ڈھاکہ (ملت ٹائمزایجنسیاں
بنگلہ دیش کے جنوب مغرب میں اکثریتی ہندوو¿ں کے علاقے میں ایک مرغی خانے کو صاف کرنے کے بعد وہاں تقریبا پانچ سو روہنگیا ہندوو¿ں کو پناہ دی گئی ہے۔ یہ شیلٹر ان مہاجر کیمپوں سے صرف چند کلومیٹر ہی دور ہے جہاں تقریبا چار لاکھ اکیس ہزار روہنگیا مسلمانوں کو رکھا گیا ہے۔
روہنگیا افراد کی ملک بدری کی وجہ دہشتگردی کا خطرہ ہے، بھارت
ان ہندوو¿ں کا بھی کہنا ہے کہ وہ واپس بدھ اکثریتی میانمار جانے سے خوفزدہ ہیں لیکن یہ مسلم اکثریتی بنگلہ دیش میں بھی نہیں رہنا چاہتے۔ دوسری جانب مودی حکومتی بھی بنگلہ دیش اور پاکستان میں آباد ہندوو¿ں کے لیے بھارتی شہریت حاصل کرنے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچنے والی ایک ہندو خاتون نیرانجن رودرا کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”بھارت کو ہندوستان اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ ہندوو¿ں کی سرزمین ہے۔ ہم بس بھارت میں پرامن زندگی چاہتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہتے۔ شاید یہ چیز ہمیں نہ تو میانمار اور نہ ہی بنگلہ دیش میں ملے۔“ وہاں موجود دیگر ہندوو¿ں کا بھی کہنا تھا کہ وہ میڈیا کے ذریعے اپنا پیغام بھارتی حکومت تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
روہنگیا بحران، مودی نے سوچی کی حمایت کر دی
دوسری جانب بھارتی حکومت نے اس حوالے سے کوئی بھی جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ایک بھارتی اہلکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ حکومت فی الحال اس عدالتی فیصلے کا انتظار کر رہی ہے، جس میں چالیس ہزار روہنگیا مسلمانوں کی بھارت سے بے دخلی کے خلاف اپیل کی گئی ہے۔
دوسری جانب مودی حکومت کی حمایت کرنے والی بھارت کی انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست جماعت وشوا ہندو پریشد ( وی ایچ پی) کے رکن اچینتیا بسواس کا کہنا تھا کہ میانمار سے فرار ہونے والے ہندوو¿ں کی ’فطری منزل‘ ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”ہندو خاندانوں کو بھارت میں داخل ہونے کی اجازت ہونی چاہیے۔ وہ اس کے علاوہ کہاں جائیں گے؟ یہی ان کی اصل جگہ ہے۔“
روہنگیا کو بھارت سے نہ نکالا جائے، انسانی حقوق کی تنظیمیں
یہ امر اہم ہے کہ بھارت میں تقریبا چالیس ہزار روہنگیا مسلمانوں کی موجودگی پر مودی حکومت نے سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ نئی دہلی حکومت حالیہ برسوں کے دوران بھارت آنے والے ان روہنگیا افراد کو ملک بدر کرنے کا عہد کر چکی ہے۔ اس پیش رفت پر بھارت میں انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان شدید تنقید بھی کر چکے ہیں۔