تمہاری یاد ہے ماتم کناں ابھی مجھ میں تمہارا درد ابھی تک سیہ لباس میں ہے

تمہاری یاد ہے ماتم کناں ابھی مجھ میں
تمہارا درد ابھی تک سیہ لباس میں ہے

فوزیہ ربابؔ

میرے نزدیک یہ ایک اہم اور اعلا درجے کا شعر ہے۔اس کے اسباب درج ذیل ہیں:

(1) جذبہ و احساس کا اظہار سطحی نہیں بلکہ حد درجہ تخلیقی طور پہ ہوا ہے۔ظاہر ہے شعریت اور تخلیقیت کے بغیر کوئی شعر بے روح و بے جان ہوتا ہے۔

(2) “یاد” اور “درد” جیسے غیر مجسم اور تجریدی عناصر کی تجسیم کردی گئی ہے۔تجسیم کاری کا عمل شعر کو ڈرامے سے قریب کردیتا ہے۔اعلا درجے کے شعر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ڈراما بن جائے۔ڈراما طربیہ بھی ہو سکتا ہے،المیہ بھی۔یہ شعر ایک ایسا المیہ ڈراما پیش کرتا ہے جس میں زندگی کے اسٹیج پر “یاد” اور “درد” دو المیہ کردار اپنے مکمل پیکر کے ساتھ ابھرتے ہیں۔

(3) “یاد” ہجر کی پیداور ہوتی ہے اور “درد” یاد کی۔یاد اور درد دونوں کا تعلق درون ذات سے ہے۔خارجی دنیا سے نہیں۔ہر توانا اور مؤثر شاعری بنیادی طور پہ داخلیت سے سروکار رکھتی ہے۔
اس شعر کی اثر انگیزی کا راز بھی اسی میں مضمر ہے۔

(4) یاد اور درد المیہ کیفیت کے دو کلیدی لفظ ہیں۔المیہ کی شدید ترین صورت حال کانام “کربلا” ہے۔
اس شعر میں یاد کا “ماتم کناں” ہونا اور درد کا”ماتمی لباس” میں ہونا یہ دونوں مناظر کربلائی داستانِ الم سے وابستہ ہیں۔یوں متکلم نے ذاتی اور داخلی المیے کو کربلائی فضا سے منسلک کرکے درد و غم اور حزن وملال میں حد درجہ شدت پیدا کردی ہے۔

(5) پہلا مصرع:
“تمہاری یاد ہے ماتم کناں ابھی مجھ میں”

ایک تو یاد خود ہی طوفانی کیفیت سے لبریز ہوتی ہے۔یاد میں جو بے چینی،اضطرار و اضطراب،بے سکونی اور عدم راحت کی صورتِ حال ہوتی ہے اس کیفیت کو “ماتم کناں” ہونے سے تشبیہ دینا کتنا فطری سا محسوس ہوتا ہے۔یاد کاماتم کناں ہونا درد وغم کی کیسی ہولناک تصویر آنکھوں کے سامنے کھینچتا ہے۔
(6) دوسرا مصرع:
“تمہارا درد ابھی تک سیہ لباس میں ہے”

اس مصرع میں “ابھی تک” قابلِ توجہ ہے۔”ابھی تک” میں یہ نکتہ پوشیدہ ہےکہ محرم میں تو لوگ صرف کچھ مخصوص ایام میں ہی سیہ لباس پہنتے ہیں۔لیکن متکلم کے غم میں “دوام” ہے۔اس کا درد ابھی تک سیہ لباس میں ہے۔ یہ عارضی اور چند روزہ غم نہیں۔

اس مصرع کو دوبارہ پڑھئے:

“تمہارا درد ابھی تک سیہ لباس میں ہے”

“درد” تو بذاتِ خود شدید غم والم کا ژائیدہ ہوتا ہے۔سیہ لباس غم کی علامت ہے۔مبالغے کی انتہا دیکھئے کہ ایک تو درد ہے اور وہ بھی سیہ لباس میں ہے۔یہ درد کی شدید ترین صورت ہے۔

(7) اس شعر میں درد و غم اور حزن وملال کا پیکر جس یاسیت اور حزن وملال کی فضا میں ابھرتا ہے اس کی تخلیق میں یاد، ماتم،درد اور سیاہ لباس کومحوری اہمیت حاصل ہے۔

تمہاری یاد ہے ماتم کناں ابھی مجھ میں
تمہارا درد ابھی تک سیہ لباس میں ہے

القصہ مختصر! اس شعر میں درونِ ذات ایک کربلا بپا ہے۔جہاں “یاد” اور “درد” دو ایسے حسینی کردار ظہور پذیر ہوتے ہیں جو اندوہ و آلام کی زد پر ہیں۔
بالآخر یاد اور درد ان دونوں کے حصے میں “دائمی ماتم” اور “سیہ لباس” کی وراثت آئی ہے۔

بلاشبہ درد و غم کا ایسا لرزہ خیز اور زندہ و توانا بیانیہ ہماری شعری روایت میں بہت کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

مبصر: ڈاکٹر خالد مبشر
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبہء اردو
جامعہ ملیہ اسلامیہ
نئی دہلی۔
: