے عزیز بھتیجے کا سگی اولاد سے بڑھ کر خیال رکھا، اس کے اور زمانے کے ظلم وستم کے درمیان چٹان بن کر کھڑے رہے، دوسری شخصیت ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ کی تھی جنھوں نے اپنی جان ومال سے چمن اسلام کی آب یاری کی اور جب تک زندہ رہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر طرح کے غمِ کائنات اور فکرِ حیات سے بے نیاز رکھا، اتفاق سے یہ دونوں شخصیتیں یکے بعد دیگرے دنیا سے چلی گئیں، قدر تی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کی جدائی کا بہت زیادہ دکھ محسوس کیا، یہاں تک کہ آپ نے ان دونوں کی وفات کے سال کو رنج وغم کا سال قرار دے کر دنیائے انسانیت کو ایک نئے لفظ سے آشنا کیا، اس وقت سے جب لوگ کسی برس اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی میں پے بہ پے حادثات سے دوچار ہوتے ہیں تو اسے عام الحزن کہتے ہیں، ۲۰۱۷ءکا سال بھی مدارس کے طلبہ وعلماء کے لئے حزن وملال کا سال ہے، کیوں کہ اس سال کئی اہم علمی شخصیتوں نے راہ آخرت کی مسافرت اختیار کرلی ہے۔
جانا سب کو ہے، کسی کا وقتِ رحیل آچکا، کوئی اذنِ سفر کے انتظار میں ہے، یہ دنیا آنے جانے والوں سے اسی طرح آباد رہے گی، بالآخر فنا ہوجائے گی، بعض جانے والے محفلِ ہست وبود سے کچھ اس طرح خاموشی کے ساتھ اٹھ کر چل دیتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی، نہ ان کی یاد میں کوئی آنکھ اشک بار ہوتی ہے، نہ کوئی دل بے قرار ہوتا ہے، بعض لوگ اس طرح رخصت ہوتے ہیں کہ ان کی جدائی کے غم سے آنکھیں ہی نہیں دل بھی روتے ہیں، ان کی وفات کی خبر خرمنِ ہستی پر صاعقہ بن کر گرتی ہے اور دور دور تک لوگ اس کا اثر محسوس کرتے ہیں، کسی کا آفتابِ زندگی مشرق میں غروب ہوتا ہے تو مغرب میں تاریکی چھا جاتی ہے، شمال میں ڈوبتا ہے تو جنوب میں اس کا اثر دکھائی دیتا ہے، یہ رنج اس وقت اور گہرا ہوجاتا ہے جب جانے والوں کا تعلق علم وعمل کی دنیا سے ہو، موت العالِم موت العالَم (عالِم کی موت عالَم کی موت ہے) کی صحیح تفسیر اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہیں کسی افق میں کوئی آفتابِ علم غروب ہوتا ہے، موت ایک تلخ سچائی ہے اور ہر ذی نفس کو اس سچائی کا سامنا کرنا ہے، جو لوگ رخصت ہوئے ہیں انہیں جلد یا بہ دیر رخصت ہونا ہی تھا، مگرا ن حضرات کے جانے سے جہاں یہ غم ہے کہ یہ لوگ علم وعرفان کی محفلوں سے دفعۃً اٹھ کر چلے گئے وہاں یہ غم بھی ہے کہ ان کے جانے سے جو جگہیں خالی ہورہی ہیں ان کو پُر کرنے والا کوئی نہیں ہے، اس لئے ہر ایسا حادثۂ وفات غمًّا بغمٍّ کی تفسیر بن کر رونما ہوتا ہے، بعض مرتبہ یہ خیال آتا ہے کہ کہیں یہ وہ دور تو نہیں آگیا جس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: یذهب الصالحون الاول فالأول ویبقی حفالة کحفالة الشعیر أو التمر لا یباليهم الله بالة. (بخاری رقم الحدیث: ۶۰۷۰) (نیک لوگ یکے بعد دیگرے اٹھتے چلے جائیں گے اور جو یا کھجور کے کباڑ کی طرح بے کار لوگ باقی رہ جائیں گے جن کی اللہ کو ذرا پرواہ نہ ہوگی)۔
سال رواں میں متعدد اہل علم اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں، ان میں بہت سے علم وعمل کی دنیا میں شہرت ِ دوام کے حامل تھے، دار العلوم دیوبند کے ایک بڑے استاذ کا ایک مقولہ پورے سال سے گردش میں ہے، اور ان دنوں کچھ زیادہ ہی وہ مقولہ نوک قلم پر بھی ہے اور نوک زبان پر بھی کہ یہ سال علماء کی وفات کا سال ہے، نہ جانے مولانا موصوف نے کس جذبے کے عالم میں یہ بات کہہ دی کہ واقعۃً یہ سال علماء کی وفات کا سال بن گیا، اور ابھی پانچ مہینے باقی ہیں ، اللہ سے دُعا ہے کہ وہ حضرات علماء کرام کی عمروں میں برکت عطا فرمائے کہ ان کے وجود سے علم کی دنیا میں رونقیں قائم ہیں۔
وفات العلماء کا یہ غم انگیز سلسلہ مولانا شیخ عبد الحق اعظمیؒ کے سانحۂ ارتحال سے شروع ہوا، موصوف دار العلوم دیوبند میں شیخ ثانی کے منصب پر فائز تھے اور بخاری شریف کی دوسری جلد کا درس دیا کرتے تھے، عابدِ شب زندہ دار، سادگی کے پیکر، متواضع اور منکسر المزاج، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد رشید اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ کے مجاز بیعت، نوے برس کی عمر پائی، جسمانی عوارض کے باوجود آخر وقت تک درس وتدریس سے وابستہ رہے جو چھ دہائیوں کو محیط تھا، دوسرا حادثہ کراچی پاکستان میں پیش آیا، دار العلوم دیوبند کے مایۂ ناز فرزند شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کے تلمیذ حضرت مولانا سلیم اللہ خاںؒ تقسیم ہند کے بعد لوہاری ضلع مظفرنگر یوپی سے ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے تھے، کچھ عرصے تک مختلف مدارس سے وابستہ رہے، پھر جامعہ فاروقیہ کی بنیاد ڈالی جو اب پاکستان کے بڑے جامعات میں شمار کیا جاتا ہے، ہزاروں شاگرد دنیا بھر کے ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں، ان میں سے بہت سے شاگرد شہرت کے آسمان پر آفتاب ماہتاب بن کر چمک رہے ہیں، پاکستان میں فکر دیوبند سے وابستہ مدارس کی تنظیم وفاق المدارس کے صدر تھے، مولانا کا شمار پاکستان کے ممتاز، جیّد اور بااثر علماء میں ہوتا تھا، مدارس کی روایات کا تحفظ ان کا مشن تھا،ایک لمبے عرصے تک بخاری شریف کا درس دیتے رہے، ان کے شاگردوں نے یہ درس کتابی شکل میں جمع کیا ہے، کشف الباری کے نام سے بیس جلدیں چھپ چکی ہیں، اور کئی ہنوز زیر طبع ہیں، مولانا محمد تقی عثمانی نے کشف الباری کے متعلق یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس پائے کی کتاب اُردو میں تو کیا عربی میں بھی موجود نہیں ہے، مولانا سلیم اللہ خاںؒ نے ۱۶/ جنوری ۲۰۱۷ء کو کراچی میں وفات پائی اور وہیں جامعہ فاروقیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔
مولانا عبد الحفیظ مکیؒ انٹرنیشنل ختم نبوت مؤمنٹ کے امیر تھے، مدینہ منورہ کے ایک قدیم مدرسے میں بخاری شریف کا درس دیا کرتے تھے، حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلویؒ کے شاگرد بھی تھے اور ان کے خلیفۂ مجاز بھی، نہایت متحرک اور فعال شخصیت تھے، علوم دینیہ کے فروغ کے لئے ہمہ وقت سرگرم عمل رہا کرتے تھے، دعوتی سفر پر افریقہ میں تھے کہ ۱۸/ جنوری ۲۰۱۷ء کو وقت موعود آپہنچا، نمازِ جنازہ مسجد نبوی میں ادا کی گئی اور جنت البقیع میں دفن ہونے کی سعادت حاصل کی۔
مولانا ریاست علی بجنوریؒ کا شمار بھی دار العلوم دیوبند کے ممتاز علماء اور فضلاء میں کیا جاتا ہے، حضرت شیخ فخر الدین مرادآبادیؒ کے شاگرد تھے، بل کہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ وہ اپنے استاذ کے علوم ومعارف کے امین اور ترجمان تھے، کئی سال تک اپنے استاذ کے درس بخاری میں شریک رہے، اور ان کے دروس ضبط تحریر میں لاتے رہے، جو ایضاح البخاری کے نام سے دس جلدوں میں چھپ چکے ہیں، اور ابھی ان کی طباعت کا سلسلہ جاری ہے، مولانا ریاست علی بجنوریؒ دار العلوم دیوبند میں استاذ حدیث تھے، بہترین مدرس، اُردو کے شگفتہ نثر نگار، قادر الکلام شاعر، باغ وبہار طبیعت کے حامل، مہمان نوازی میں بے مثال، فکر وتدبر اور اصابت رائے میں بے نظیر، مولانا کے مفاخر میں یہ بات شامل ہے بلکہ سر فہرست ہے کہ وہ ترانۂ دار العلوم کے خالق ہیں، افسوس ۲۰/ مئی ۲۰۱۷ءکو ہم سے جدا ہوگئے۔
مولانا نسیم احمد غازیؒ مظاہر العلوم سہارن پور کے فیض یافتہ تھے اور عرصۂ دراز سے مراد آباد کے معروف ادارے جامع الہدی میں بخاری شریف پڑھا رہے تھے، مفتی مظفر حسین سہارن پوری سے اجازت بیعت حاصل تھی، اچھے معلم، ماہر مدرس، شعلہ بیان مقرر، سنجیدہ مصنف اور محقق، بہترین شاعر،حق گو حق پسند، کئی کتابیں لکھیں، افسوس مولانا بھی چند روز قبل ۸/جولائی ۲۰۱۷ءکو وفات پاگئے، اس سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی شیخ یونس جونپوریؒ تھے، جن کی وفات کا حادثہ کل ۱۱/ جولائی ۲۰۱۷ءکی صبح کو سہارن پور میں پیش آیا، شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلویؒ کے شاگرد ، خلیفۂ مجاز اور مظاہر علوم میں ان کے جانشین تھے، چالیس سال تک بخاری شریف کا درس دیتے رہے، حدیث پر بڑی عمیق نظر تھی، اس پائے کا محدث کوئی دوسرا نظر نہیں آتا، وہ بجا طور پر ہمارے زمانے کے امیر المؤمنین فی الحدیث تھے، فن حدیث میں ان کے تحریری مباحث الیواقیت الغالیہ کے نام سے کئی جلدوں میں چھپ چکے ہیں، حال ہی میں نبراس الساری إلی ریاض البخاری کے نام سے بخاری شریف پر ان کی تحقیقات کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہے۔
نام تو اور بھی کئی ہیں، اور ان میں بعض نام نہایت اہم بھی ہیں مگر راقم نے پانچ بزرگوں کا اس لئے انتخاب کیا ہے کہ ان میں کئی باتیں قدر مشترک کے طور پر پائی جاتی ہیں، مدارس سے مکمل وابستگی، علوم دینیہ کی اشاعت میں پورا انہماک، زندگی کے آخری لمحات تک درس دینے کا مشغلہ، بخاری شریف کے ساتھ حد درجہ شغف، بلا واسطہ شاگروں کا عدد ہزاروں سے اور بالواسطہ شاگردوں کی تعداد لاکھوں سے متجاوز، علوم حدیث کی تحریری خدمت، یہ وہ خصوصیات ہیں جو ان بزرگوں کو علم وعمل کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھیں گی، اور آنے والی نسلیں ان کے نقش قدم پر چلنے کو سعادت تصور کریں گی۔
nadimulwajidi@gmail.com