آہ! مولانا شفیق قاسمی

مسعود حساس کویت

آہ مولانا شفیق صاحب القاسمی
جنکی دینی خدمات پہ درجنوں حضرات پی ایچ ڈی کر سکتے ہیں
جنکے بے لوث جذبے پہ سیکڑوں مقالے لکھے جا سکتے ہیں
جنکی سادہ لوحی کو ضرب المثل قرار دیا جا سکتا ھے
جنکی تبحر علمی پہ کتب خانے تعمیر کیے جا سکتے ہیں
آپ کو رجال سازی کے فن سے خدا نے نوازا تھا یہی سبب ھے کہ زندگی کے ہر میدان میں انکے شاگردان کامیاب ترین زندگی گزار رہے ہیں
جن میں کچھ فیکٹریوں کے مالکان کچھ شہر کے نام چین بلڈرس کچھ عالمی تاجر بھی ہیں
اللہ نے انہیں ابتدا ء ہی سے علم کی محبت میں یوں غرق کردیا تھا کہ پہلے بیٹے کی پیدائش پہ نام بھی غزالی تجویز کیا اور جب اللہ نے دوسرے بیٹے سے نوازا تب بھی غزالی ہی منتخب فرمایا ہاں دونوں کی یکسانیت کو ختم کرنے کیلیے بڑے کے نام سے قبل محمد اور دوسرے کے نام سے قبل احمد لگا دیا
حضرت مولانا کو عموما انکی درسی خدمات کیلیے جانا جاتا ھے جبکہ سچ یہ ھے کہ انکی غیر درسی خدمات کا بھی ایک لا متناہی سلسلہ ھے
ایک بار تذکرہ ممبئ اور اسکے اطراف کی درگاہوں اور مزارات کا چل نکلا پھر تو مولانا نے تقریبا سبھی مشہور مزارات کے تعمیر کا وقت بزرگ کا انتقال اور پھر وہاں پہ جاری عرس وغیرہ کی مکمل تاریخ بیان کی اور اخیرا اپنے مخصوص انداز میں یوں کہا
قسم خدا کی مولانا ایک ایک مزار کی اصلیت و حقیقت بتا سکتا ہوں سب مجھے حفظ ھے
خدائے برتر نے انہیں گوشت پوست کا جسم تو عطا کیا تھا مگر جفا کشی کی ایسی عادت ڈال دیے تھے کہ کبھی کبھی ان کے بدن کے پتھر ہونے پہ گمان ہوتا تھا
ممبئ نمبر تین اور اسکے دس کلو میٹر اطراف میں تو یوں چلتے پھرتے رہتے تھے مانو کوئ گھر کی چہاردیواری میں مست خرام ہو
مولانا نے اپنی اس مجاہدانہ صفت کا زندگی بھر بخوبی استعمال کیا یہی سبب ھے کہ جب اللہ نے اپنی والدہ کے ساتھ حج کی سعادت سے نوازا (واضح رہے یہ سفر پانی کے جہاز سے تھا ) تو انہوں نے ایک دن میں باون طواف کیا
جی ہاں باون طواف کیا
ایک انسان کی حیثیت سے یہ کارنامہ میرے لیے ناقابل یقین تھا اسی لیے میں نے ان سے بار بار طواف کی تعداد معلوم کی اور انہوں نے بار بار اسکی تصدیق بھی کی جسکی میں نے ویڈیو گرافی بھی کی تھی اللہ کرے وہ محفوظ ہو
میری اور انکی یہ گفتگو اس وقت ہو رہی تھی جب وہ صاحب فراش ہو چکے تھے اور وہ اپنے ملنے جلنے والوں سے بار بار کہتے کہ دعا کیجیے اللہ مجھے اپنے پاس بلا لے
اسلیے یقین سے کہا جا سکتا کہ ایک صاحب فراش خدا سے ملاقات کا متمنی کبھی بھی طواف کی تعداد میں اضافہ نہیں کرے گا
کیونکہ اولا تو وہ خشیت کے اس مقام پہ تھے جہاں ایک مجذوب ایک قلندر ایک عارف باللہ ایک قطب ہوا کرتا ھے ثانیا جب وہ اللہ کے سامنے پیشی چاہ رہے تھے تو غلط بیانی کا کوئ سوال ہی نہیں ہوتا
مولانا نے تا حیات کبھی بھی پیسوں کی طرف نہ دیکھا بلکہ اپنی مختصر تر آمدنی کے اعتبار سے پاؤں پھیلاتے رہے اس کے باوجود آپ کا دسترخوان اتنا وسیع تھا کہ اہلیہ کی زندگی میں شاید و باید ہی کوئ جمعہ کوئ عید بقرعید کوئ محرم یا دیگر چھٹی کے ایام آئے ہوں اور ان کے گھر پہ مہمانان کی ایک کثیر تعداد نہ آئ ہو
اہلیہ محترمہ جو کہ چند برس قبل ٹھیک اسی عربی تاریخ یعنی چوبیس شوال کو انتقال کرگئ تھیں کبھی بھی تنگ دامانی کا گلہ نہ کرتیں اور تمام مہمانان کی خاطر تواضع مچھلی پکا کے کرتی تھیں بلکہ انکے ہاتھوں میں اللہ نے اس بلا کی لذت رکھی تھی کہ مولانا بدرالدین اجمل القاسمی باقاعدہ فرمائش کرکے انکے ہاتھوں سے مچھلی پکواتے تھے
گو کہ ایک ساس داماد کی حیثیت سے میرا انکا طویل ترین ساتھ نہ رہا لیکن مختصر وقفے میں انہیں پتی ورتا میں ایک مثالی خاتون پایا انکی زندگی تمام خاندان کیلیے ایک شجر سایہ دار کی سی تھی انہیں کے انتقال کے بعد ہی حضرت مولانا مرحوم ٹوٹ پھوٹ گیے تھے بہت سے لوگوں نے انہیں دوسری شادی کی صلاح دی جسے انہوں نے سختی سے رد کردیا اور آخری سانس تک اپنی اکلوتی محبت سے حقیقی وفاداری یوں برتی کہ اللہ نے مرحومہ کی تاریخ وفات ہی انکے لیے پسند فرمایا
مولانا کی وفات انکے بچوں کیلیے جتنی غمناک ہے اس سے کہیں زیادہ اہل اللہ و اہل العلوم انکے ساتھ دفن ہوئے علمی خزانے پہ ماتم کناں ہیں انکا جانا ایک عہد ساز شخصیت سے محرومی ایک اخلاص پسند و اخلاص بدست انسان کی غیبوبت ہے
مولانا مرحوم دینی معاملات میں انتہائ سنجیدہ تھے دارالعلوم امدادیہ میں کسی مسئلے کو لیکے مجھ میں اور ان میں اختلاف در آیا انہوں نے دلائل سے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی جوابا میں نے بھی اپنے مطمح نظر کی تائید میں دلیل دی
آنحضرت کو میرے دلائل بچکانہ اور غیر معیاری نظر آئے جس پہ انہوں نے درشت لہجے میں تنبیہ کی مگر قربان جاؤں کہ دو منٹ بعد ہی وہ میرے وہی سسر تھے جسے دنیا شفیق الشفقت کہا کرتی تھی
ان کے انتقال کی خبر گو کہ تین پینتالیس پہ عام ہوئ لیکن میں نے ڈھائ بجے ہی انکی بیٹی کو ذھنی طور پہ تیار کرتے ہوئے کہدیا تھا کہ حضرت مولانا اب نہ رہے اور وہ میرا منہ تکنے لگی
اللہ جانے یہ میرا وجدان تھا یا عرفان یا فقط زبانی لفظ مگر حالات کے اعتبار سے میرا تجزیہ درست ثابت ہوا
روز مرہ کی طرح پانچ سے سات صابو صدیق اپنے آئ سی یو روم کی دروازے زائرین کیلیے کھول دیتا تھا اور اسی مناسبت سے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ ممبئ کی جانب پیش قدمی کیا ابھی ممبرا اسٹیشن کے پلیٹ فارم پہ قدم رکھا ہی تھا کہ امجد سلمہ نے فون پہ بتایا … خالو اب آنے کی ضرورت نہ رہی گھر جائیں اور دیگر انتظامات کریں
گھر پہونچا تو انکی چھوٹی بیٹی سراپا غم بنی دھاڑیں مار مار کے رو رہی تھی اور دیکھتے دیکھتے بے ہوش ہو گئ
میں مزید گھبرا گیا دونوں بہنوں کو تسلی دیتا رہا اور نصف گھنٹے بعد انہیں مولانا کے فلیٹ پہ پہونچا کے دیگر انتظامات کی جانب لپکا
بھلا ہو مولوی مصیب الرحمن اور سبحان چاچا اور حافظ ایوب صاحب کا کہ ان دونوں حضرات نے قدم قدم پہ ساتھ دیا ورنہ میں غریب الدیار کا باسی ممبئ میں حالات کا سامنا نہ کرسکتا تھا
ساڑھے آٹھ بجے میت کی گاڑی ممبرا پہونچ چکی تھی اور پروگرام کے مطابق خواتین کو تھوڑی دیر چہرہ دیکھنے کا موقع دیا گیا ازاں بعد غسل کی تیاری ہو گئ
جس میں یسین صاحب کے ساتھ امدادیہ کے ایک مولانا صاحب مجیب اللہ اور میں نے شرکت کی جبکہ مولوی ارشد پانی دینے کیلیے مامور کیے گیے اور مولانا اسلم کے حق میں کفن اور اس کے لوازمات کی جانب کھڑا ہونا آیا بقیہ دیگر بہہ خواہان چادر تان کے پردے کے انتظام میں لگے تھے
غسل کے بعد میت کو نیچے لایا گیا جہاں ایک جم غفیر آنکھوں میں اشک لیے انکے دیدار کا منتظر تھا خدشہ تھا کہ بارش نہ ہو جایے اور بھیڑ کی بناء پر افراتفری کا بھی ڈر تھا
مگر حاضرین جن میں بیشتر علما اور متعلقین تھے انتہائ شائستگی سے انکی زیارت کیے
دس بجے کے قریب انکا جنازہ قبرستان کی جانب رواں تھا جہاں مزید لوگ منتظر تھے
مولانا مرحوم کے بڑے بیٹے محمد غزالی نے مولانا حلیم اللہ صاحب مہتمم سراج العلوم بھونڈی نیز جنرل سکریٹری جمعیت علمائے مہاراسٹرا سےنماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی
نماز جنازہ کی بھیڑ کو دیکھتے ہوئے کم و بیش آٹھ دس مصلیان کو تکبیر بالجہر کی سعادت نصیب ہوئ
یہی وہ وقت تھا جب بارش نے یک بیک زور پکڑ کے مولانا کے جنازے کا استقبال کیا ازاں بعد مکمل خاموش ہوگئ
تدفین کیلیے امرت نگر قبرستان کی جانب بڑھے جہاں مولانا اسجد سلمہ اور مجھ غریب کو قبر میں اترنے کی سعادت ملی
نماز جنازہ اور تدفین میں دارالعلوم امدادیہ کے اساتذہ اور طلباء کے علاوہ وقت کے جید علماء نے شرکت کی جسمیں قابل ذکر نام مفتئ مہاراسٹرا مفتی عزیز الرحمن بھی تھے
اس جنازے میں کاف ف مولانا ٹریڈنگ کے ایم ڈی محترم امیر بھائ بھی شریک ہوئے جن کے والد مرحوم قاضی فخرالدین مولانا کو عزیز از جان تصور کرتے تھے بلکہ سفر آخرت سے چند منٹ قبل جناب جی جناب جی کہکے انہیں بلانے کی تلقین کررہے تھے
مولانا مرحوم کے تعلقات شہر کے چوٹی کے مالداروں سے تھا بلکہ گھر جیسا معاملہ تھا یہی سبب ھے کہ جب اور جس وقت چاہا جسے چاھا اجمل پرفیومس میں اسے ملازمت دلوادی انہیں میں سے ایک میں بھی ہوں مگر مولانا نے کبھی بھی سیٹھوں کی گداگری نہیں کی بلکہ عزت نفس اور وقار جان کو ملحوظ خاطر رکھا
شاید یہی وجہ تھی کہ ممبئ کے اکابرین انکے ہوسپٹل کے مصاریف کو اپنے لیے خوش قسمتی تصور کرتے تھے
بڑے بڑے حکومتی آفیسران اور باڈی گارڈ والے حضرات جب ان کی عیادت کو آتے تو اریب قریب کے مریضوں پہ حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا وہ زبان حال سے سوال بن جاتے
اللہ یہ مجذوب عام سا انسان آخر ہے کون دنیا جہان کے مقتدر حضرات جسکی قدم بوسی کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں ۔
مولانا چلے گیے لیکن نہیں گیے کیونکہ وہ اپنے ہزارہا شاگردوں کے دل میں دھڑکن بن کے دھڑک رہے ہیں
بلبل بھی ہے اداس نشیمن اداس ہے
تم کیا چلے گیے ہو کہ تن من اداس ھے
جاری ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں