جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

غلام مصطفی عدیل قاسمی 

دھیرے دھیرے ہمارا معاشرہ تجربہ کار و سینئر رہنما سے خالی ہوتا جا رہا ہے جو ہماری بدنصیبی کے ہی زمرے میں آتا ہے، 1 9 دسمبر بروز منگل کی صبح جب موبائل اسکرین پر نظر پڑی تو دیکھا کسی کی کال چھوٹی تھی اگلے چند لمحے میں یہ خبر دل پر بجلی کی طرح گری کہ ہماری پیاری بستی *دملہ* (بلاک: بسفی، ضلع : مدھوبنی) کی گود اس کے ہردلعزیز اور لاڈلے سپوت سے خالی ہو گئی، یعنی ہمارے گاؤں اور اس کے مضافات کی انتہائی معمر شخصیت، خزاں ہو کہ بہار ، موسم سرما ہو کہ گرما،  بہرحال مسجد سے  چمٹے رہنے والے بزرگ *جناب داؤد صاحب (معروف ب-داؤد خلیفہ)* آغوش رحمت میں پہنچ گئے،  اتنا سننا تھا کہ آنکھوں کے سامنے تاریکیاں چھا گئیں، دل شدت غم سے نڈھال ہوگیا اور دن بھر انکی میانہ رفتار، سلجھی گفتار، نرالے طرز کی اذکار و عمدہ کردار کی جھلکیاں گھومتی رہیں، آج انتقال کے کئی روز گزر چکے ہیں لیکن دوری اس اٹل حقیقت کو تسلیم کرنے سے کترا رہی ہے کہ مسافر اپنا سفر بڑھا چلا! آج جب ماضی کے دریچے میں جھانکتا ہوں تو اس حقیقت کو بے غبار پاتا ہوں کہ بستی کی جامع مسجد کو سب سے طویل عرصے تک آباد کرنے کا سہرا اسی مرد خدا کو جاتا ہے، ہوش سنبھالنے کے بعد میں نے دو ہی ایسی شخصیت کو پایا ہے جو جھلسا دینے والی گرمی کی شدت و تمازت اور اعضاء و جوارح کو شل کر دینے والی سردی و ژالہ باری سے کوئی کمپرومائز نہیں کیا، ایک تو خانوادہ ادریس کے روشن ستارہ جنید ماموں تھے جو تین چار سال قبل ہی اپنے مولی سے جا ملے اور دوسرے ممدوح مرحوم محترم داؤد صاحب، جن کی جدائی کا زخم ابھی مکمل سبز ہے، ہم نے بارہا دیکھا اور سنا کہ سخت ٹھند کے دنوں میں بھی نماز فجر میں یہی دونوں ہوتے جو ایک امام بن جاتے اور دوسرے مقتدی، مگر شومی قسمت کہ امام و مقتدی دونوں بارگاہِ خداوندی میں ہماری کرتوتوں کا آنکھوں دیکھا حال، نماز سے سستی و کاہلی، مسجد سے دوری، کی شکایت لے کر پہنچ گئے!!! نور اللہ مرقدھما،
اب تو دور دور تک ان دونوں کا کوئی متبادل و ثانی نہیں دکھائی دے رہا ہے، اللہ ہمیں ان کا نعم البدل عطا کرے، اور ہمیں سستی و کاہلی سے نجات دلا کر مسجدوں کو آباد کرنے والا بنائے، آمین،
میں نے اپنے رفیق درس و خالہ زاد بھائی (مولوی مزمل الرحمن قاسمی) جو کہ ممدوح مرحوم کے بڑے پسر ڈاکٹر فضل الرحمن حفظہ اللہ کے فرزند ہیں کی زبانی بارہا سنا اور اپنا ذاتی مشاہدہ ہے کہ رات کے جس پہر بھی دادا /نانا جان کی آنکھ کھل جاتی ہے تو پھر دوبارہ نہیں سوتے تھے اور اسی وقت حوائج ضروریہ سے فارغ ہو کر بغیر کوئی ٹارچ اور روشنی کے جامع مسجد کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں، ان کے راستے میں ناہی تاریکی حائل ہوتی ہے اور نا ہی سردی کی شدت اور برسات وغیرہ، خود میں نے بھی انہیں مسجد میں حضور اولی کی سعادت سے ہمکنار ہوتے ہوئے بارہا پایا ہے،
بلکہ لوگوں نے انہیں اس حال میں بھی دیکھا ہے کہ بارش ہورہی ہے اور وہ اپنی زندگی کی دس دہائیاں پوری کرنے کے باوجود بغیر چھتری کے محض رومال یا چادر وغیرہ بدن پر رکھ کر ہاتھ میں لاٹھی تھامے ہوئے مسجد کی جانب دوڑ رہے ہیں۔
سچ ہے کہ

ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں

یہاں یہ بات بھی لائق ذکر ہے کہ موصوف کی قیام گاہ سے ہمارے گاؤں کی جامع مسجد کی مسافت کم و بیش آدھ کلو میٹر ہے۔
اسکے علاوہ مرحوم کئی گوناگوں صفات حسنہ کے مالک تھے ، تواضع اور ملنساری و غمگساری خاص طور پر ان کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی، موصوف اپنے تمام بھائیوں میں تنہا سرکاری ملازم تھے، لیکن ساری زندگی خود غرضی اور خود بینی جیسی قبیح صفات سے دور رہے، چنانچہ دملہ کی سرزمین شاہد ہے کہ انہوں نے اپنی محنت و مشقت کی کمائی سے اپنے بھائیوں کی بھی اولاد کی پرورش کی، یہاں تک کہ اپنے پیسوں سے خریدی ہوئی زمینیں بھی اپنے بھائیوں کے نام رجسٹرڈ کرائی تھی، اپنوں کے علاوہ غیروں کے درمیان بھی انہوں نے تادم آخری اپنے اخلاق حسنہ مثلا تعزیت و عیادت اور بوقت ضرورت مالی و جانی تعاون کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا، جیسا کہ وفات کے بعد زبان خلق سے متعدد خوبیوں کے علاوہ اس امر کا بھی انکشاف ہوا کہ گاؤں کے دو بزرگ جو گذشتہ کئی مہینوں سے بستر علالت پر ہیں ان کے یہاں ہفتے میں دو تین دن برائے عیادت  ضرور حاضر ہوتے تھے، جب کہ  دونوں صاحب فراش مرحوم سے عمر میں نہایت چھوٹے ہونے کے ساتھ گاؤں کے دور کے رشتے سے بھتیجے ہوتے ہیں،  یہی وجہ ہے کہ مرحوم بلا تفریق مذہب و ملت پوری بستی اور علاقے کے لوگوں کے دلوں میں بستے تھے، انکی موت نے جہاں مسلمانوں کو محزون کر دیا وہیں بیسیوں غیر مسلم مرد و زن کو بھی آنسو بہانے پر مجبور کر دیا، بعض معمر غیر مسلموں کو ان کی نعش پر یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا کہ اب آپ کے بعد ہماری کون خبر گیری کرے گا۔

“وتعز من تشاء وتذل من تشاء”

ان کے فرزند ارجمند جناب ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب فرماتے ہیں کہ ابا جان کی زندگی حسب معمول رواں تھی لیکن اچانک اٹھارہ دسمبر کی شام پیٹ میں درد کا عارضہ ہوا اور بتدریج بڑھتا چلا گیا، اسی کے  ساتھ سردی میں بھی شدت بڑھتی گئی جس کی وجہ سے عشا اور فجر کی نماز بھی ادا نہیں کر سکے، صبح فجر بعد سردی کی شدت اس قدر بڑھی کہ چھ اوڑھنا بشمول کمبل و لحاف  کافی نہ ہوسکا اس لیے میں نے ابا کو اپنے آغوش میں لے لیا تاکہ بدن کی حرارت سے کچھ راحت حاصل ہو اور اسی حال میں جب پندرہ منٹ گزر گئے اور ابا کی کوئی حرکت محسوس نہیں ہوئی تو مجھے تشویش ہوئی، اس لیے جلدی جلدی ابا ابا کہکر پکارنے لگا مگر تاخیر ہوچکی تھی اور وہ کسی اور داعی کو لبیک کہ چکے تھے ۔
ڈاکٹر صاحب کے ہی بقول جو پوری رات اپنے والد صاحب کی خدمت میں مصروف تھے، کہ سردی اور پیٹ کے درد کی شدت کے باوجود آخری لمحے تک مرحوم کی زبان پر کلمہ طیبہ مع اردو ترجمہ جاری تھا جو کہ ان کا شب و روز کا بھی  وظیفہ تھا، مزید اس کے علاوہ وقفے وقفے سے مکمل سورہ عصر کی تلاوت اور پوری امت مسلمہ کے لیے دعائے خیر بھی فرما رہے تھے۔
کیا ہی قابل رشک موت ہے یقیناً یہ سعادت مقبول عند اللہ ہونے کی علامت ہے۔

ان الفضل بيدالله يؤتيه من يشاء

اس طرح مرحوم اپنی زندگی کی تقریباً ایک سو دس بہاریں دیکھ کر انیس دسمبر بروز منگل  علی الصباح اپنی عاقبت سدھار گئے۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون) پسماندگان میں دو بیٹے ایک بیٹی جبکہ دو بیٹیاں پہلے ہی وفات پا گئیں اور بیسیوں پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں ہیں۔
محترم قارئین!
یہاں پوری تحریر کا ماحصل یہ ہے کہ ہم اس سعید مرد خدا کے اخلاق حسنہ کو اپنی عملی  زندگی میں لانے کی کوشش کریں، بطور خاص پنج وقتہ جماعت کی پابندی اور آپسی بھائی چارگی کو اختیار کریں جو کہ اس ابن الوقتی کے دور میں عنقا ہوتی جارہی ہیں، اس کے علاوہ ان کے سعادت مند فرزند جناب ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب سے بھی سبق حاصل کریں کہ انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ جس طرح نومولود اپنی زندگی کی ابتدائی سانسیں اپنے والدین کی آغوش میں لیتا ہے اسی طرح والدین کا بھی یہ حق بنتا ہے کہ ان کی سانسوں کا سلسلہ ان کی اولاد کے آغوش میں ختم ہو ۔
آج اس حقیقت سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے کی تباہی و بربادی کی ایک وجہ ہمارا اپنے آباؤ اجداد کی طرز زندگی سے ہٹ جانا اور فرنگی چال میں ڈھل جانا بھی ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم اب بھی ہوش کے ناخن لیں اور اپنے پرکھوں کی قدر و منزلت کو پہچانیں ۔
اخیر میں میں اس اندوہناک گھڑی میں تمام اہل خانہ سے تعزیت پیش کرتا ہوں، جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ لوگ مجھ سے اظہارِ تعزیت کریں لیکن ظاہر ہے کہ اقرب پر جو بیتی ہوگی اس غم کا بوجھ زیادہ ہوگا، اللہ پاک سے دعا گو ہوں کہ باری تعالٰی مرحوم کے درجات بلند کرے ، ہم پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، اور اپنے آباؤ اجداد کے صفات محمودہ کو سماج میں زندہ کرنے اور زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اڑتے جاتے ہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی

Gulammustafa9059@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں