تین طلاق پر عدالتی فیصلے کے تعلق سے کچھ معروضات

مولانا ندیم الواجدی
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مسلمانوں کا قیمتی اثاثہ بھی ہے اور ان کی آخری امید بھی، اس کی کوئی آواز آج تک صدا بہ صحرا ثابت نہیں ہوئی، مسلمان اس کی ایک اپیل پر دوڑے چلے آتے ہیں ، گزشتہ دنوں تین طلاق کے معاملے میں اس نے مسلم خواتین کے دستخطو ں کی مہم چھیڑی ، کروڑوں کی تعداد میں مسلم خواتین نے اس کے جاری کردہ محضر نامے پر دستخط کردیئے، ملی تاریخ میں یہ واقعہ ایک ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے ، بورڈ کا جب بھی کہیں کوئی جلسہ یا میٹنگ ہوتی ہے مسلمانوں کی نگاہیں اور دل اُدھر ہی متوجہ ہوجاتے ہیں،حال ہی میں تین طلاق پر عدالتی فیصلے سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرنے کے لیے بھوپال میں مجلس عاملہ کی میٹنگ منعقد کی گئی، مسلمانانِ ہند شدت کے ساتھ اس میٹنگ کے منتظر تھے اور اس سے کسی بڑے فیصلے کی امید لگائے بیٹھے تھے، عام تأثر یہ ہے کہ مجلس عاملہ نے اس معاملے کو ٹالنے کی کوشش کی ہے، ہماری ملی تنظیموں اور اداروں کی یہ روایت رہی ہے کہ جب وہ کسی مسئلے کو ٹالنا چاہتے ہیں تو اسے کسی کمیٹی کے حوالے کردیتے ہیں، مجلس عاملہ نے بھی ایک کمیٹی بنا دی ہے جو فیصلے کا تجزیہ کرے گی اور اپنی رپورٹ بورڈ کو دے گی، اس عام تأثر کے بر خلاف راقم کی رائے یہ ہے کہ مجلس عاملہ نے صحیح فیصلہ کیا ہے کیوں کہ سب سے پہلے تو عدالتی فیصلے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، ابھی تک تو اس فیصلے کو جو تین سو پچانوے صفحات پر مشتمل ہے صحیح طریقے سے پڑھا بھی نہیں گیا، سمجھنا تو دور کی بات ہے، جس وقت یہ فیصلہ آیا تھااس وقت بعض لوگوں نے خوشی سے بغلیں بجائی تھیں،بورڈ کے وکیل نے تو اسے تاریخی فتح تک قرار دے دیا تھا، ہم حیران تھے یا اللہ ! یہ کیسی فتح ہے، ہم تین طلاق کو باقی رکھنے کا مقدمہ لڑرہے تھے یا ختم کرنے کا، فیصلے سے تو تین طلاق ختم ہوتی نظر آرہی ہے، بی جے پی خوشی سے پھولے نہیں سمارہی ہے، وزیر اعظم تک نے ٹوئیٹ کرکے اس دن کو مسلم خواتین کی آزادی کا دن قرار دیا ہے، پھر یہ ہماری فتح ہے یا ان کی؟ عدالت نے چھے ماہ کے لیے تین طلاق پر پابندی لگا دی ہے، اور حکومت سے کہا ہے کہ وہ قانون سازی کرکے ہمیشہ کے لیے اس کا قصہ ہی پاک کردے، عدالت نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر حکومت چھ ماہ کے اندر کوئی قانون نہیں بناتی تو یہ پابندی چھ ماہ کے بعد بھی برقرار رہے گی، گویا مدت کی بھی کوئی تحدید نہیں ہے، اب قانون سازی کی بھی ضرورت نہیں، حکومت بھی اپنی جگہ مطمئن کہ پابند ی تو لگی ہوئی ہے، پہلے دن تو ہمارے بعض بزرگوں نے بھی فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا لیکن جلدی ہی انھیں احساس ہوگیاکہ فیصلہ تو مایوس کن ہے، ایک بات جس پر بعض لوگ زیادہ اچھل کود کررہے تھے وہ یہ تھی کہ عدالت نے یہ مانا ہے کہ دستور کی دفعہ 25 کے تحت مسلم پرسنل لاء کو تحفظ حاصل ہے، لہٰذا اس میں کسی طرح کی مداخلت نہیں ہوسکتی، اوّل تو یہ رائے پانچ ججوں میں سے دو ؛ جسٹس کھیر اور جسٹس عبدالنذیر کی ہے ، باقی تین ججوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ، پھر یہ بات سب جانتے ہیں کہ پالیمنٹ کے دونوں ایوان اگر چاہیں تو وہ کسی قانون میں تبدیلی بھی کرسکتے ہیں، اس کو منسوخ بھی کرسکتے ہیں اور اس کی جگہ کوئی دوسرا قانون بھی لاسکتے ہیں، ججوں نے اسی پسِ منظر میں حکومت کو قانون سازی کی ہدایت دی ہے، یہاں یہ بتلانا بھی ضروری ہے کہ ہمارے قابل وکیل نے ہی معزز ججوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ یہ معاملہ حکومت کو بھیجیں، چناں چہ جسٹس نریمن اور جسٹس للت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وکیل نے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کو بطور نظیر پیش کرتے ہوئے کہا کہ پرسنل لاء دفعہ 25 کی شق (۲) کے تحت بنیادی حقوق کے دائرے میں آتا ہے ، عدالت اس کو ختم نہیں کرسکتی کیوں کہ یہ اس کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے ، وکیل نے عدالت کو بتلایا کہ اس شق میں ترمیم یا اصلاح کا حق صرف قانون ساز اسمبلی کو ہے، عدالت کو چاہئے کہ وہ تمام فریقوں کو وہیں بھیجے، چناں چہ معزز ججوں نے قابل وکیل کی رائے پر عمل کرتے ہوئے یہ معاملہ حکومت کے حوالے کردیا۔
ہماری پہلے دن سے یہ رائے ہے اور فیصلے کے جو کچھ حصے اخبارات کے ذریعے ہم تک پہونچے ہیں ان کو دیکھنے کے بعد آج تک ہم اسی رائے پر قائم ہیں کہ سارا کھیل بورڈ کے وکیل کا بگاڑا ہوا ہے، انھوں نے بڑی کمزور پیروی کی ہے، دلائل کے نام پر ان کے پاس کچھ تھا ہی نہیں، وہ ججوں کو بہت سے امور میں مطمئن نہ کرسکے، نہ انھیں سمجھا پائے اور نہ ان کے کسی سوال کا تسلی بخش جواب دے سکے، نتیجہ یہی نکلنا تھا جو نکلا، ہمارا ماتھا تو اسی وقت ٹھنک گیا تھا جس دن انھوں نے آستھا اور عقیدت کا سوال کھڑا کیا تھا ،اس وقت ان کے اس عدالتی بیان پر کافی واویلا مچا تھا کیوں کہ کسی چیز کا مرکز عقیدت ہونا الگ بات ہے اور اس کا حقائق سے مربوط ہونا بالکل الگ معاملہ ہے، قارئین کو یاد ہوگاکہ راقم سمیت بہت سے لکھنے والوں نے لکھا تھا کہ عدالتی فیصلے یا کسی بھی طرح کے وہ فیصلے جن میں حق و انصاف کے تقاضے بنیادی حیثیت رکھتے ہوں آستھا اور عقیدت کی بنیاد پر نہیں ہوتے، بلکہ ان میں حقائق اور شواہد کو پیشِ نظر رکھا جاتاہے ،بابری مسجد کے قضیے میں فریق مخالف کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسری دلیل نہیں ہے کہ وہ جگہ ہندوؤں کی آستھا کا مرکز ہے، مسلمانوں کا یہ پہلے بھی موقف تھا اور آج بھی یہی موقف ہے کہ یہ معاملہ حقِ ملکیت کا ہے، زمین ہماری ہے اور اس کے جائز دستاویزی ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں، اس پر جو مسجد تعمیر شدہ موجود تھی وہ جائز طریقے سے بنائی گئی تھی، کئی سو سال تک یہ مسجد غیر متنازعہ رہی ، مسلمان ہی اس کے مالک ، قابض اور متصرف رہے ہیں، اس صورت میں فیصلہ آستھا پر نہیں حقائق پر ہونا چاہئے، وکیل صاحب کو چاہئے تھا کہ وہ آستھا کے دائرے سے باہر آتے اور عدالت کو تین طلاق کی حقیقت سے واقف کراتے اور یہ بتلاتے کہ تین طلاق شریعت کا حصہ ہے اور اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کچھ شواہد بھی عدالت کے سامنے رکھتے اس صورت میں یہ ممکن تھا کہ عدالت کا فیصلہ کچھ اور ہوتا ۔
عدالت کے فیصلے پر غور و خوض کرنے کا سلسلہ دیر ہی سے صحیح شروع ہونے جارہا ہے، اس سلسلے میں بورڈ کے وکیل کی بحثوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، مفتی یاسر ندیم نے تین سو پچانوے صفحات پر مشتمل عدالتی فیصلے کا بہ غور مطالعہ کرکے بورڈ کے وکیل کے بیانات اور ان پر ججز کے تبصروں کا تجزیہ کیاہے، جس کو ان کی فیس بک وال پر دیکھا جاسکتا ہے، ان بحثوں سے ایسا لگتا ہے کہ جس معاملے میں وہ بحث کررہے ہیں اس سے ان کوپوری طرح واقفیت بھی نہیں ہے، کئی جگہ تو ایسا محسوس ہوا کہ وہ جان بوجھ کر عدالت کو اس فیصلے کی طرف لانا چاہتے ہیں ، مثلاً جسٹس کھیر اور جسٹس عبدالنذیر لکھتے ہیں: ’’پرسنل لاء بورڈ کے وکیل کا کہنا یہ ہے کہ طلاق ثلاثہ ان امور میں سے ہے جو مذہبی اعتبار سے بُرے اور قانونی اعتبار سے صحیح ہوتے ہیں، اس پر عدالت نے کہا کہ کسی مذہب میں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی کام گناہ بھی ہو اور مذہبی بھی ہو ‘‘ اس موقع پر وکیل صاحب کہہ سکتے تھے کہ انسان کے بنائے ہوئے قانون میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں کہ کوئی کام بُرا ہونے کے باوجود واقع ہوجاتا ہے ، مثلاً زنا، چوری، قتل وغیرہ بُرے کام ہیں، تمام مذاہب میں گناہ ہیں، ہر ملک کے قانون میں جرم ہیں، مگر جب کوئی زنا کرتا ہے زنا واقع ہوتاہے، چوری کرتا ہے تو چوری ہوتی ہے، قتل کرتا ہے تو قتل ہوتا ہے، طلاق ثلاثہ کی نوعیت بھی ایسی ہی ہے کہ یہ گناہ ہے، غلط ہے، لیکن اور جرائم کی طرح یہ بھی واقع ہوتی ہے، ہمارے وکیل صاحب اس سلسلے میں عدالت کو قائل نہ کرسکے اور نہ کچھ سمجھا پائے، اس کے علاوہ بھی انھوں نے کئی موقعوں پر عدالت کو تسلی بخش جوابات نہیں دیئے، مثال کے طور پر وہ یہ نہیں بتلاسکے کہ طلاق ثلاثہ کا ذکر قرآن میں موجود ہے، عدالت یہ سمجھتی رہی کہ تین طلاق کا ذکر کیوں کہ قرآن میں نہیں ہے اس لیے وہ شریعت کا حصہ بھی نہیں ہے، حالاں کہ عدالت کو بتلایا جاسکتا تھا کہ قرآن کریم میں تین طلاق کا ذکر موجود ہے، اس کے ساتھ ہی عدالت کو یہ بتلانے کی بھی ضرورت تھی کہ اگر کوئی حکم قرآن میں نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ شرعی حکم نہیں ہے، شریعت صرف قرآنی احکامات کا نام نہیں ہے اور نہ تنہا قرآن کریم شریعت کا مأخذ ہے، اس موقع پر وکیل صاحب کو چاہئے تھا کہ وہ عدالت کو بتلاتے کہ قرآن کے علاوہ بھی شریعت کے تین مأخذ ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ، اجماعِ امت اور قیاس، عدالت وکیل صاحب کی کمزور اور غیر مدلل بحث کے نتیجے میں یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ حدیث قرآن کی طرح قابل اعتماد نہیں کیوں کہ اس کی تدوین بہت بعد میں ہوئی ہے۔
یہ کہا جارہا ہے کہ دو ججوں کی رائے ہمارے حق میں ہے، مجھے تو نہیں لگتا کہ ان کی رائے ہمارے حق میں آئی ہے، وہ دونوں طلاق ثلاثہ کو صدیوں سے جاری ایک رواج کی حیثیت سے دیکھتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ رواج کو خصوصاً اگر وہ گناہ ہو عدالت ختم کرسکتی ہے، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پرسنل لاء بورڈ کے وکیل نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ جدید دور میں طلاق ثلاثہ کی ضرورت نہیں ہے، ہم پھر اپنے اس سوال کا اعادہ کریں گے کہ بورڈ کے وکیل طلاق ثلاثہ کو باقی رکھنے کی وکالت کررہے تھے یا ختم کرنے کی، ان کے اس اعتراف کے بعد کہ جدید دور میں طلاق ثلاثہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے مقدمے میں کیا رہ جاتاہے، اس کمزور پیروی کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہ نکلا ہے، اصل میں تو مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تشکیل کردہ کمیٹی کو عدالتی فیصلے کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ وکیل صاحب نے کیس جیتنے کے لیے لڑا تھا یا ہارنے کے لیے، انھوں نے اس کے لیے پوری طرح تیاری کیوں نہیں کی وہ عدالت کو مطمئن کیوں نہیں کرسکے، عدالت نے جو سوالات ان سے کئے وہ ان کا جواب کیوں نہیں دے سکے، یقیناً بورڈ کی طرف سے ان کے کچھ معاون بھی رہے ہوں گے جو ان کی علمی رہنمائی کررہے ہوں گے، ان میں سے کس نے وکیل صاحب کو یہ بات بتلائی کہ مدعیان کی طرف سے پیش کی گئی حدیثوں کو یہ کہہ مسترد کردیا جائے کہ وہ تفسیر ابن کثیر اور یوسف قرضاوی کی کتابوں سے لی گئی ہیں اور یہ دونوں سلفی ہیں اس لیے ان کی پیش کردہ احادیث قابل اعتبار نہیں ہیں، کیا اس طرح کی بات ہم نے خود ہی ججوں کے ذہنوں میں نہیں ڈالی کی بہت سی احادیث اعتبار کے قابل نہیں ہوتیں، یہی وجہ ہے کہ ججز حضرات یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ حدیث قرآن کی طرح معتبر نہیں ہے۔
غرض یہ کہ مقدمے کی پیروی میں بڑا جھول تھا، بڑا سقم تھا جس کا خمیازہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑا ہے اور آئندہ بھی بھگتنا پڑے گا، آج طلاق ثلاثہ ختم ہوئی ہے کل تعدد ازدواج کا معاملہ عدالت میں پیش ہونے جارہے ، آہستہ آہستہ یہ عدالتیں اور حکومتیں پورے مسلم پرسنل لاء کو ختم کردیں گی اور مسلمان کچھ بھی نہ کرسکیں گے ، تین معزز ججوں نے یہ بات واضح کردی ہے کہ شریعت ایکٹ (مسلم پرسنل لاء ) دستور کی تدوین سے پہلے کا ہے اور دستور میں یہ شق موجود ہے کہ پرانے قوانین صرف اسی صورت میں باقی رہے گے کہ ان سے دستور میں دیئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو، وہ یہ کہتے ہیں کہ شریعت ایکٹ پر از سرِ نو غور کرنے کی ضرورت ہے، دستور کا آرٹیکل 25مذہبی آزادی ضرور دیتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ صحت ، اخلاقیات، مساوات اور دیگر بنیادی حقوق سے متصادم نہ ہو، یہ ہے فیصلے کا اصل نقطہ اور لبِّ لباب ، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ مسلم پرسنل لاء کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، تنہا مساوات کو ہی آڑ بنا کر بہت کچھ کیا جاسکتا ہے، مردوں سے طلاق کا حق بھی چھینا جاسکتا ہے، ایک سے زائد نکاح کو بھی خلاف قانون قرار دیا جاسکتا ہے، عورتوں کو مال وراثت میں برابر کا حصہ دیا جاسکتا ہے، یتیم پوتوں کو بھی وارث بنایا جاسکتاہے، مساوات میں تو بڑی گنجائش ہے اور اخلاقیات میں تو اس سے بھی زیادہ ۔
nadimulwajidi@gmail.com