قاسم سید
یہ راز کی بات نہیں کہ ذرائع ابلاغ جس کو عرف عام میں میڈیا کہا جاتا ہے۔ اس کا اعزاز و اکرام ، اس کی ساکھ داؤ پر ہے۔ ساکھ کا بنیادی مرکز خبر کی صداقت ہے اسے باریک چھلنی سے بار بار گزارا جائے تاکہ کوئی صداقت پر حرف نہ رکھ سکے۔ جو اس کاخیال رکھتے ہیں سماج انہیں عزت ورفعت سے دیکھتا ہے۔ امین صادق بننے کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ آزمائش کے خار زاروں کو تلووں کا لہو پلانا پڑتا ہے تب جاکر یہ مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ اگر احتیاط نہ برتی جائے تو کسی شخص یا ادارے کا کردار عمل اور حیثیت متاثر ہوسکتی ہے۔ ادارتی نظم وضبط کو یقینی بنایا جائے اور جب صداقت کی کسوٹی پر خبر کھری اترتی ہوتو پھر اس کو ریڈر تک پہنچانے میں تکلف نہ کیاجائے اس وقت تمام طرح کی وابستگیاں کنارے رکھ دی جائیں۔ تعلقات و معاملات کو ثانوی درجہ پر رکھا جائے اس میں کتروبیونت نہ ہو بھلے ہی کوئی کتنا ناراض کیوں نہ ہو اس وقت محمد علی جوہر کی یہ بات یاد رکھی جائے ساری خدائی بھی مخالف ہوجائے اگر خدا ساتھ ہے تو وہ کافی ہے۔ حالانکہ آزاد بے خوف میڈیا کبھی کسی کی پسند نہیں رہا خواہ حکمراں طبقہ ہو یا اشرافیہ اس لئے کہ نکتہ چینی ان کے کانوں میں سیسہ بن کر اترتی ہے ۔ چتونوں پر بل آجاتے ہیں۔ لہجہ میں غراہٹ اور چہرے پر بلبلاہٹ نظر آنے لگتی ہے۔ دنیا بھر میں آزاد میڈیا زور آور طبقات کو عزیز نہیں ہوتا مسلم ممالک میں میڈیا کی مقبولیت اس لئے نہیں کہ وہ مخالفت کو برداشت نہیں کرتے۔ شاہی مزاج ویسے بھی نازک ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے اندر بھی میڈیا کو اس لئے نظر انداز کیا گیا کہ ان کا طبقہ اشرافیہ صرف جی حضور ی، قدم بوسی، فددیانہ ذہنیت اور غلامی کے انداز کو ہی قبول کرتا ہے اس کے یہاں انکار، اصرار اور تکرار کی کوئی اجازت نہیں۔ حضرت جی کے مزاج نازک میں اتنی سکت نہیں ہوتی کہ انہیں کوئی مشورہ دینے کی جسارت کرے یا ان کے احکامات سے سرتابی کی مجال کا سودا سر میں سمائے۔ وہ اپنے دائرہ ارادت و عقیدت میں گستاخ اور نافرمان عناصر کو برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ میڈیا فطری طور پر آزاد اور باغیانہ مزاج رکھتا ہے۔ وہ سماجی خرابیوں کا آپریشن کرتا ہے اس کے ہیئت ترکیبی میں خوشامد ‘ چاپلوسی‘ تملق اور غیر مشروط فرماں بردار ی کے عنصر موجود نہیں ہے۔اس لئے میڈیا کی اہمیت اس کی طاقت اور اثر پذیری کو سمجھتے ہوئے بھی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ بدقسمتی سے اب میڈیا کی تجارتی ضرورتوں نے اس کا حلیہ ہی بدل دیا ہے۔ اب وہ پالتو شیر کی طرح کسی کے قدموں پر بھی لوٹنے اور اس کے پائوں چاٹنے کے لئے تیار ہے۔ چونکہ اس پر نکیل ڈالنا اور اثر و رسوخ کو محدود کرنا مشکل ہے، اس لئے تجارتی ضرورتوں کی گاجر لٹکاکر اس کی ریڑھ کا سارا پانی نکال لیا گیا جو سیدھے راستے سے قابو میں نہیں آئے، ان کو سیدھا کرنے کے دیگر ذرائع بھی ایجاد کرلئے گئے ہیں اور آج کل ان کا بے باکی سے استعمال ہو رہاہے۔ جس میں کسی خبر یا رپورٹنگ سے ناراضگی پر سو کروڑ روپے کی دھمکی دینا شامل ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ میڈیا کی حد درجہ’ گستاخیوں‘ اور بلیک میلنگ کی ذہنیت نے اسے بازارو اور طوائف کا کوٹھا بنادیا ہے۔ میڈیا کے زخم خوردہ طبقات کے لئے یہ صورت حال خوش کن ہوسکتی ہےکہ وہ خودشکنی اور خودکشی کی راہ پر چل پڑے۔ اس کی خبریں غیر معتبر ہوجائیں یہ وقار و اعتبار اور ساکھ ہی قلعہ آزادی کی فصیلیں ہیں۔ ان میں شگاف ہوجائے تو گستاخ ہوائوں کی یلغار روکنا مشکل ہوجاتا ہے۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ کئی اور کھڑکیاں کھل گئی ہیں ان میں سوشل میڈیا عام آدمی کی آواز بن کر ابھرا ہے جس کے پاس وسائل ہیں وہ بغیر خرچ کئے اپنی بات ہزاروں لوگوں تک پہنچا سکتا ہے اجارہ پسند ذہنیت کے لئے یہ صورت حال بہت پریشان کن ہے مگر رطب ویابس اور خس و خاشاک کی افراط نے اسے غیر معتبر بنادیا ہے فیک نیوز کا طوفان بھی اسی کا حصہ ہے۔ لیکن معاشرہ میں شعور کی پیہم پھیلتی روشنی میں اس کا خاص نمایاں حصہ ہے۔ میڈیا صرف حکمرانوں کی بدعنوانیاں ہی اجاگر نہیں کرتا بلکہ سماجی کمزوریوں پر بھی کام کرتا ہے اس کے ساتھ لغزشوں اور کمزوریوں کا آنا قابل فہم ہے مگر جب یہ عادت بن جائے ۔ یک رخا پن آجائے ، لہجہ بے قابو ہونے لگے اور بے مہار انداز اسلوب لطافتوں کو مجروح کرنے لگے تو خود احتسابی کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے۔ میڈیا میں کارپوریٹ کی دراندازی نے اس کا چہرہ اور ساخت دونوں بدل دیا وہ فاشی طاقتوں کے اشاروں پر کام کرتا ہے۔ سماج کے لئے سنگین خطرہ بن گیا ہے۔ کریکٹر کا قتل اس کا محبوب مشغلہ ہے۔ وہ ایک مائنڈ سیٹ کے تحت کام کرتا ہے اس کا ایجنڈہ بھی سیٹ ہے اور وہ خفیہ نہیں ہے۔ سماجی اکائیوں میں انتشار پیداکرنا انہیں باہم لڑانا، کمزور طبقات کو ٹارگیٹ کرنا ان کی حب الوطنی پر انگلی اٹھانا، غریبوں و اقلیتوں اور مظلوموں کے بنیادی مسائل سے روگردانی ، راکھی ساونت، اوم بابا، آسارام باپو، بابا رام رہیم اور ہنی پریت جیسے جوکروں کو پرائم ٹائم میں جگہ دینا ، اقلیتوں کامذاق اڑانا، انہیں نان ایشوز میں پھنساکر رکھنا، ان کے جذبات کو مشتعل کرنا، ہندوتو کے ایجنڈے کو قابل قبول بنانے کی مہم چلانا، حکمراں طبقہ کے ہرقدم کو سندِ جواز عطا کرنا اور اصل مسائل کو ایجنڈے سے ہٹادینا میڈیا کے بڑے سیکشن کا پروفائل بن گیا ہے۔ ہمارا معصوم انجان اور حالات سے بے خبر طبقہ بھی ان کے جال میں آسانی سے پھنس رہاہے۔ بے معنی بے مصرف اور بلاضرورت موضوعات پر ہونے والی ڈبیٹ میں شامل ہونے والے طبقہ کی اکثریت کو شاید یہ معلوم نہیں کہ وہ کس طرح خطرناک سازش کا حصہ بن رہے ہیں اورجانے انجانے میں ان کے اہداف کو مکمل کرنے میں معاون ہو رہے ہیں۔ حلال وحرام جائز وناجائز کےفیصلے آدھا گھنٹہ کے شو میں طے کرنے کے لئے پہنچنے والے افراد ان کے بچھائے جال میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔ کسی مسلم ایکٹریس کی مانگ میں سیندور لگانے کو حلال وحرام قرار دینے کی بحث‘‘ثانیہ مرزا کے چھوٹے کپڑے پہن کر میچ کھیلنے کے جواز عدم جواز‘ لڑکیوں کے بھنویں بنانے اور بال کاٹنے پر بحث و تکرار اور اس میں مسلمانوں کے نادان طبقہ کی سرگرم شمولیت چیخ و پکار‘ ہنگامہ آرائی، اسلام اور مسلمانوں کو ذلیل ورسوا کرنے ہر طرح کی مہذب گالیاں دینے کے لئے سجائے سیٹ پر ایسے چہروں کی موجودگی ان کو غذا فراہم کرتی ہے جو رسوائی کو شہرت سمجھنے لگے ہیں اور گالیاں کھاکر بھی لب کی شیرینی کی وجہ سے بے مزہ نہیں ہوتے میڈیا بنیادی مسائل پر بحث سے بھاگتا ہے لیکن فروعی معالات کو اچھالنے میں مزا آتا ہے۔ عید میلادالنبیؐ پر گھر پر لگے سبز پرچم کو پاکستانی جھنڈا چمٹے کو بھالا‘ تکلے کو بم ثابت کرنے میں مہارت حاصل ہے۔ کہیں بھی ہونے والے دھماکوں میں فوراً مخصوص طبقہ کا ہاتھ تلاش کرنے کے فن میں طاق ہے خواہ مالیگاؤں بم دھماکہ ہو یا لاس ویگاس میں اندھادھند فائرنگ کے ذریعہ 60 معصوم افرادکا اجتماعی قتل عام‘ منفی پروپیگنڈہ کی طاقت سے کریکٹر اور کیریئر تباہ کردینا اس کی فطرت خبیثہ کا اظہار ہے ۔ انفرادی واجتماعی دونوں سطحوں پر میڈیا کی حرکتوں سے کمیونٹی کو نقصان ہوا۔ ہو رہا ہے‘ ہوتا رہے گا اگر ہم غیر شعوری طور پر اس کا آلہ کار بنتے رہے ، اپنے گھر سے ایندھن فراہم کرتے رہے اورتدارک کے بارے میں نہیں سوچا۔ نفرت کا سیلاب جو میڈیاکی گنگوتری سے آتا ہے اپنے پیچھے کیا کچھ چھوڑ کر جاتا ہے اندازہ لگانا مشکل ہے۔
عام آدمی کی آواز کے لئے متبادل کھڑا کرنا ہوگا ۔ میڈیا کو نظر انداز کرکے ہم نے ناقابل معافی جرم کیا ہے۔ ہم خود اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی سہل پسندی کا مزاج دوسروں پر الزام تراشی، ان سے حق وانصاف کی توقع اور اپنے حصہ کا کام بھی ان کے کردینے کی آس نے لاچار و بھکاری بنادیا ہے۔ جس میڈیا کی تخلیق تخریب کاری کے لئے ہوتی ہو اس سے تعمیر کی امید رکھنا حماقت ہی کہی جائے گی۔ ایسا نہیں ہے کہ وسائل کی کمی ہے یہ کام ہو نہیں سکتا۔ بس ترجیحات کا معاملہ ہے جب کانفرنسوں میں لاکھوں روپیہ لگایا جاسکتا ہے ۔ ( یقینا اس کے اثرات و ثمرات ہوتے ہوں گے مگر ملت کا فائدہ کیا ہو رہا ہے۔ ہم جیسے کم فہم ناآشنا ہیں ) تو پھر مضبوط مستحکم بااثر میڈیا کھڑا کرنے میں کوئی رکاوٹ کیسے آسکتی ہے۔ دراصل طبقہ اشرافیہ جس کے ہاتھ میں باگ ڈور ہے اس کو اپنی ترجیحات میں میڈیا کو سرفہرست رکھنا ہی ہوگا۔ بھلے ہی طاقتور میڈیا ان کی پسند نہ ہو مگر تھوڑی ہی دیر کے لئے اجتماعی و ملی مفاد میں سوچنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ یہ جلسے جلوس ہوتے رہیں۔ اپناقدبڑا کرتے رہیں کس نے روکا ہے۔ اپنے لوگوں کو کبھی یہاں کبھی وہاں اکٹھا کرتے رہیں کوئی کمبخت کیوں برامانے گا۔ مگر بغیر زنجیر والا میڈیا ہم سب کی اولین ضروریات میں سرفہرست لانا ہی ہوگا۔ کیونکہ ’وکاس‘ کی طرح میڈیا بھی پاگل ہوگیا ہے جس نے جھوٹ کو اپنا شعار اور چاپلوسی کو اپنا کردار بنالیا ہے۔ جو مداری کے بندر کی طرح اشاروں پر ناچتا ہے اور خود دار میڈیا کا جینا محال ہوگیا ہے۔ کیا امید کریں کہ سواد اعظم اس پر عملی اقدامات کرے گا؟
qasimsyed2008@gmail.com