” رنگ دے مجھے بھی گیروا“

قاسم سید 

گجرات کا الیکشن کئی معنوں میں بہت اہم ہے اس لئے بی جے پی اور کانگریس نے اپنا سب کچھ دائو پر لگادیا ہے۔ اخلاقی معیارات کا تو پہلے ہی جنازہ نکل چکا ہے عہدوں کا وقار بھی ملیامیٹ ہو رہا ہے۔ سیاست کی نئی تعبیر یں سامنے آرہی ہیں۔ سافٹ ہندو تو کا چولا بھی رنگ دے مجھے گیروا کا نعرہ مستانہ لگاتا نظرآرہا ہے۔ اب دھیرے دھیرے سیاست جس موڑ پر پہنچ گئی ہے وہ بہت خطرناک رجحانات کا اشارہ ہی نہیں وارننگ دے رہی ہے ۔ قورمہ بریانی کے نشہ میں مدمست لوگ اپنے بال نوچنے‘ ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑنے اور تہذیبی شرافتوں کے نئے رویوں سے خود کو آشناکرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں رفع یدین‘ وسلام ونیاز جلوس وجلسوں کے جواز عدم جواز سے فرصت ملے تو ادھر دیکھیں کہ زمانہ کتنی قیامتوں کی چال میں الجھا ہوا ہے۔ خود کچھ نہ کرکے سب کچھ اللہ پر چھوڑدینے کے مرض نےذہنی کوڑھی ہی نہیں لولا لنگڑا بنادیا ہے۔ہر مصیبتوں کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینے کے فریب نے جدوجہد اور عمل پیہم کی شاندار روایات کو اجنبی بنادیا ہے۔ پدرم سلطان بود کانشہ ابھی اترا نہیں ہے۔ سمندرمیں گھوڑے دوڑادینے کی گردان سر بلند کرنے کے لئے کافی ہے۔ لیکن یہ نہیں سوچاجاتا کہ آنے والی نسلیں ہمارے بارے میں کیاپڑھ کر فخر کریں گی۔
اترپردیش کے الیکشن نے ایک تازیانہ لگایا تھا پہلے پارلیمانی انتخابات میں ایک بھی مسلم نمائندہ کسی پارٹی کا لوک سبھا نہیں پہنچ سکا پھر اسمبلی انتخابات نے رہی سہی کسرپوری کردی۔ پارٹی وہپ کے غلاموں کی تعداد گھٹنے یا بڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن انتظامیہ پر دبائو ضروربنتا ہے۔ ابھی بلدیاتی انتخابات میں مختلف شہروں سے جس طرح کی دھمکیاں دی گئیں حق میں ووٹ نہ دینے پر حکمراں پارٹی کی صفوں سے سنگین نتائج بھگتنے کی باتیں کہی گئیں وہ یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ اگر ہوش وخرد کے ناخن لے کر مسائل کی گتھی سلجھانے پر غور نہیں کیا گیا تو یہ دھمکیاں عملی شکل میں بھی سامنے آسکتی ہیں۔ گجرات الیکشن دھیرے دھیرے وکاس کی پٹری سے اتر کر جذباتی ایشوز کے جنگل کی طرف جارہا ہے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کی جگہ رام مندر ‘حافظ سعید ‘کانگریس نائب صدر کے ہندوہونے یا نہ ہونے‘قد آور لیڈروں کو گالی دینے‘ پدماوتی کو راشٹر ماتا بنانے کے ایشوز حاوی ہوگئے ہیں۔ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت پوراالیکشن کون بڑا ہندو‘راشٹر بھکت اورہندوتو کا حامی ہے ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔
ظاہر ہے الیکشن آتے جاتے رہتے ہیں لیکن وہ قومی حرارت اور سمت سفر کا پتہ ضرور دے جاتے ہیں۔ اب تک صرف بی جے پی ہندوتو اور ہندو بھکت ہونے کے حقوق اپنے نام محفوظ سمجھتی تھی اب کانگریس بھی اس پیٹنٹ پر اپنادعویٰ کر رہی ہے اس کی نقل وحرکت‘زبان وبیان اور سرگرمیوں کا ایک رخا پن یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کہ وہ سافٹ ہندوتو کے تکلفات کے تمام باریک پردوں کو نوچ پھینکنا چاہتی ہے اور سب سے بڑا ہندو علمبردار‘ہندو بھکت‘ راشٹر بھکت ثابت کرنے پر تلی ہے۔ اگر حالیہ دنوں کی ٹی وی ڈبیٹ پر غور کیا جائے کانگریس ترجمانوں کے مباحث کا تجزیہ کریں تو بہت ہی خطرناک الارم بجتا سنائی دے گا۔ متنازع جگہ پر رام مندر تعمیر کرنے کی بحث کےد وان میری قمیض تیری قمیض سے زیادہ اجلی ہے بتانے کے لئے خم ٹھونک کرکہتے ہیں کہ رام مندر(غور کریںبابری مسجد کہنابہت پہلے بھول گئے ہیں)کا تالہ ہم نے کھلوایا۔ اس سے قبل جس جگہ نماز ہوتی تھی اس پر تالہ ہماری سرکار کے دوران لگا‘اس طرح شیلا نیاس راجیو گاندھی کے دور حکومت میں ہوا۔ متنازع ڈھانچہ ہماری پارٹی کی سرکار میں گرایاگیا۔ وہاں علامتی مندر نرسمہا رائو سرکار نے بننے دیا۔ پھر ساری زمین ایکوائر کرائی یعنی جن باتوں کے تذکرے سے کانگریس گھبراتی تھی موضوعات بدلنے کی کوشش کرتی تھی‘ ان پر کبھی کبھار نجی مجلسوں میں ہی سہی اظہار شرمندگی کرتی تھی۔ نرسمہارائو نے شرما حضوری میں اس مقام پر مسجد بنوانے کا اعلان کیا تھا‘یہ بات کسی پروگرام میں نہیں بلکہ دوردرشن پر قوم سے خطاب کے دوران وعدہ کیا تھا ۔انہدام کے سبب کانگریس کو مسلمانوں کی ناراضگی جھیلنی پڑی ۔اترپردیش میں اس کا سیاسی بنواس ہوگیا۔ مرکز بھی ہاتھ سے چلاگیا۔ یوپی میں دوبارہ اقتدار کی رونمائی نصیب نہیں ہوئی۔ اب انہی کارناموں پر فخر کرتےہوئے اسے ذراسی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ راہل بھی مودی سے بڑا تلک لگواکر جلسوں میں جاتے ہیں ۔ عوام سے روبرو ہو رہے ہیں یہ محض گجرات کا دبائو ہے یا کانگریس کا کایاپلٹ نظریاتی طور پر بی جے پی کے سامنے سپراندازی ہے یا حالات کی مجبوری ہے‘ دکھاوا ہے یا قبلہ کی تبدیلی۔ انٹونی کی رپورٹ کا سائیڈ افیکٹ ہے یا واقعی وہ بھی ہندوتو کو بطور فلسفہ اور سیاسی نظریہ قبول کرچکی ہے۔ اس پر ہمیں غور کرنا ہوگا کہ کانگریس کی راہل کے مندروں کے طوفانی دوروں اور سوم ناتھ مندر میں درشن کے وقت غیر ہندو رجسٹر میں نام کے اندراج پر یہ وضاحت کہ راہل گاندھی شوبھکت ہیں‘ پکے اور جینودھاری ہندو ہیں اس موقف کی حمایت میں پرانی تصویروں کا اجرا جس میں وہ جینو دھارن کئے ہوئے ہیں کیا بتاتا ہے۔ کیا یہ صرف ہندوتو کی دوڑ میں خود کو زیادہ سچا‘اچھا اور بڑاہندو ثابت کرنے کی کوشش ہے‘ کیا بی جے پی اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی ہے کہ ملک کی سابق سب سے بڑی پارٹی کو گیروا میں رنگ دیا اور اس کا سیکولر ازم کا نشہ ہواہوگیا۔ مسلمانوں کے بغیر سرکاروں کی تشکیل کا تجربہ کانگریس کو بھاگیا؟ اس نے گجرات میں مسلم ایشوز کو چمٹے سے چھونے کی بھی ہمت نہیں دکھائی۔ مسلم امیدواروں کی تعداد 2012سے بھی کم کردی۔ راہل مندر جانے میں نہیں شرماتے ان کے جلسوں اور روڈ شو میں ٹوپی‘داڑھی والے غائب ہیںیا کردئیے گئے ہیں حتیٰ کہ احمد پٹیل کا بھی کھل کر استعمال نہیں ہو رہاہے۔
اس بات کو سیاسی حلقوں نے نوٹ کیا ہے کہ مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالنے میں کانگریس بی جے پی کی گرو ہے۔ دونوں کے نظریات میں باریک لکیر کا فرق بھی مٹ گیا ہے۔ مسلمان صرف پنچنگ بیگ کی طرح استعمال ہوتا رہا ہے جب فسطائیت انگڑائی لیتی ہے تواکثریتی جارحیت کے پنجوں میں اقلیتوں اور کمزور طبقات کاگلا آجاتا ہے ہٹلر نے اقتصادی بدحالی تلے دبی جرمنی قوم کو یہودی مسئلہ اور آریائی برتری کا کھلونا تھما دیا۔ مسولینی نے اقتدار کو طول دینے کے لئے بحالی عظمت رومتہ الکبریٰ کی نشیلی بوتل اطالیوں کو پکڑادی اور بقول کسی کے اتنی زور سے آواز آئی کہ شاعر مشرق علامہ اقبال بھی اس کے چکر میں آگئے۔ نتیجہ کیا ہوا مسولینی اور ہٹلر کا حشر کیا ہوا تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں جب بھی فسطائیت کو محسوس ہوگا کہ اس کا نشہ کم ہو رہا ہے ‘کبھی گائے ‘کبھی گنگا‘کبھی گئو رکشا‘ کبھی تاج محل‘ کبھی پدماوتی‘ کبھی تاریخی لیٹرے کبھی دیش دروہی کام میں لائے جاتے رہیں گے تاکہ نشہ ہرن نہ ہو۔ اس وقت ہندوئوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کا واحد راستہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور کمزور طبقات کو قدم قدم پر اہانت وذلت کا احساس کرایا جائے۔ انہیں سیاسی غلام بن جانے اور تنہا ہونے کا یقین دلاکر خوف وہراس پیداکیاجائے۔مبینہ گئو رکشک نامی غنڈوں کے ہاتھوں پیش آنے والے واقعات اس منصوبہ بند مہم کا حصہ ہیں۔ جن سیکولر قوتوں کے لئے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑدیا ‘ دشمنیاں مول لیں وہ اجنبی بن گئی ہیں ۔ ملائم ہوں یا نتیش اپنا کام نکال کر چورا ہے پر چھوڑجاتے ہیں۔ ایسی سیکڑوں مثالیں ہیں اور ہم پنچنگ بیگ کی طرح استعمال ہونے میں ہی لذت محسوس کرتے ہیں۔
آنے والے دن اور خطرناک صورت حال کو جنم دیں گے یہ تحریر ڈرانے کے لئے نہیں آئینہ دکھانے کے لئے ہے۔سیاسی جلاوطنی کا عذاب اور سخت اور طویل ہوگا اس میں کوئی شک نہیں گجرات یوپی کے بعد 2019کی فلم کا دوسرا ٹریلر ہے جو حضرات کانگریس کی واپسی کے لئے مصلی بچھاکر دعاگوہیں ‘منتیں مانگے بیٹھے ہیں انہیں کانگریس کی قبلہ تبدیلی اور قلبی کیفیات میں تبدیلی کا ادراک ضرور ہوناچاہئے۔ زیادہ خوش فہمیاں سادہ لوحی کا پرتوہیں سیاسی وسماجی رتبہ طے کرنے میں انتخابات کا اہم رول ہوتا ہے اور ہم نے انتخابی سیاست کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا پنچنگ بیگ بنے رہے یہ حالات اچانک پیدا نہیں ہوئے ستر سال کی محنتوں اور قربانیوں کا نتیجہ ہیں اس میں کانگریس کا بڑا حصہ ہے۔ ہمارے بزرگ اور دانشور حالات کی تبدیلی کے مدنظر حکمت عملی میں تبدیلی پر سنجیدگی سے غور کریں۔ باہمی اختلافات ومسلکی عداوت کے جن کو مفاہمت کی بوتل میں تبدیل کرکے ہم جیسے نادانوں کو راستہ دکھائیں۔ نوجوانوں کو اعتماد میں لیں اور ’رنگ دے مجھے بھی گیروا‘‘ کی مہم کے مضرات کو سامنے رکھ کر مختصر اور طویل مدتی حکمت عملی بنائیں۔

qasimsyed2008@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں