امریکی ملاحوں کی گرفتاری کے وقت کی ’’پریشان کن‘‘تصاویر واقعے پر ریپبلکنز کی جانب سے اوباما پر سخت تنقید

واشنگٹن،15؍جنوری(آئی این ایس انڈیا)
جس دوران امریکی نیوز چینل امریکی ملاحوں کی گرفتاری کی پریشان کن ایرانی تصاویر نشر کررہے تھے، جن میں یہ ملاح سروں پر ہاتھ رکھے دکھائی دے رہے ہیں۔ ٹھیک اسی لمحے وزیر خارجہ جان کیری ملاحوں کے ساتھ ایرانیوں کے اچھے سلوک پر شکریہ ادا کررہے تھے۔
جان کیری کا تبصرہ بدھ کے روز واشنگٹن میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ان کے خطاب کے دوران سامنے آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سوچ سکتے ہیں کہ اگر یہ واقعہ تین یا چار سال قبل پیش آتا تو پھر کس طرح انجام تک پہنچتا، واضح طور پر یہ سفارت کاری ہی ہے جس نے مسئلے کو حل کرنے میں مدد دی”۔ کیری کا اشارہ ایرانی ہم منصب کے ساتھ ان کے براہ راست تعلق کی جانب تھا، جس میں ایرانی نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کے دوران بہتری آگئی۔ اس دوران ایران کا کہنا ہے کہ ملاحوں کی گرفتاری پر امریکا نے تہران حکومت سے معذرت کرلی ہے جب کہ امریکی وزارت خارجہ نے کیری کی جانب سے معذرت کی تردیدی کی ہے۔
یہ بات ابھی تک واضح نہیں کہ آیا جان کیری نے اس وڈیو کو دیکھ لیا ہے جس میں ملاحوں کی گرفتاری کا لمحہ دکھایا گیا ہے، اور امریکی چینلوں نے اس کو ایرانی چینلوں کے حوالے سے نشر کیا۔ امریکی چینلوں نے ان تصاویر اور وڈیو کو امریکی مسلح افواج کے لیے باعث ذلت خیال کیا ہے۔
دوسری جانب ریپبلکن نامزد امیدواروں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے اور صدر اوباما کی پالیسی پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ معاملے کو زیادہ خراب اس امر نے کیا ہے کہ یہ واقعہ کانگریس میں صدر باراک اوباما کے “اسٹیٹ آف دی یونین” سے آخری سالانہ خطاب کے دوران پیش آیا، جس میں انہوں نے ملک کے مستقبل اور اپنی انتظامیہ کی کامیابیوں کے بارے میں انتہائی امید افزا تصور پیش کیا تھا۔
اعلی مقبولیت کے حامل امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انتخابی تقریر کے دوران کہا کہ ملاحوں کی گرفتاری “اس راستے کی طرف اشارہ کررہی ہے جس جانب ملک گامزن ہے”۔ انہوں نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں یہ بھی لکھا کہ ” اپنی منجمد رقوم حاصل کرنے سے چند روز قبل یہ کارروائی، درحقیقت ایرانی ہمارے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ یہ بات باعث شرم ہے! اربوں ڈالرکی رقم، ہمیں چاہیے کہ ان کو رقم نہ دیں، ہمیں اپنے یرغمال چاہیءں”۔ ٹرمپ کا اشارہ نیوکلیئر معاہدے پر عمل درامد کے ساتھ ہی ایران کی منجمد رقوم کی تہران حکومت کو منتقلی کی جانب تھا۔
ریاستی سطح پر پارٹی ووٹنگ سروے میں ڈونلڈ ٹرمپ پر برتری رکھنے والے سینیٹ کے رکن ٹیڈ کروز نے بھی “این بی سی” کے ساتھ انٹرویو میں صدر اوباما کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اوباما نے اپنے خطاب کے دوران ایران کی حراست میں موجود امریکی ملاحوں کا ذکر نہیں کیا، اسی طرح پیرس یا سان برنارڈینو کے واقعات اور ریاست پینسلوینیا میں پولیس اہل کار پر داعش کے ایک حامی کی فائرنگ کے واقعے پر کوئی بات نہیں کی۔ واضح رہے کہ اوباما نے اپنے خطاب کے دوران ٹیڈ کروز پر داعش سے متعلق ایک بیان کے حوالے سے براہ راست نکتہ چینی کی تھی۔
سینیٹ کے ریپبلکن رکن مارکو روبیو نے جن کا پارٹی سروے میں بطور امیدوار تیسرا نمبر ہے، اپنے ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ ایران موجودہ انتظامیہ کے ساتھ اپنی حد کو آزما رہا ہے، مزید یہ کہ وہ اپنی صدارت کے پہلے روز ہی نیوکلیئر معاہدے کو ختم کردیں گے۔ روبیو کے مطابق اوباما جب یہ کہتے ہیں کہ “داعش” امریکیوں کے لیے وجودی خطرہ نہیں ہے، تو وہ داعش کے حوالے سے ریپبلکنز کا موقف جاننے میں مبالغہ کرتے ہیں۔ فوکس ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں روبیو کا کہنا تھا کہ داعش تنظیم آئندہ سالوں میں لاکھوں امریکیوں کے لیے خطرہ بننے کی قدرت رکھتی ہے، وہ یہاں دراندازی کے لیے امیگریشن سسٹم کو استعمال کرنے اور امریکیوں کو ہی ہمارے خلاف بھرتی کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
ریپبلکن صدارتی امیدوار اور ریاست نیوجرسی کے گورنر کرس کرسٹی نے فوکس بزنس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ یقیناًیہ واقعہ اس لیے پیش آیا کیوں ایرانی، امریکا کے صدر کا احترام نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے صدر اوباما کو کمزور قرار دیتے ہوئے کہا کہ “اسٹیٹ آف دی یونین سے خطاب کے روز ایرانیوں کی جانب سے ایسا اقدام کیا جانا ناقابل یقین ہے، اور اسی وجہ سے امریکی شہری دنیا میں امریکا کے مقام کے حوالے سے تشویش اور خوف میں مبتلا ہیں، اس چیز کا تعلق ہمارے امن سے ہے”۔ کرس کرسٹی نے کہا کہ “شام میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ افراد قتل وغارت گری کا شکار بن چکے ہیں، ایسے میں صدر اوباما یہ کس طرح دعویٰ کررہے ہیں کہ شام کے حوالے سے ان کی پالیسی کامیاب ہے، اور اردن میں چوتھا سب سے بڑا شہر پناہ گزینوں کا کیمپ ہے”۔
ریاست فلوریڈا کے سابق گورنر اور صدارتی امیدوار جیب بش نے “سی این این” کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ “میرے خیال میں ملک کی حفاظت کے لیے داعش ہی وہ محور ہے جس پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ اس کو تباہ کردیں، ہم اس کو پال نہیں سکتے”۔ بش نے اپنے اس ٹوئیٹ کا بھی دفاع کیا جس میں انہوں ایران کے حوالے سے اوباما پالیسی کو ذلت آمیز قرار دیا تھا۔

SHARE