یہ رام لیلائی گنپتی کلچر ہے

جناب حضرت مفتی جنید صاحب!  

السلام علیکم و رحمۃ اللہ
ملت ٹائمز میں آپ کا ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا، جس میں آپ نے جلسوں اور کانفرنسوں کی بےاعتدالیوں، ان میں ہونے والے بےجا اسراف اور افادیت سے خالی امور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھیڑ جمع کرنے والی اس قومی و اجتماعی بدعت کی طرف اشارہ فرمایا، واللہ قومی سرمائے کے ضیاع پر آپ نے جس درد کا اظھار کیا ہے وہ کوئی اپنے سینے میں ایماندار قلب اور امت کی حقیقی تعمیری فکر و شعور رکھنے والا شخص ہی کرسکتا ہے، اللہ آپ کو جزائے خیر بھی دے اور بھتوں سے آپ نے لوہا لینے کی جرأت کی ہے ان کے شر سے بھی آپ کو بچائے ۔ آمین
اس جلوسی کلچر کا رواج انگریزوں کے زمانے میں نہیں ہوا ہے ، اس لئے کہ اس طرح بھیڑ جمع کرنے کا رواج نہ دورِ نبوی میں ہے اور نہ عہد صحابہ میں اور نہ خیرالقرون کے بعد کے ادوار میں اس کا ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی انگریزوں کا تحفہ ہے، یہ در اصل رام لیلائی گنپتی کلچر ہے جسے ہندؤوں سے مسلمانوں نے مستعار نہیں، بلکہ مختلف ناموں سے گود لیا ہے اور حیرت اس بات پر ہے کہ اس اجتماعی بدعت میں دیوبندی، بریلوی، سلفی، اہل حدیث اور شیعہ سب شامل ہیں اور سب کو یکساں طور پر قوم کی حقیقی تعمیر پر اپنا پیسہ خرچ کرتے ہوئے بخار آتا ہے، مگر جس کا کوئی فائدہ نہ ملے نہ قومی اور نہ ملکی آج تک سامنے آیا اس بھیڑ کے جمع کرنے پر دیکھئے کچھ ملکی کچھ غیرملکی کھربوں روپئے کی دولت آج تک برباد ہوگئی ہوگی لیکن احساس تک نہیں ہوگا، اس لئے کہ یہ ہر طبقہ کے لوگوں کے نفس کی تسکین کا سامان جو ہے اور دور نبوی اور دور کے خلاف لوگوں کو صرف وہ چیزیں نظر آتی ہیں جنہیں وہ خود نہیں کرتے، اور باقی تو حمام میں چوں کہ سب ننگےاور ان میں سب ملوث ہیں، اس لئے آج تک کبھی اس کے شرعی پہلوؤں پر غور کرنے کی طرف ذہن بھی نہیں گیا ہوگا، بلکہ ان رام لیلائی سبھاؤں میں افراد کی تعداد بڑهانے اور دکھانے پر زور آزمائی تک کی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں، اللہ تعالی اس بدعت سے قوم کو نجات دے اور قوم و ملت کے بنیادی مسائل کے ادراک اور مل کر حل کرنے کی توفیق عطاکرے، آمین
احمد نادر القاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں