کیا اس لئے کہ مارنے والا وہ نہیں نکلا جو ان کی خواہش کے مطابق ہونا چاہئے تھا، میڈیا کے بڑے سیکشن کی دہشت گردی پر منافقانہ روش ملک اور سماج کا بھلا نہیں کرنے والی
قاسم سید
دہشت گردی کہیں بھی ہو کوئی بھی کرے قابل مذمت ہے، اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے بغیر کسی مفروضہ اور طے شدہ نتیجہ کے میدان میں آنا چاہئے۔ مسئلہ وہیں پیدا ہوتاہے جب فرقہ پرستی اور دہشت گردی کو مذہبی تعصبات کے چشمہ سے دیکھا جاتا ہے۔ معمولی سا بہانہ ملنے پر جو آگ پھیلائی اور بھڑکائی جاتی ہے اس نے ذہنوں میں نفرت کی بارود بھردی ہے۔ اس میں میڈیا خاص طور سے الیکٹرانک میڈیاکے بڑے سیکشن کی ’خدمات جلیلہ‘ کو بھلایا نہیں جاسکتا جو ایک خاص ایجنڈے کے تحت یہ ’نیک کام‘ انجام دیتا ہے۔ یوروپی ملک میں کوئی دیوانہ راہ چلتے لوگوں پر ٹرک چڑھا دے، میٹرو ٹرین میں چاقو بازی کردے اس میں بے گناہ مارے جائیں اور پھر اس کی ذمہ داری کوئی ایسی تنظیم لے جس پر خاص مذہبی رنگ چڑھا ہو تو پھر زیادہ تر نیوز چینلوں کی مستعدی، دیش بھکتی، راشٹر بھکتی دیکھتے بنتی ہے۔ ریٹائرڈ فوجی افسر بلائے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے ماہرین کو بٹھایا جاتا ہے، کبھی ایجنسیوں کے سبکدوش عہدیداروں کو بھی عزت بخشی جاتی ہے، پھر زمین آسمان کی ایسی حدیں ناپی جاتی ہیں کہ عقل محو تماشائے لب بام رہ جاتی ہے، ان کی جدت طرازیوں ، حیران کن مشوروں اور نادر الوجود دلیلوں سے وحشت ہوتی ہے۔ وہ معرکہ ہوتا ہے کہ کبھی یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ بس ان مشوروں کو حکومت فوراً قبول کرلے اور ان پر عمل درآمد شروع کردے ورنہ قیامت آجائے گی۔
لیکن یہ تیزی، چابکدستی، چیخ و پکار ہنگامہ آرائی، شور شرابہ جو پرائم ٹائم میں کی جانے والی بحثوں کی شناخت بن گئے ہیں نہ جانے کیوں لاس ویگاس سانحہ میں نظر نہیں آئی، سب کو سانپ سونگھ گیا۔ امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں ایک جنونی شخص کی میوزک کنسرٹ میں اندھا دھند فائرنگ میں پچاس سے زیادہ قیمتی جانیں چلی گئیں اور سیکڑوں زخمی ہوگئے، یہ واقعہ ہمارے برق رفتار چینلوں کی بحث کا موضوع نہ بن سکا۔ راشٹر بھکتی کے نام پر خدائی فوجداروں کے منھ سے غصہ کے جھاگ نکلتے دکھائی نہیں دے۔ دہشت گردانہ واقعہ کو بحث کے لائق نہ سمجھا گیا، جب کہ بھارت کے معتمد دوست ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد دہشت گردی کا یہ پہلاسنگین واقعہ ہے جو سیکورٹی پر بدنما داغ ہے۔ 50 سے زائدہ امریکی شہریوں کی کسی ایک واقعہ میں ہلاکت معمولی واقعہ نہیں ہے وہ بھی صرف ایک شخص کے ہاتھوں اس کے مضمرات پر غور کرنے کی ضرورت تھی، اسے انفرادی کارروائی کہہ کر نظر انداز نہیں کیاجا سکتا تو کیا اس لئے نوٹس نہیں لیا گیا کہ مارنے والا وہ نہیں نکلا جو پرائم ٹائم میں بحث کے لئے مطلوب تھا۔ شاید یہی سچ ہے۔
وہ اسٹیفن پیڈک نکلا۔ یہ دہشت گردانہ واقعہ اس لئے محض خبر بن کر رہ گیا کہ اس میں ایک خاص طبقہ اور فرقہ کو بدنام کرنے والی چاشنی نہیں تھی۔ اسٹوڈیو میدان جنگ نہیں بنائے جاسکے۔ لہجوں میں سفاکیت، الفاظ میں گرماہٹ اور چتونوں میں تلملاہٹ لانے والا سامان نہیں تھا تو پھر اس پر مغز کیوں کھپایا جاتا۔ وہ ذہنی لذت فراہم نہیں ہوتی جو ایک خاص فرقہ کو ذلیل و رسوا کرنے، اسے نشانہ پر لینے اور اس پر برچھیاں چلانے سے ملتی ہے، دل کو وہ سکون اور ٹھنڈک حاصل نہیں ہوتی جو دہشت گردی کے بہانے کسی پر تیر برسانے اور کٹہرے میں کھڑا کرنے سے ملتی ہے، مگر یاران تشنگان نے اس میں بھی تعبیر ڈھونڈ لی اور جنونی قاتل اسٹیفن پیڈک کو ’ویگاس کا اسامہ‘ کہہ کر تفریح طبع کا سامان کہہ کر بھڑاس نکال لی۔ یہ دل نکالنے والا کام کون سا راشٹر بھکت چینل کرسکتا ہے، اندازہ لگایئے۔ لگا تار یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ میڈیا کانہ ہونا لاولد ہونے سے زیادہ تکلیف دہ ہے، کاش ہمارے سرمایہ دار طبقہ اور ملت کے ارباب حل و عقد کو اس کااحساس ہو جائے کہ جس کے سبب بیمار ہوئے اسی عطار کے … سے دوا لیتے ہیں اس سادگی پر قربان جایئے۔