کاش’ پنامہ پیپرس‘ کا فیصلہ انڈیا میں بھی ہوتا! ؟

عمران عاکف خان

’پنامہ پیپر س اسکینڈل‘ …… یعنی ’موسیک فونیسکا ‘ نامی کمپنی کے ذریعے اکھٹا کیا گیاایک کروڈ پندرہ لاکھ خفیہ فائلوں اوردستاویزوں کا ذخیرہ جس میں 2,14,000کمپنیوں کے متعلق معلومات درج ہیں ۔جو اب تک پانچ ممالک کے متعلق انکشاف کر چکی ہے۔جن میں ارجنٹائنا،آئس لینڈ،سعودی عرب،یوکرین،یواے ای سمیت چالیس کے قریب ممالک میں تعینات حکومتوں کے متعلق انکشاف کر چکا ہے جن میں برازیل،چائنا،میرو،فرانس،انڈیا،ملیشیا،میکسکو،پاکستان،انڈونیشیا،روس،جنوبی افریقہ،اسپین،شام اور بر طانیہ شامل ہیں ۔
نوٹ:مذکورہ کمپنی کا آغاز 1977میں جرمین مسّاک اور رومن فونیسکا نے کیا ۔اس کے پانچ سے زیادہ عہدے داران پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جو چالیس کے قریب مقتدرہ اور ضمنی آفسوں کے تحت کام کرتے ہیں ۔یہ کمپنی دنیا بھر میں تین لاکھ سے زیادہ کمپنیوںکے لیے کام کرتی ہے۔
ان اہم ترین اطلاعات کے بعد جب ہم اپنے پنامہ پیپرس کے انکشافات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری حیرتوں کی انتہانہیں رہتی۔یہ کیسا عفریت ہے جو پوری دنیا میں چھایا ہوا ہے اور حکومتوں اور سیاسی رہنماﺅں کی عوام و عدالت کی نظر میں نااہل بناتا جارہا ہے یا دوسرے لفظوں میں انھیں آسمانوں سے زمین پر لا رہا ہے۔جس کا حال ہم نے حالیہ دنوں پاکستان کی سب سے طاقت ور جماعت اور اس کے سب سے طاقت ور اور اس کے سابق زیر اعظیم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ دیکھا۔وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عوام کی نظر میں صادق و امین نہیں رہے لہٰذا اتنے مقتدر اور اعلا عہدے سے بھی بر خاست کر دیے گئے۔اسی طرح اگر ہم ماضی میں اور جھانکیں تو کئی ممالک کے سربراہ،وزرائے اعظم اور دیگر ارکان مملکت یا سیاسی رہنمااس کی چپیٹ میں آکر نااہل،معطل یا غیر بھروسے مند قرار دیے گئے ہیں اس طرح جہاں ان کا سیاسی کرئیر ختم ہوا ہے وہیں عوا م الناس کی نظر میں ان کی اہمیت کوڑیوں کے برابر بھی نہیں رہی ۔
حالیہ دنوں پاکستان میں سپریم کورٹ کی جانب سے آنے والے اس اہم ترین فیصلے نے پوری جنوبی ایشیائی سیاست کو گرمادیا۔کئی ممالک میں ماحول بہت عجیب طرح سے تبدیل ہوگیا ۔چنانچہ اس کے بعد ان ممالک میں بھی انصاف،حکومتوں کی جواب دہی اور عدالت میں پیشی کے سُر اٹھنے لگے ہیں جن میں بزور طاقت اپوزیشن اور عوام کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔چنانچہ وہاں کے عوام اور اپوزیشن جماعتیں بار بار احتجاجی جلوس نکال رہے ہیں اور حکومت سے جواب طلب کررہے ہیں ۔چنانچہ انھیں جوا ب تو نہیں ہاں! پولیس کی گولیاں اور لاٹھیاں ضرور مل رہی ہیں ۔
اسی بات کو اگر ہم ہندوستانی تناظر میں دیکھیں تو یہاں متعدد ایسے قومی رہنما ہیں جن پنامہ پیپر س کی رُوسے کرپٹ اور بدعنوان ہیں ۔ان میں جہاں عوامی نمایندے ہیں وہیں پبلک فیگر یا گلیمر کی دنیا سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ہیں ۔اگر میں نام لوں تو موجودہ بی جے پی حکومت کے متعدد کابینی وزرا اور اس کے کئی ایم پی ان کی فہرست میں شامل ہیں ۔امیتابھ بچن،ایشوریہ رائے بچن۔بی جے پی رہنما اور بزنس مین ششیر بجوریا۔ڈی ایل ایف فاﺅنڈر کے ۔پی۔ سنگھ اور فیملی۔اپولو ٹائر کے سربراہ او۔ایس کنور،نیرج کنور۔سابق کرکٹر اشوک ملہوترا۔جیولر اشونی کمار مہرا۔انڈیا بلس کے مالک سمیر گہلوت ،سابق گورنمنٹ آفیسر پر بھاش سنکلا۔اسی طرح بے شمار نام ہیں جو ملک کے اعلا اور اہم عہدوں و مقامات پر رہے اور انھوں نے ملکی دولت و عوام کی گاڑھی کمائی کو اپنی ذاتی جائداد سمجھا اور حق دارو ںکے منہ سے ان کا جائز نوالہ تک چھین لیا۔
اس کے بعد ۔اب سوال کھڑا ہوتا ہے کہ جس طرح پاکستان کی عدالت عالیہ نے ایک تاریخی فیصلہ سنا کر وہاں کے طاقت ورترین شخص کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برخاست کر کے دھول چٹادی،کیا اسی طرح کا کوئی فیصلہ ہندوستان میں بھی آسکتا ہے۔کیا یہاں کے عوام کو بھی انصاف مل سکتا ہے اور ان کی دولت کو لوٹنے والے،انھیں دن کے اجالے میں برباد کر نے والے ،کیا ان ہی کے سامنے سزا پاسکتے ہیں ۔کیا ایسا ممکن ہے انڈیا میں انصاف کا سورج چمکے اور یہاں کے لُٹے پِٹے عوام انصاف کی ٹھنڈی اور نرم دھوپ کا مزہ چکھیں !حالاں کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے مگر عدالت کے لیے کیا مشکل ہے!ہاں!مگر اس وقت بات دوسری ہے جب عدالت میں ہی’ پنامہ پیپرس ‘ میں شامل داغی ججس اور منصف بیٹھے ہوں ۔وہ تو کسی طور پر بھی اس قسم کے فیصلے نہیں سنا سکتے ۔شاید انھیں ڈر ہو کہ جس کو وہ نااہل قرار دے رہے ہیں وہی بھری عدالت میں ’مائی لارڈ ‘کو ننگا کردے۔چنانچہ ’مائی لارڈ ‘عدالت اور کورٹ سے ہی منہ کالا کر کے نکلیں۔مگر ان خدشات اور اندیشوں سے کیا ہوسکتا ہے۔جو بات سچ ہے وہ تو سامنے آنی ہی چاہیے۔اگر حکومتی عہدیدار،بزنس مین،کمپنیوں کے فاﺅنڈرس یا ججس کرپٹ ہیں تو اس کا مطلب یہ تھوڑی نا ہے کہ عوام اپناحق اور نہ انصاف نہ مانگیں گے۔ضرور مانگیں گے اور ڈنکے کی چوٹ پر مانگیں ۔پھر اس کے بعد بھی اگر چوں چرا ہوتی ہے اور عدالتیں و حکومت جواب نہیں دیتی ہیں تو انھیں گلی گلی،گھر گھر،شہر شہر،ملک ملک چور کہا جائے گا۔
پاکستان میں آنے والا یہ فیصلہ جہاں ہندوستانی حکومت اور یہاں کے رہنماﺅں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے اور ان کے لیے نشان عبرت بھی وہیں یہاں کے عوام کے لیے ایک عظیم الشان خوش خبری بھی کہ ضرور ہندوستان میں بھی اسی قسم کا فیصلہ آئے گا اور بہت جلد یہاں کے عوام کو انصاف ملے گا۔انھیں چوروں اور ڈکیتوں سے راحت ملے گی ۔انھیں ان کی گاڑھی کمائی چرانے والوں کو سزایاب دیکھنے کا موقع ملے گا۔یہ واقعہ ان رہنماﺅں کے لیے نشان عبرت اس لیے ہے کہ،گویا یہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یا تو بہت جلد اپنے گناہوں کا اعتراف کرلو ورنہ قدرت کی لاٹھی بہت بے آواز ہوتی ہے جو اب بس بہت جلد چلنے ہی والی ہے۔عوام کے خون پسینے کی کمائی آپ یوں ہی نہیں ہڑپ سکتے ۔آپ ملک کی دولت کا اپنے مفادات کے لیے بے دریغ اور ان کی اجازت کے بغیر استعمال نہیں کرسکتے ۔اگر ایسا کرتے ہیں تو یہ بہت بڑا گناہ اور ناقابل معافی جرم ہے۔جس کی سزا اسی دنیا میں مل کر رہے گی ۔نیز کسی بند کمرے میں نہیں بلکہ عوام کے سامنے ۔ان عوام کے سامنے جنھیں آپ اپنی چپلوں اور جوتیوں کے برابر بھی نہیں سمجھتے ۔جن سے بات کرنا آپ کے اسٹیٹس اور وقار کے خلاف ہے۔
اب بہت جلد ہندوستان میں بھی وہ سورج طلوع ہونے والا ہے جسے انصاف کا سورج کہا جاتا ہے۔جو ملک کے تمام بد عنوانوں کے کالے کرتوت روشنی میں لادے گا اور جو ان کی برائیوں پر پڑے پردے چیردے گا۔ہمیں اس سورج اس کی نرم گرم ،شعاعوں کا بہت شدت سے انتظار ہے۔قدرت کا اصول ہے کہ وہ اپنے ناتواں بندوں پر ان کی طاقت اور حیثیت یا برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتی چنانچہ جب بندوں کی قوت برداشت کی انتہا ہوجاتی ہے تو وہ ان پر رحم کر نا شروع کردیتی ہے اور جن اسباب و محرکات کی وجہ سے وہ پریشان ہوئے ہیں ۔ان کا خاتمہ ہونا شروع کردیتی ہے۔اب اگر وہ انسان ہوں یا،اسباب،کاینات ہو کہ ماحول،موسم ہو کہ وقت،آسمان ہو کہ زمین،حکومت ہو کہ سرکار اور انتظامیہ سب کا احتساب شروع ہوجاتا ہے اور سب خدا کی اس عدالت اور پکڑ کے نرغے میں آجاتے ہیں جس کے بارے میں قرآن مجید میں کہا گیا ہے”ان بطش ربک لشدید“اس بطش شدید یا سخت پکڑ کا حال ان سے پوچھیے جو اس کے نرغے میں آتے ہیں اور ان کا وجود بکھر کر رہ جاتا ہے۔وہی وجود جس کی ساخت میں غریبوں اور کمزورو ںکی دولت اور بد دعائیں شامل ہوتی ہیں ۔
imranakifkhan@gmail.com