عبد الرشید طلحہ نعمانی
مترجم قرآن ،محدث کبیر ،اسیرمالٹا،نقیب حریت، مجاہد آزادی ،شیخ الہندحضرت اقدس مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کی ذات گرامی پوری دنیامیں نہ توتعریف کی محتاج ہے نہ ہی تعارف کی ،تقریباًایک صدی سے صاحبان علم وقلم حضرت شیخ الہندؒ کے مختلف سوانحی نقوش قلم بندکررہے ہیں،مضامین ومقالات سے اخبارات وجرائد بھرے پڑے ہیں،کتابوں اوررسالوں میں حضرت شیخ الہندجیسی اولوالعزم شخصیت کے گن گائے جارہے ہیں،لیکن ان کے بلند عزائم اور جلیل القدر کارناموں کو شمار کرنااورکماحقہ ان کا احاطہ کرنانہایت مشکل امرہے ؛ کیونکہ انہوں نے ہندوستان کی تاریخ کے وہ باب اپنے خون جگر سے لکھے جن کولکھنے کے لئے ہمیں سیاہی اور روشنائی کاسہارالیناپڑتاہے ۔
اس عظیم شخص پر کیا لکھاجائے جو بہ ذات خود ایک انجمن ہے ؟؟؟جو گوناگوں خصائل ، محیرالعقول شمائل سے مزین، ایک درویش صفت ،جواں عزم عالم ربانی ہونے کے ساتھ ساتھ امورِ مملکت کی عقدہ کشائی کے ہنر سے باخبر تھی، وہ اگرچہ فطرتاََبوریہ نشیں،خلوت گزیں اورہنگام عالم سے یکسو تھے ؛مگر ان کی تحریک ریشمی رومال نے وقت کے قیصر وکسریٰ کے پاو ¿ں تلے زلزلہ طاری کردیا،حکومت برطانیہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی چولیں ہلادیں، اس محمودی قافلے نے سامراجی قوت کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے حکام ہند کو ان کے تاریک مستقبل سے آگاہ کیا ۔کبھی اپنے فتووں سے باطل کا تعاقب کیا،کبھی لسانی قوت کے ذریعہ گوروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا، بہ وقتِ ضرورت شمشیر براں لے کر میدانِ کارزار میں کو دپڑے او راپنی حمیت دینی اورقوت ایمانی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
مختصر سوانحی خاکہ:
حضرت شیخ الہندؒ کی پیدائش 1851 ئ، 1268ھ میں بریلی میں ہوئی جہاں ان کے والد مولانا ذوالفقار علی سرکاری محکمہ تعلیم سے وابستہ تھے ،ابتدائی تعلیم اپنے مشہور عالم چچا مولانا مہتاب علی مرحوم سے حاصل کی، قدروی اور شرح تہذیب پڑھ رہے تھے کہ دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا، آپ اس میں داخل ہو گئے ۔
1286ھ میں نصاب دارالعلوم کی تکمیل کے بعد حضرت ناناتویؒ کی خدمت میں رہ کر علم حدیث کی تحصیل فرمائی، بعد ازاں فنون کی بعض اعلیٰ کتابیں والد ماجد سے پڑھیں۔
1290ھ 1873ءمیں حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی ؒ کے دست مبارک سے دستار فضیلت حاصل کی۔ زمانہ تعلیم ہی میں آپکا شمار حضرت نانوتویؒ کے ممتاز تلامذہ میں ہوتا تھا،اور حضرت نانوتویؒ خاص طور پر شفقت فرماتے تھے ،چنانچہ ان کی اعلیٰ اور ذہنی صلاحیتوں کے پیش نظر دارالعلوم کی مدرسی کے لئے اکابر کی نظر انتخاب ان کے اوپر پڑی اور 1874ء،1291ھ میں مدرس چہارم کے حیثیت سے آپ کا تقرر عمل میں آیا، جس سے بتدریج ترقی پاکر1308ھ ، 1890ءمیں صدارت کے منصب پر فائز ہوئے ۔
ظاہری علم و فضل کی طرح باطن بھی آراستہ تھا،1294ھ ، 1877ءمیں اپنے استاد حضرت نانوتویؒ کی معیت میں حج سے مشرف ہوئے ، مکہ مکرمہ میں حضرت حاجی امداد اﷲ قدس سرہ سے شرف بیعت حاصل کیا،آپ کی زبردست علمی شخصیت کے باعث طلباءکی تعداد 200 سے بڑھ کر 600 تک پہنچ گئی تھی آپ کے زمانے میں 860 طلباءنے حدیث نبوی سے فراغت حاصل کی۔
تحریک ریشمی رومال :
آج کا کوئی بھی تاریخ نویس اور حقائق کا ادراک کرنے والا منصف مزاج مورخ، بیسوی صدی کے آغاز کے ہندوستان کے ماحول اور اس وقت کی بین الاقوامی سیاست کے حالات کو سامنے رکھ کر اگر تجزیہ کرے گا تو لامحالہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اس وقت کے حالات کے تناظر میں ہندوستان کی مکمل آزادی کا اس سے بہتر کوئی منصوبہ اور خاکہ بنایا ہی نہیں جاسکتا تھا جو حضرت شیخ الہند نے بنایا تھا۔
آپ دیکھ رہے تھے کہ خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرنے کے بعد مسلح جدوجہد ‘ریاستی سرپرستی سے محروم ہو چکی… اب ہندوستان کیلئے کسی بیرونی امداد کا کوئی امکان نہیں رہا… اور نہ ہی اب کوئی احمد شاہ ابدالی مسلمانان ہند کی مدد کو آئے گا… استخلاصِ وطن کیلئے مسلح جدوجہد کی بجائے غیر مسلح جدوجہد ہی اب واحد راستہ ہے … سو تاریخ شاہد ہے کہ اس کے بعد پورے ہندوستان کے کسی کونے سے مسلح جدوجہد تو درکنار دشمن پر پتھر پھینکنے کا بھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا… تحریک ریشمی رومال آخری مسلح تحریک تھی اور یوں حضرت شیخ الہند مسلح اور غیر مسلح جدوجہد کے سنگم قرار پائے ۔
1912ءمیں ریشمی رومال تحریک کی ابتداءہوئی، بقول مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ :”آپ(شیخ الہند)انگریزی حکومت اور اقتدار کے سخت ترین مخالف تھے ،سلطان ٹیپو کے بعدانگریزوں کاایسادشمن اورمخالف دیکھنے میں نہیں آیا“۔اس تحریک میں اہم رول آپ کے شاگردمولاناعبیداللہ سندھی رحمہ اللہ نے ادا کیا، افغانستان کی حکومت کومدد کے لیے تیارکرنااورانگریزوں کے خلاف رائے عامہ بنانا مولانا عبیداللہ سندھی کامشن تھا۔ شیخ الہند کے نمائندے ملک کے اندر اور ملک کے باہرسرگرم اورفعال تھے ، افغانستان، پاکستان، صوبہ سرحداورحجازکے اندرقاصدکاکام کررہے تھے ،خلافتِ عثمانیہ کے ذمہ داروں سے مثلاًانورپاشاہ وغیرہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی،اورترکی جانے کاشیخ الہند نے خودعزم مصمم کرلیا تھا، اس مقصدکے لیے پہلے وہ حجازتشریف لے گئے اوروہاں تقریباًدوسال قیام رہا،اس اثنا میں دوحج کیے ،مکہ مکرمہ پہنچ کرحجازمیں مقیم ترک گورنرغالب پاشاسے ملاقاتیں کیں، اورترکی کے وزیر جنگ انورپاشاسے بھی ملاقات کی، جوان دنوں مدینہ آئے ہوئے تھے ،انھیں ہندوستان کی صورت حال سے آگاہ کیااوراپنے منصوبہ سے واقف کرایا،ان دونوں نے شیخ الہند کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے ، ان کے منصوبے کی تائید کی اور برطانوی حکومت کے خلاف اپنے اوراپنی حکومت کے تعاون کایقین دلایا، مولانا عبیداللہ سندھی نے کابل سے ریشمی رومال پرجوراز دارانہ خطوط شیخ الہند مولانا محمودحسن کومکہ مکرمہ روانہ کیے تھے ، ان کوحکومت برطانیہ کے لوگوں نے پکڑلیا، یہی شیخ الہند رحمہ اللہ کی گرفتاری کاسبب بنی اورپورے منصوبے پر پانی پھیردیا۔1916 ءمیں شریف حسین کی حکومت نے ان کومدینہ منورہ میں گرفتار کرکے انگریزی حکومت کے حوالہ کردیا۔شریف حسین نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت اور غداری کی تھی، وہ برطانوی حکومت کاوفاداردوست تھا اورخلافت عثمانیہ اورمسلمانوں کی تحریک آزادی کاشدید مخالف تھا۔
اسارت مالٹا اور انگریز وںسے شدید نفرت:
1917ءمیں شیخ الہند رحمہ اللہ اور ساتھوں کوبحیرئہ روم میں واقع جزیرہ مالٹا جلاوطن کیاگیا۔ مولاناحسین احمدمدنی ،مولاناعزیزگل پیشاوری ،مولاناحکیم نصرت حسین ،مولاناوحیداحمد رحمہم اللہ وغیرہم نے مدتوں اپنے استاذشیخ الہند رحمہ اللہ کے ساتھ مالٹا کے قیدخانہ میں سختیاں برداشت کیں،مالٹاکے قیدخانہ میں انگریزوں نے شیخ الہند رحمہ اللہ کے ساتھ ظالمانہ برتاو ¿ کیا، سخت سے سخت سزائیں دی گئیں؛چنانچہ مولانا حسین احمدمدنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب شیخ الہند کو مالٹا جیل میں نظربندکیاگیاتو انگریزمیرے استادکوایک تہہ خانہ میں لے گئے اور لوہے کی گرم تپتی ہوئی سلاخیں لے کرکمرپرلگاتے رہے اور ساتھ میں یہ فرماتے رہے کہ ”اے محمودحسن! انگریزکے حق میں فتوی دے “جب شیخ الہند ہوش میں آتے توصرف یہی فرماتے تھے کہ ”اے انگریز!میرا جسم پگھل سکتاہے ، میں بلال کاوارث ہوں، میری جلدادھیڑسکتی ہے ؛ لیکن میں ہرگز ہرگز تمہارے حق میں فتوی نہیں دے سکتا۔“شیخ الہندکی تحریک میں مولانامنصورانصاری ، مولانا فضل ربی ، مولانافضل محمود ،مولانامحمد اکبر کاشماراہم ارکان میں تھا۔
حضرت شیخ الہند کو صفر 1335ہجری میں گرفتار کر کے جزیرہ مالٹا میں لے جا کر قید کر دیا گیا اور رمضان 1338ہجری میں 3سال 7ماہ کی قید کے بعد آپ کو رہا کیا گیا۔
مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا حافظ محمد احمد مہتمم دارلعلوم دیوبند مولانا شوکت علی، ڈاکٹر مختار احمد المعروف ڈاکٹر انصاری، مولانا عبد الباری فرنگی محلی اور مسٹر گاندھی وغیرہ حضرات کی قیادت میں ہزاروں نفوس بمبئی میں آپ کے استقبال کیلئے دیدہ و دل فرش راہ تھے … خلافت کمیٹی کے زعماءہی نے آپ کیلئے شیخ الہند کا لقب تجویز کیا جو بمنزلہ جزاسمی بن گیا…
اسارت کی مشقتیں و تکالیف آپ کے جذبہ حریت و سامراج دشمنی میں کوئی کمی نہ لا سکیں، بلکہ مملکت عثمانیہ کی تقسیم، ترکوں کے ساتھ نا انصافیوں اور ہندوستان میں جلیانوالا باغ وغیرہ کے واقعات نے آپ کے سینے میں موجود سامراج دشمنی کو مزید بھڑکایا۔ بمبئی میں ہی مولانا شوکت علی، مولانا عبدالباری فرنگی محلی مسٹر گاندھی اور خلافت کمیٹی کے دیگر قائدین کی موجودگی میں خلافت کمیٹی کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا اور ہندوستان کی آزادی کیلئے عدم تشدد کے پروگرام کو لازم قرار دیا۔
حریتِ فکر اور سامراج دشمنی کا آپ کے ہاں یہ عالم تھا کہ پیرانہ سالی اور بیماری کی شدت کی وجہ سے خدام بضد تھے کہ سفر آپ کیلئے انتہائی مضر ہو سکتا ہے ، مگر جامعہ ملیہ علی گڑھ کے سنگ بنیاد کے لئے یہ کہہ کر تیار ہو گئے کہ ”اگر میری صدارت سے انگریز کو تکلیف ہو گی تو ضرور شریک ہوں گا“ حالانکہ اس وقت آپ خود سے چلنے پھرنے سے بھی قاصر تھے … اور واقعتاً یہ سفر دیوبند سے آپ کا آخری سفر ثابت ہوا۔
جمعیت علمائے ہند کے دوسرے اجلاس منعقدہ دہلی میں آپ کی طرف سے تحریر کردہ مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ دہلوی کا خطبہ صدارت جو آپ کی بیماری کی وجہ سے علامہ شبیر احمد عثمانی نے آپ کی طرف سے پڑھا آج کے حالات میں مسلم دنیا کیلئے اس کے مندرجات قابل غور ہیں…
1 :اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن انگریز ہے جس سے ترک موالات فرض ہے …
2 :تحفظ ملت اور تحفظ خلافت کے خالص اسلامی مطالبہ میں اگر برادران وطن ہمدردی اور اعانت کریں تو جائز اور مستحق شکریہ ہیں…
3:استخلاص وطن کے لئے برادران وطن سے اشتراک عمل جائز ہے ، مگر اس طرح کہ مذہبی حقوق میں رخنہ واقع نہ ہو۔
4 :اگر موجودہ زمانے میں توپ، بندوق، ہوائی جہاز کا استعمال مدافعت اعداءکے لئے جائز ہو سکتا ہے … باوجودیکہ قرون اولی میں یہ چیزیں نہ تھیں، تو مظاہروں، قومی اتحادوں اور متفقہ مطالبوں کے جواز میں بھی تامل نہ ہوگا کیونکہ ایسے لوگوں کے لئے جن کے ہاتھ میں توپ، بندوق، ہوائی جہاز نہیں ہیں انکے لئے یہی چیزیں ہتھیار ہیں۔
(خطبہ صدارت16مطبوعہ مطبع قاسمی دیوبند)
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ گُل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے
آپ کے علمی کارنامے :
دین و شریعت ، قیادت و سیادت اور تبلیغ و دعوت کے مختلف شعبوں میں ہمہ گیر و ہمہ جہت خدمات انجام دینے کے علاوہ علم و تحقیق اور تصنیف و تالیف کے وسیع میدان میں بھی آپ کی گراں قدر تخلیقات اور علمی خدمات لائق ستائش اور قابل تحسین ہے ؛جس کی اجمالی فہرست میں’’قران مجید کا اردو ترجمہ ،ادلہ کاملہ ،ایضاح الادلہ،احسن القری ،جہد المقل،الابواب والتراجم،حاشیہ مختصر المعانی،تصحیح ابو داو ¿ود،سیاسی خطبات کے علاوہ مختلف فتاوی جات‘‘ بھی شامل ہے ۔
وفات :
مالٹا سے واپسی کے بعد صحت بگڑ چکی تھی اور قویٰ پیرانی سالی کے باعث نہایت ضعیف ہو گئے تھے مگر بایں ہمہ آپ نے نہایت شدو مد کے ساتھ سیاسی کاموںمیں حصہ لیا، طبیعت اس بار گراں کی متحمل نہ ہو سکی،اسی دوران علی گڑھ کا سفر پیش آیا واپسی کے بعد جب حالت زیادہ تشویشناک ہو گئی تو بغرض علاج ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے یہاں دہلی لے جایا گیا،حکیم اجمل خان بھی شریک علاج تھے ، مگروقت موعود آچکاتھا ۔
آپ جب اس دنیا کو چھوڑ رہے تھے تو آپ نے آخری تمنا یہ ظاہر فرمائی:’’مولانا شبیر احمد صاحب ؒ کا بیان ہے :حضرت نے تھوڑی دیر آنکھ کھول کر چھت کی طرف دیکھا پھر فرمایا کہ مرنے کا تو کچھ افسوس نہیں ہے مگر افسوس ہے کہ میں بستر پر مر رہا ہوں، تمنا تو یہ تھی کہ میں میدان جہاد میں ہوتا اور اعلاءکلمة الحق کے جرم میں میرے ٹکڑے کیے جاتے ۔ اس کے بعد بلند آواز سے اﷲ اﷲ سات مرتبہ کہا۔ آٹھویں مرتبہ آواز بند ہوگئی۔‘‘ (نقش حیات )
اس طرح علم و ہنر ،فضل وکمال ،عبقریت و نابغیت کا یہ آفتاب و ماہتاب 18 ربیع الاول 1339ھ( 30 نومبر 1920ئ) کی صبح کو عازم ملکِ بقا ہوا۔ ۔
غسل دینے کے لئے جب آپؒ کو تختہ پر لٹایا گیا تو پیٹھ بالکل سیاہ تھی ۔لوگو ں نے آپؒ کے رفقائے مالٹا سے پوچھا کہ یہ نشانات کس چیز کے ہیں ؟ تو انہوں نے بتایاشیخ الہند محمود الحسنؒ نے ہمیں وصیت کی تھی کہ اِن مصائب کا ذکر کسی سے مت کرنا ۔لیکن آج حضرت شیخ الہند ؒ اس دنیا میں نہیں رہے تو آج ہم بتائے دیتے ہیں کہ یہ نشانات اس وقت کے ہیں جب مالٹا کی جیل میں انگریز اُن کو الٹا لٹا کر پیٹھ پر کوڑے برسایا کرتا تھا۔
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں
ہمیں بھی یاد کرلینا، چمن میں جب بہار آئے