ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب
’’میں نے بار بار کہا ہے اور پھر کہہ رہا ہوں کہ ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے ، جس کی خوبصورت اور رسیلی دو آنکھیں ہندو مسلمان ہیں۔ اگر دونوں باہم نفاق رکھیں تو وہ پیاری سی دلہن بھینگی ہو جائے گی اور اگر وہ ایک دوسرے کو بر باد کر دیں گے تو اندھی ہو جائے گی۔ سوائے ہندوستان کے رہنے والے ہندو مسلمانوں اب تم کو اختیار ہے کہ تم اس کو بھینگا بنا دو یا اندھا بنا دو یا سلامت رکھو ‘‘
یہ آفاقی فکراورلافانی پیغام علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کے بانی سرسید احمد خان (۱۷؍ اکتوبر۱۸ ۱۷ ء۔ ۱۸۹۸)کے ہیں۔۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میںناکامی کے بعد شکست خورده مسلمانوں کو مایوسی کے دلدل سے نکالنے اور ان کے اندر نیا جوش و جذبہ پیدا کرنے لئے جن عظیم شخصیات نے اپنی راتوں کی نیند اور دن کے راحت و سکون کو ترک کرکےلٹے پٹے مسلمانوں کیلئے مختلف جتن کیے ان میں ایک نام سرسید علیہ الرحمہ کا ہے۔یہ وہ نام جس کے زباں پر آتے ہی برصغیر ہندو پاک کے مسلمانوں کا سینہ فخرسے چوڑا ہو جاتا ہے۔ دلوں کی کیفیت یکسر بدل جاتی ہے اور ایک خوبصورت مسکراہٹ لبوں کو چوم لیتی ہے۔اپنے اس عظیم محسن کی ۲۰۰؍ویں یوم ولات پرایک بار پھرہم جشن منا رہے ہیں، محسن قوم وملت کے لیے دنیا بھر میں دعائیہ مجلسوںکا اہتمام کیا جا رہے۔ عظیم لوگوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایسی نایاب ہستیوں کا ذکر بہت کم ملتا ہے جن کے چاہنے والے،یاان کی فکر سے متاثر افراد، پیروکار اور محبت کرنے والے لوگ اس اہتمام سے اپنے بزرگ کو خراج عقیدت پیش کرتےہوں جتنے عقیدت و احترام سے ’سرسید ڈے‘ منایا جاتاہے۔
بلاشبہ علی گڑھ تحریک تعلیم کے فروغ کی تحریک تھی ،سرسید احمدؒ نے اس تحریک کے لیے بے مثال جذبے اور جنون کا مظاہرہ کیا اور تاریخ میں بابائے تعلیم کہلائے اور مسلم یونیورسٹی نے جن افراد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا انہوں نے پوری دنیا میں قوم وملت کیلئے بے نظیر خدمات پیش کیں۔
ہندوستان کے حالات اور واقعات حاضرہ سے پنجہ آزمائی کے لیے اگر سرسید احمد خاں کی فکر ، ان کی تعلیمات اوران کے پیغام کو راہ عمل بنایا جائے تو ہندوستان کو فرقہ وارانہ اور نفرت انگیز ماحول سے بچایاجاسکتا ہے ۔
آرایس ایس کی کوششوں سے ملک میں بی جے پی کی حکومت وجود میں آنےکے بعد سے جس طرح پورے ہندوستان کا ماحول تبدیل ہوا اوریکے بعد دیگرے مختلف ریاستوں میں اقلیتوں پر حملے ہونے لگے ان واقعات سے مسلمان ہی نہیں ہر محب وطن کرب میں مبتلا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تو ہمیشہ مخالفین کے نشانے پر رہی ہے مگر نریندرمودی کی قیاد ت میں بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد اس ادارے پر حملے تیز ہو گئے،حکمراں جماعت کے لیڈروں کی طرف سےنئے نئے شگوفے چھوڑے گئے ۔ حال ہی میں سنٹرل یونیورسٹیوں کا آڈٹ کر نے والی ایک ٹیم نےمر کزی حکومت سے یہ سفارش کی کہ علی گڑھ مسلم یو نیور سٹی کے نام سے لفظ ’مسلم کو ‘ ہٹا دیا جائے، تا کہ یو نیو رسٹی کا سیکولر کر دار بر قرار ہو سکے۔دراصل یہ وہی سوچ ہے جو علی گڑھ مسلم یو نیور سٹی کے وجود سے خائف ہے اورجو ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی ، اقتصادی ترقی کے دشمن ہیں۔ کمیٹی کی اس تجویزسے مودی حکومت کی منشا صاف ظاہر ہے۔ حکومت اس ادارہ سے مسلمانوں کا اثرختم کرکے دیگریو نیورسٹیوں کی طرح ایک عام یو نیورسٹی میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، حالانکہ تاریخ کی جانکاری رکھنے والا ہر شخص جانتا ہےکہ علی گڑھ یو نیور سٹی کی درودیوار سےہندوستان کی محبتیں جھلکتی ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کی بنیاد اتنی مضبوط اور مستحکم ہے کہ دشمنوں کی ہزار کوششوں کے باوجود’شجر سید‘آج بھی اسی آن بان اور شان و شوکت کے ساتھ ملک و ملت پر سایہ فگن ہے اوراس کے دم سے ہر چہار جانب علم کی روشنی پھیل رہی ہے۔
یہ وہی عظیم دانش گاہ ہے جس کی شفقت آمیز گود میں ۱۹۲۰ء؍ بیٹھ کر شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ،مولانا محمد علی جوہر ،مولانا شوکت علی،مولانا حسین احمد مدنی ،مولانا حسرت موہانی اور مفتی کفایت اللہؒ نے مسلمانوں کی ایک دوسری عظیم درسگاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کا اعلان فرمایا۔
کچھ لوگ سر سیدپر قوم پرست ہونے کا الزام ضرور عائد کرتے ہیں۔ان کی یہ بات درست ہے کہ ان کے دل میں اپنی قوم کیلئے ہمدردیاں تھیں، مگر ان کی فکر کا دائرہ وسیع تھا اور وہ ہر ہندوستانی کو ایک آنکھ سے دیکھتے تھے۔چونکہ انہوں نے جس ہندوستان کو دیکھا تھا وہ انگریزوں کا غلام ہندوستان تھا جسے سرسید جیسے قائد،رہنما اور مصلح کی ضرورت تھی۔ انگریزوں کے ذریعہ ڈھائے جارہے مظالم کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔اس لئے ان کے دل میں برادران وطن کےلئے بھی وہی جذبہ اور دوسرے مذاہب کے تئیں عزت و احترام بھی اسلام کی طرح جا گزیں تھا۔ وہ ہندو ۔ مسلم باہمی اتحاد کےلئے ہمیشہ کوشش کر تے ، دونوں مذاہب کےمابین قائم حسد و بغض اور عداوت کی دیوار کو منہدم کرنے کی ترغیب دیتے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اس کے بغیر ملک و قوم کی کامیابی و ترقی نا ممکن ہے ۔اسی لیے انہوں نے صدیاں قبل یہ بات کہہ دی تھی کہ’’’میں نے بار بار کہا ہے اور پھر کہہ رہا ہوں کہ ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے ، جس کی خوبصورت اور رسیلی دو آنکھیں ہندو اور مسلمان ہیں‘۔
دنیا اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ سرسید احمد خان کی فکر و عمل کا دائرہ محدود نہیں تھا۔وہ مر د آہن ہزارہا مخالفتوں کے باوجوداپنے قدم کو آگے بڑھاتا گیا،کسی کے طنز یا نازیبا فقرے کی پروا نہیں کی،یہاں تک کے لوگوں کی دشنام طرازی کو بھی برداشت کیا اور آخر میں اکبرالہ آبادی جیساناقد یہ کہنے پرمجبور ہوا کہ ’ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا‘ وہ کہتے ہیں :
یہ دنیا چاہے جو کچھ بھی کہے اکبر یہ کہتا ہے
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
سرسید علیہ رحمہ جانتے تھے کہ کل یہی لوگ اپنے قول و فعل پر کف افسوس ملیں گے ، مگر دنیا ان کے کار ناموں پر خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو گی ، ان کے پیش نظر قوم کا درخشاں مستقبل تھا ، وہ دور اندیش اور مدبر تھے ، اس لئے ہمیشہ بہت دور کی سوچتے تھے ، جب جس چیز کی ضرورت پیش آئی ، اسکو بحسن و خوبی انجام دیا ۔یہ ان کے بےپناہ خلوص اور محبتوں کا ہی ثمرہ ہے کہ ان سے عقیدت رکھنے والے انہیں ہرسال ۱۷؍اکتوبرکو ان کے یوم پیدائش پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کی بےلوث خدمات کا دل سے اعتراف و اقرار کرتے ہوئے اس موقع پر ان کے نقش قدم پر چلنے کا عہد وپیمان کرتے ہیں اورمحسن قوم و ملت کیلئے دعائیں کرتے ہیں۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی میںسینئرسب ایڈیٹر ہیں۔)
mssaqibqasmi@yahoo.co.in