اختلاف اپنی جگہ لیکن اس سے آگے بڑھ کر سوچئے

خبر درخبر(535)
شمس تبریز قاسمی
لوک سبھا سے طلاق ثلاثہ بل پاس ہونے کے بعد ہندوستانی مسلمانوں میں بے چینی ،مایوسی اور اضطراب کی کیفیت پید اہوگئی ہے ،نئی نسل کے فرزندان توحید سب سے زیادہ پریشان اور بے چین ہیں،مدارس اور کالجز کے فضلاءسوشل میڈیا پر غم وغصہ اپنی قیادت کے خلاف نکال رہے ہیں،حیران کن بات یہ ہے کہ مدارس کے فضلاءبھی اس مرتبہ اپنے علماءکے خلاف لکھنے میں جھجھک محسوس نہیں کررہے ہیں ،جو کل تک علماءاور ملی تنظیموں کے بارے میں کچھ بھی لکھنے کو گستاخی سمجھتے تھے آج وہ بھی ان کی قیادت سے بد ظن ہوکر اسد الدین اویسی کو اپنا ہیر ومانتے ہوئے ان کی لیڈرشپ میں آگے بڑھنے کا مشورہ دے رہے ہیں ،آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ ،جمعیة علماءہند جیسی تنظیمیں سب سے زیادہ نشانے پر ہے ،مولانا محمد ولی رحمانی ،مولانا ارشد مدنی ،مولانا محمود مدنی جیسوں کی قیادت پر آواز اٹھائے جارہے ہیں،کشن گنج سے لوک سبھا کے ایم پی مولانا اسرا ر الحق قاسمی اور اے آئی یو ڈی ایف کے صدر مولانا بدر الدین اجمل قاسمی سب سے زیادہ تنقید کے شکار ہورہے کیوں کہ 28دسمبر کو مولانا بدرالدین اجمل شروع سے موجود نہیں تھے اور مولانا اسرارالحق قاسمی بل پیش ہونے کے بعد نکل گئے۔ خلاف شریعت پاس ہونے والے بل کی دفعات میں اسد الدین اویسی نے ترمیم کا مطالبہ کیاتو کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا ۔
ملی قیادت اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کرنے والے ان علماءکے خلاف ہمارا غم وغصہ بجاہے،یقینی طور پر ملی تنظیموں سے کچھ چونک ہوئی ہے ،آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ بھی کسی حدتک ذمہ دار ہے ۔ سیاسی سطح پر اثر ورسوخ رکھنے والی جمعیة علماءہند کے دونوں گروپ نے بھی کوئی خاص کردارادانہیں کیا ۔جائزہ بتاتاہے کہ پارٹی اور سرکار میں فرق ملحوظ نہیں رکھاگیا یا پھر سرکار کے اصل منشاءکو سمجھنے میں ہماری قیادت ناکام رہی ، فریق مخالف کے ناپاک ایجنڈے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس کا کوئی متبادل حل نہیں ڈھونڈھاگیا،ہم نے اعترا ض ہونے کے بعد دفاع کیا کبھی خود سے اقدام کرتے ہوئے ان تمام مسائل کا حل نہیں ڈھونڈا کیا ،از خود کوئی مسودہ بناکر پیش نہیں کیا ،سزا دینے کی بات بہت بعد میں کی گئی ۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجود یہ وقت قیادت پر سوال اٹھانے ،انہیں تنقید کا نشانہ بنانے اور ان کی اہلیت پر سوال اٹھانے کا نہیں ہے ،اس وقت ہمیں حکومت کے منشاءکو سمجھنے کی ضرورت ہے ،اس بات کی تہ تک پہونچناہے کہ یہ بل ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہے ، ہم سے ہماری شناخت چھیننے کی سمت میں پہلاقدم ہے ، اس کا مقصد مسلم خواتین کو تحفظ دینے کے بجائے ان کے گھر کو برباد کرنا اور ذہنی مریض بناناہے ۔
ہمیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیئے کہ آر ایس ایس ہندوستان میں منواسمرتی کو لانا چاہتی ہے ،ہندتوا کا ایجنڈا نافذ کرنا اس کا اصل مشن ہے ، حال ہی میں موہن بھگوات نے کہاہے کہ سنگھ کا مقصد سیاست نہیں ہندتوا کا نفاذ ہے ،اور اس کی راہ میں وہ سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں کو سمجھتی ہے ،اسلامی تعلیمات اور ہمارامذہبی فلسفہ ان کی مشن میں سب سے بڑاپتھر ہے ۔،اسی لئے انہوں نے مسلمانوں کو اپنا دشمن قرار دیکر ہمارے خلاف کئی محاذ پر حملہ شروع کردیاہے،اخلاق ،پہلو خان اور افرازل کا قتل کراکر نفسیاتی طور پر پورے ملک کے مسلمانوں کو خوف زدہ کردیاگیا ہے ،تاریخ سے چھیڑ چھاڑکرکے ہماری شبیہ خراب کرنے کی کوشش جاری ہے ،ذہنوں کو پراگندہ کرنے اور ایک خاص مقصد کے تحت استعما ل کرنے کیلئے نصاب تعلیم تبدیل کیا جارہاہے اور ان سب کے ساتھ نظریاتی جنگ بھی بہت تیزی کے ساتھ آر ایس ایس لڑرہی ہے ،کوئی بھی تحریک اور جہدوجہد اسی وقت کامیابی سے ہم کنار ہوتی جب وہ تمام محاذ پر بیک وقت فعال اور متحرک رہتی ہے اور یقینا سنگھ پریوار اسی اصول پر گامزن ہے ۔مسلم خواتین کے تحفظ کے نام پر طلاق ثلاثہ بل در اصل یہ بتانے کیلئے ہے کہ خامیاں صرف ہندو مذہب میں نہیں بلکہ اسلام میں بھی ہے ،ہندوسماج کو یہ بتانا مقصد ہے کہ جس اسلام میں مذہب کو اچھااور مکمل سمجھاجاتاہے وہ غلط ہے ،یہ بھی قابل اصلاح ہے ،اس کے یہاں بھی خواتین کو حقوق 14سوسالوں بعد مودی کی کرم فرمائی سے دیاگیاہے ۔پارلیمنٹ میں اس بل پر بحث کے دوران دوباتیں سب سے زیادہ کہی جارہی تھی ۔ہر اعترا ض کے جواب میں یہ کہاجارہاتھا کہ ہندوسماج میں بھی اصلاح کیلئے ہندو کوڈ بل لایاگیاتھا،آج نریندر مودی نے مسلم سماج میں اصلا ح کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے یہ بل پیش کیا ہے ۔ اس لئے اس کو مذہبی مداخلت کی نظرسے دیکھنے کا جواز نہیں بنتاہے۔دوسری بات سب سے زیادہ قابل غور یہ تھی کہ سبھی اسے تاریخی پل قرار دے رہے تھے ،یہ تاریخی لفظ وہ کیوں استعمال کررہے تھے اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ آزادہندوستان کی ستر سالہ تاریخ کا پہلا موقع ہے جب مسلمانوں کی شریعت کو قانون کے نام پر ٹارگٹ کیا گیاہے ،یہ کہاگیاہے کہ اب تمہاری شریعت اور پرسنل لاءکا فیصلہ بھی ہم کریں گے ،بابری مسجد کی شہاد ت بھی ہماری تاریخ کا افسوسناک سانحہ ہے لیکن وہ بظاہر شرپسندوں کے ذریعہ انجام دیاگیا تھا،براہ راست حکومت کی شرکت نہیں تھی لیکن اب جو کچھ ہواہے وہ قانون اور دستورسازی کے نام پر ہواہے اس لئے 28 دسمبر 6 دسمبر کے مقابلے میں زیادہ سیاہ دن ہے ۔
کانگریس کی وجہ سے ہم مسلمانوں کو شدید تکلیف پہونچی ہے لیکن جو کچھ ہواہے وہ اچھا ہواہے ،کانگریس کا اصلی چہرہ سامنے آگیاہے ۔کانگریس کی مخالفت کچھ اہم رول ادانہیں کرسکتی تھی ،جی ایس ٹی اور کئی سارے بلوں میں کانگریس نے شدید مخالفت کی لیکن بی جے پی اسے پاس کرواکر رہی ،مسلم ممبران پارلیمنٹ کی مخالفت سے ترمیم کیلئے ہورہی ووٹنگ میں ساتھ دینے سے وقتی طور پر کچھ فائدہ ہوسکتاتھا،ایک بہتر پیغام جاسکتاتھا لیکن اسے پاس ہونا تھا ،بی جے پی اس بل کو کسی بھی حال میں اسٹینڈینگ کمیٹی میں نہیں بھیجنے دیتی کیوں کہ یہ اس کے وقار کا مسئلہ تھا ،اس کی انا اس بل سے وابستہ تھی،اسٹینڈینگ کمیٹی یا سلیکٹ کمیٹی میں جانے کامطلب اس کی شکست تھی۔انڈین ایکسپریس کے صفحہ اول پر شائع ہونے والی اس تصویر کا پس منظر بھی ہمیں جاننا چاہیئے جس میں جمعرات کو بی جے پی کی پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ کے بعد نریندر مودی ،راج ناتھ سنگھ اور روی شنکر پرشاد خوشگوار موڈ میں مسکراتے ہوئے پوز دےرہے تھے ۔
جو ہوناتھا وہ ہوچکاہے ،راجیہ سبھا میں بی جے پی اقلیت میں ہے ،اپوزیشن ممبران کی تعداد زیادہ ہے ۔فی الحال راجیہ سبھا کے ممبران کی کل تعداد 238 ہے،اکثریت کیلئے 120 سیٹیں چاہیئے لیکن بی جے پی کے پاس اتحادیوں کی سیٹیں ملاکر کل 90 ہے اور وہاں اسے 30 کی سیٹوں کی پریشانیوں کا سامناکرناپڑسکتاہے لیکن غالب گمان یہی ہے کہ وہاں بھی یہ بل پاس ہوجائے گا ،لوک سبھا کی طرح راجیہ سبھا میں بھی ٹی ایم سی کے ارکان غائب رہ سکتے ہیں،کانگریس قابل اعتماد نہیں ہے ،حالانکہ این ڈی ٹی وی کا دعوی ہے کہ ہمارے ذرائع کے مطابق راجیہ سبھا میں یہ بل ترمیم کرکے پیش کیا جائے گا ،بورڈ کے ترجمان مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے بھی گزشتہ کل فون پر بات کرتے ہوئے کہاتھاکہ ہم اپوزیشن سے رابطہ بڑھارہے ہیں اور ہر ممکن یہ کوشش کریں گے کہ کم ازکم موجودہ شکل میں یہ بل راجیہ سبھا سے پاس نہ ہوسکے ۔
ان تمام باتوں کے ساتھ ہمیں مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ،ہماری لڑائی کسی ایک پارٹی یا حکومت سے نہیں بلکہ ایک نظریہ سے ہے ،فکری طور پر مسلمانوں کو شکست دینے کی مکمل پلاننگ ہے جس کا یہاں سے آغاز ہواہے ،کل ہوکر یہ ملک کا بنیادی آئین بھی تبدیل کریں گے ،جس طرح طلاق کے خلاف قانون بنانے کیلئے انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا سہارا لیاہے اور ایم جے اکبر جیسے مسلمانوں کا سہار الیکر اسلامی نقطہ نظر سے اسے صحیح قراردیاگیاہے اسی طرح کل ہوکر اسی سپریم کورٹ کا سہار الیتے ہئے یہ ملک کا بنیادی دستور بھی تبدیل کریں گے۔سپریم کورٹ میں اپنے ججوں کی تعداد زیادہ کردیں گے جہاں سے یہ فیصلہ ہوگا کہ ملک بنیادی آئین بھی تبدیل کیا جاسکتاہے ۔یکساں سول کوڈ اور مسلم پرسنل لاءکے خلاف نظام زنذگی مرتب کرنے سے خطرہ اور پریشانی صرف مسلمانوں کو ہے ،اسلام دنیا کا واحد مذہب جو قیامت تک کیلئے ہے،کسی بھی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی اسلام کے شرعی قوانین کے بجائے کسی دوسرے پر عمل کرنے کے بعد مسلمان ہونے کا مطلب باقی رہ پاتاہے،دیگر مذاہب کے ساتھ ایسا مسئلہ نہیں ہے ،ان کے مذہبی اعمال بدلتے رہتے ہیں،ان کی مذہبی کتابیں حسب ضرورت تبدیل کرلی جاتی ہیں ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ ہماری مشترکہ اور متحدہ آواز ہے ،اس کی ایک حیثیت ہے ،اس کا وہ روشن ماضی ہمیں یاد رہنا چاہئے جب اسی پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اس نے قانون بنانے پر حکومت کو مجبور کیاتھا آج یقینا اس کا الٹاہواہے لیکن عزم وحوصلہ کے ساتھ حالات کا سامناکرناہوگا ۔چوطرفہ محاذ پر کام کرناہوگا ،یہ بات بھی پیش نظر رکھنی ہوگی کہ ہم مغلیہ دور حکومت میں نہیں جی رہے ہیں ،ماضی کی روشن اور قابل فخر تاریخ کو بنیاد بناکر اپنے ہر فیصلے پر اٹل رہ کر کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں ۔
(مضمو ن نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com