فریادوں کی برات – – ایک مطالعہ

عمرفاروق قاسمی

ٌَُُمیرے بغیر اس جہان رنگ وبو کی دلکشی ادھوری ہے. میں محض خوبصورتی کی ہی مالک نہیں ہوں، بلکہ باعث کشش بھی ہوں، میں پھولوں کا تبسم، چاند کی چاندنی، سورج کی تابانی، جھرنوں کا ترنم، دریاؤں کی روانی، پہاڑوں کی صلابت، تاروں کی جگمگاہٹ، چرخ کی بلندی، اور زمین کی پستی کا مجموعہ ہوں۔ أقطاب و ابدال، غوث واولیا، اصفیا و اتقیا، زہاد و علما، انبیا و رسل سبھوں نے میری کوکھ سے جنم لیا، میری گود میں تربیت پائی ….. ان تمام خوبیوں اور اوصاف کے ہوتے ہوئے مرد میری ذات پر کیچڑ اچھالتے ہیں، ہم پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑتے ہیں ……. دوکانوں، ٹیلی فون بوتھوں، اور دیگر جگہوں پر مجھے کاؤنٹر پر کبھی کھڑا کرتے ہیں کبھی بٹھاتے ہیں، کال سینٹر میں میری ذات کو ترجیح دی جاتی ہے تاکہ میری وجہ سے زیادہ سے زیادہ گاہکوں کی آمد ہو اور سامانوں کی بکری از حد فزوں ہو، یہی مرد مجھے محفل میں نچواتے ہیں، اور میری ذات سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں، مجھے نیم برہنہ لباس پہنا کر دکانوں، بازاروں، اور چوک چوراہوں کی زینت بنوا کر خوب خوب حظ اٹھاتے ہیں، میری عریاں تصویریں دیواروں پر چسپاں کرکے صبح و شام جی بھر کر نظارہ کرتے ہیں ….. وہ میری ذات سے اپنی تجارت کو چار چاند لگاتے ہیں، کبھی سوپر لکس تو کبھی ناریل تیل اور کبھی فیس کریم اور کبھی ملبوسات اور کبھی مختلف قسم کی گاڑیوں کے اشتہارات کے لیے میرے نیم عریاں جسم کی تصویر استعمال کرتے ہیں۔

مندرجہ بالا اقتباسات میں ہمارے زمانے کی صنف نازک عورت کی فریاد ہے یہ عبارتیں ہمارے محترم اور بڑے دوست جناب مولانا عبد القادر ارشد کمالی کی نئی نویلی تصنیف فریادوں کی برات سے ماخوذ ہے۔ مولانا نے ہندوستان میں دینی تعلیم کے دونوں مشربوں – – دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ – – کا جام پیا ہے اس لیے زبان ہوشمند اور دل روشن دونوں کے مالک ہیں، تحریر میں شوخ پن بھی ہے اور صالحیت بھی ، انداز بیان میں ندویت تو فکر و دماغ میں قاسمیت کا پورا پورا نمونہ ملتا ہے، مولانا موصوف لگ بھگ تین سالوں سے میرے ساتھ پلس ٹو ہائی اسکول بسفی مدہوبنی میں استاد ہیں، ظاہراً خاموش طبعیت نظر آتے ہیں، اسکول کے داخلی معاملے میں بہت ہی کم رائے زنی کرتے ہوئے دیکھا، ہاں ہمیشہ خاموش انداز میں کچھ گنگناتے ہوئے تو کبھی کچھ سوچتے ہوئے ضرور پایا، ایک روزنامہ کے ماہانہ طرحی مشاعرہ کے لئے اکثر غزل لکھتے ہوئے دیکھا اور سنا بھی ہے ، تاہم میرا اپنا گمان تھا کہ وہ صرف خواب و خیال کی دنیا یعنی شعر گوئی ہی میں مست رہتے ہیں، رہی بات نثری دنیا تو اس میں وہ ٌعجمیت ٌ یعنی گونگاپن کے شکار ہیں، لیکن فریادوں کی برات دیکھنے کے بعد یہ پتہ چلا کہ وہ خاموشی میں بھی گفتگو کرتے ہیں، ان کا سکون بھی حرکت و تحریک سے عبارت ہے۔ ان کی یہ کتاب دیکھنے کے بعد بے ساختہ یہ شعر میرے ذہنی اسکرین پر آیا:
کہہ رہا تھا موج دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

اردو زبان میں افسانہ، ناول، داستان، مضمون نگاری، انٹر ویو، رپور تاز اور انشائیہ کی طرح فریاد نگاری کوئی متعین صنف کی حیثیت سے معروف و مشہور نہیں ہے، اشعار کی دنیا میں علامہ اقبال نے پرندے کی فریاد اور ماہرالقادری نے قرآن کی فریاد ضرور لکھی ہے تاہم دونوں نے صرف ایک ایک نظم لکھ کر چھوڑ دی ہے باضابطہ صنف کی حیثیت سے اس کو شہرت عطا نہیں کی ہے. مولانا کمالی نے ایک درجن فریادوں کا مجموعہ بنام فریادوں کی برات لکھ کر باضابطہ ایک صنف کی حیثیت سے اسے متعارف کرایا ہے اگرچہ مصنف نے عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
سر محمد اقبال نے پرندوں کی فریاد اور علامہ ماہر القادری نے قرآن کی فریاد لکھ کر فریاد نگاری کی بنیاد رکھ دی، چنانچہ فریاد نگاری کوئی نئی صنف نہیں ہے، ہاں نثر میں ایک درجن فریادیں لکھنا نیا اور اہم کام ضرور ہے، ایسی کوئی تخلیق زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہوئی اس لئے اس میں نیا پن بھی ہے، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ بعد کی دنیا میں اگر اس کو صنف کا درجہ مل جاتا ہے تو اولین فریاد نگاروں بلکہ اس صنف کے ارکان تاسیسی میں ان کا شمار ضرور ہوگا۔
کتاب آسان، سادہ اور عام فہم زبان میں لکھی گئی، فریاد چونکہ بے تکلف اور تصنع سے پاک الفاظ کا تقاضا کرتی ہے اس لیے مصنف نے بھاری بھر کم اور ثقیل الفاظ سے گریز کرتے ہوئے، ایسا اسلوب اختیار کیا جو مخاطب کے دلوں کو براہ راست اپیل کرتی ہے ملاحظہ ہو قرآن کی فریاد سے ان کا یہ دونوں اقتباس :

میں دستور حیات ہوں. میں خوش گوار زندگی کا ضامن ہوں، میں مشعل راہ ہدایت ہوں. میں روشنی کا منار ہوں. میں سرچشمہ علوم وفنون ہوں. میں مصدر قانون زندگی ہوں. مجھ میں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات وحادثات کی خبریں ہیں. مجھ سے تعلق قائم کرنے والے افراد علم وحکمت کے مالک بن جاتے ہیں. عقل و خرد کی باتیں سیکھ لیتے ہیں. برائیوں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں. نظافت ونفاست سے ہم کناری حاصل کرتے ہیں. پاک دامنی ان کا شعار بن جاتی ہے. ظلم و جبر کرنے سے وہ نجات پاجاتے ہیں. صدق وصفا ان کی رگ و پے میں پیوست ہوجاتے ہیں. دل روشن اور عقل آسمان کی طرح وسیع ہو جاتی ہے۔

اسی فریاد میں وہ قرآن کی زبان میں لکھتے ہیں :
لوگوں نے مجھے بیماریوں میں تعویذ بنا کر پہن لینے والی کتاب بنا رکھا ہے، کسی کے مرنے کے وقت پڑھنے والی کتاب مجھے تصور کرنے لگے ہیں، مسلمانوں نے اپنی دنیاوی ضرورتوں کے لیے مجھ کو بیچنا شروع کردیا ہے، میری آیتوں کو پڑھنے ،سمجھنے اور عمل کرنے کی جگہ اپنے گھروں کو سجانے والی چیز بنا کر میرا استعمال شروع کردیا ہے. تصویر کی طرح میری آیتوں اور سورتوں کو فریم میں سجا کر اپنے کمروں میں ٹانگ دیتے ہیں…. دو فریق کے جھگڑے چکانے کے لیے مجھے ہاتھوں پر لے کر قسم کھائی جاتی ہے.

لیکن اس سادگی کا یہ مطلب نہیں کہ پرھنے والے کو بےمزہ کردے، سادگی میں بھی حسن و جمال پایا جاتا ہے، چھوٹے چھوٹے جملے میں جو دلکشی ورعنائی پائی جاتی ہے آپ اس کو بحسن وخوبی محسوس کریں گے وقت کی فریاد سے اس عبارت کی دلکشی دیکھئے:

سمندروں کا مد و جزر بھی مجھ میں ہوتا ہے. نومولود کو زندگی کی کرن مجھ سے عطا ہوتی ہے، کسی فرد کی زندگی کا چراغ گل ہونے کا سبب بھی میں ہی بنتا ہوں،
پھولوں کی مسکراہٹ مجھ میں بخشی جاتی ہے. ان کی حسین پنکھڑیوں کا بکھراؤ بھی مجھ میں ہوتا ہے، چرند و پرند بھی اپنے رسیلے گیت مجھ میں گاتے ہیں، جنگلوں میں شیر مجھ میں دہاڑتے ہیں۔
باغوں میں درختوں کے پتوں کی حرکتیں بھی مجھ سے ہی قائم ہیں. پہاڑوں کی عظمتیں بھی مجھ سے ہی ہیں. دریاؤں کی ترنم آمیز لہریں بھی مجھ پر موقوف ہیں. دھرتی کے سینے پر گھاس کا خوشنما فرش بھی میرے دم سے ہے۔
شہنشاہوں کی تخت نشینی میری مرہون منت ہے، گداگروں کی تقدیریں میری مٹھی میں بند ہیں. دلرباؤں کی دلربائی میری اسیر، عاشقوں کی عاشقی میری تابع. دلہنوں کا سہاگ مجھ سے قائم ہے. ان کے ماتھے کا سندور میری ذات سے ہے۔

ہندوستان کثرت میں وحدت کا ملک ہے ہزاروں سالوں سے ہندو، مسلم، سکھ، اور عیسائی اس ملک میں اپنی انفرادیت اور شناخت کی بقا کے ساتھ ساتھ پیار و محبت کے گیت گاتے ہوئے آئے ہیں اور یہی اس ملک کی خوبصورتی ہے اس خوبصورتی کو کمالی صاحب نے جو دلکشی اور رعنائی عطا کی ہے ملاحظہ ہو بھارت کی فریاد سے یہ اقتباس:

ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی یہ چاروں میری شرن میں برسہا برس سے رہتے آرہے ہیں…….. ان مختلف قوموں کے مل جل کر رہنے کے سبب ہی میری کلائیوں میں چوڑیاں کھنکتی ہیں. میرے پائل بجتے ہیں. میری پیشانی میں سندور بھرا رہتا ہے. میرے رخساروں کی لالی قائم رہتی ہے. میری مانگ میں بندیا چسپاں رہتی ہے. میرے کان بالیوں سے سجے رہتے ہیں. میری آنکھیں سرمگیں دکھائی دیتی ہیں. میرا حسن نکھرتا ہے. میری چال دلربا نظر آتی ہے. میں پورے جہان میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہوں۔

خلاصہ یہ ہے کہ بارہ فریادوں پر مشتمل اس کتاب کا نام اگر چہ مصنف نے برات رکھا ہے جو دولہے کی طرف سے انتہائی بےہنگم لوگ ہوا کرتے ہیں تاہم میری نظر میں یہ کتاب اس نئی نویلی دلہن کی طرح ہے جس کے انگ انگ کو حسن وجمال کا دوپٹہ اڑھا دیا گیا ہو، جس کے چہرے کو ذاتی خوبصورتی کے باوجود مختلف قسم کے غازہ، مسی، لالی اور پاؤڈر سے مزین کردیا گیا ہو.اس مضمون میں کتاب کے کچھ اقتباسات سے اس کے حسن وجمال سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی گئی تاہم اس کے حسن وجمال سے پورا لطف لینا چاہتے ہیں تو خود نقاب کشائی کیجئے. محکمہ کابینہ سکریٹریٹ اردو ڈائریکٹوریٹ پٹنہ کے مالی تعاون سے یہ کتاب شائع ہوئی ہے اگر کہیں کہیں پر کمپوزنگ کی غلطیاں نظر آجائیں تو مصنف کو معذور سمجھئے کیوں کہ الکاتب کالحمار بہت مشہور جملہ ہے۔ ویسے بھی ہمارے قومی رہ نما اپنی غلط بیانی کا ٹھیکیڑا میڈیا ہی پڑ پھوڑتے ہیں. کہنے کا مقصد ہے کہ پروف کی غلطیوں کے ذمہ دار دونوں ہیں، امید ہے کہ اگلی اشاعت میں اس کی اصلاح کر لی جائے گی
رابطہ : 9525755126

★ ملنے کا پتہ ہے
1: عبد القادر ارشد کمالی مقام وڈاکخانہ بالا ساتھ وایا رائے پور سیتا مڑھی 843326 موبائل 8757315359
2: پرویز بک ہاؤس سبزی باغ پٹنہ
3: بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں