کچھ پیغام ہمارے لئے بھی

قاسم سید
سیاسی اقتدار میں تبدیلی کے ساتھ ہی نئی سیاسی عبارت لکھے جانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ تھما نہیں ہے جو لوگ اقتدار پر قابض ہیں ان کی تیاری کمال کی ہے شاید ہی کوئی ایسا شعبہ زندگی ہو جس پر ہوم ورک نہ کیا ہو۔ اس سے متعلق تربیت یافتہ افراد نہ ہوں اور طویل مدتی حکمت عملی نہ ہو اس کے پیچھے کم و بیش سو سال کی محنت ہے‘ قربانیاں ہیں انہوں نے گھروں کو تج کردیا۔ شادیاں نہیں کیں‘ نظریہ کی قبولیت اور نفاذ کے لئے موقع بموقع نئے تجربات کرتے رہے خواہ وہ جن سنگھ کی شکل میں جنتا پارٹی کے ساتھ انضمام کا معاملہ ہو یا وی پی سنگھ کے جنتادل کے ساتھ بی جے پی کی انتخابی مفاہمت ان کا ہر تجربہ طاقت میں اضافہ کرتا رہا۔ برسوں مکمل اقتدار کا انتظار کیا ہمت نہیں ہاری جن سنگھ کے دیپک سے لے کر کمل کا پھول تک سفر بتاتا ہے کہ اس نے سیاسی موقع پرستی کے ہر پہلو کا خیر مقدم کیا چنانچہ اس کی قوت پذیری ‘اثرات اور قبولیت کے لئے سیکولر کہلائی جانے والی فورسز کا رول نظرانداز نہیں کیاجاسکتا خواہ قومی سطح پر ہو یا علاقائی اس کا ہاتھ پکڑا۔ اور دراندازی کا بھرپور موقع فراہم کیا ایسا نہیں ہے کہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں اس نظریہ کی سفاکیت ‘ تنگ دلی اور نسل پرستانہ فکر سے ناواقف تھیں کیونکہ ہندوتو حامی طاقتوں نے اپنے زبان و بیان کے ذریعہ لٹریچر کے توسط سے ہیڈگوار سے لے کر شیاما پرساد مکھرجی تک منووادی فلسفہ حیات کو کھل کر بیان کیا۔ ان کے اقتدار میں آنے پر دلتوں کے ساتھ کیا ہوگا۔ مسلمانوں کو کس درجہ پر رکھا جائے گا۔ خواتین کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا بے لاگ لپیٹ لکھتے رہے اور کہتے بھی رہے۔ اگر آج مسلمانوں کو سیاسی طور پر بے حیثیت کردیا گیا ان کے ووٹوں کو بے اثر کرکے حاشیہ پر پہنچا دیا ہے یوپی ہو یا گجرات تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی پالیسی کے ذریعہ بغیر آئین میں ترمیم کے مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری اور ووٹ دینے کے حق سے محروم کرنے کے ارادوں کو کامیاب حکمت عملی سے نافذ کر رہے ہیں۔ کامن سول کوڈ کا نفاذ ناممکن ہے اور لاکمیشن نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں پرسنل لاز میں ایک ایک ترمیم کے ذریعہ بالواسطہ طور پر کامن سول کوڈ تک ملک کو پہنچادیں گے تین طلاق پر پابندی کا بل اس کا اظہار ہے اس کے بعد تعداد ازدواج اور حلالہ کو ٹارگیٹ کیا جائےگا یعنی سیاسی سماجی اور معاشی سطح پر اقلیتوں کو سب کا ساتھ سب کا وکاس کا اصلی مفہوم سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ہندوستان کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اب ہم آگئے ہیں دلتوں‘ کمزور طبقات اور اقلیتوں کے لئے ایجنڈا ہم طے کریں گے۔ کھانے کے مینو سے لے کر لباس کے انتخاب‘ تعلیمی پالیسی سے لے کر چھٹیوں کے انتخاب سب ان کے فریم ورک کے مطابق کیاجائے ۔ حتی کہ آپ کو تہوار کیسے منانے ہیں کون سے منانے ہیں کیاگانا ہے کیا پڑھنا ہے کیسےپڑھناہے اور اگر احکام وفرامین کو نظر انداز کرتے ہیں تو آپ کو پاکستان بھیجنے کا اہتمام کیاجائے گا۔ حدتو یہ ہے کہ الیکشن میں ہمارے علاوہ کسی اور کو ووٹ دیتے ہیں تو آپ کی حب الوطنی مشتبہ ہے‘ آپ دیش دروہی اور راشٹردروہی ہیں۔ یہ معاملہ صرف اقلیتوں کے ساتھ ہی نہیں دلتوں کو بھی سر اٹھا کر جینے کا حق نہیں۔ اونا کا واقعہ آج بھی یاد ہے اور سر اٹھانے کی گستاخی پونے میں ہوئی توپورے علاقہ کو دہلاکر رکھ دیاگیا۔ وہاں جمع ہونے والوں کو دوڑا دوڑا کر لاٹھیوں‘ ڈنڈوں سے مارا گیا‘ سینکڑوں گاڑیاں نذر آتش کردیں‘ کیونکہ ان کے نزدیک دلتوں کی یہ اوقات نہیں کہ وہ شوریہ دوس مناسکیں‘ پاؤں  کی جوتی سر پر نہیں رکھی جاسکتی۔ آخر دلتوں میں یہ ہمت کہاں سے آرہی ہے کہ وہ ہندوتو کی رسی توڑ کر اپنی قسمت خود لکھنا چاہتے ہیں۔ یہ واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے پیشوا سامراج میں نسلی تفریق شباب پر تھی دلتوں کی حیثیت جانوروں سے بدتر تھی۔ دلتوں کو تھوکنے کےلئے گلے میں ہانڈی لٹکانی پڑتی تھی‘ پیچھے جھاڑو باندھتے تھے تاکہ ان کے ناپاک قدم جہاں پڑیں صفائی ہوجائے۔ تالاب تک سے پانی نہیں لے سکتے تھے۔ برہمن سماج کے ستائے ہوئے لوگوں نے تنگ آکر سوابھیمان کے لئے انگریزوں کی فوج میں جانے کا فیصلہ کیا ۔ 1818 میں جنگ کے دوران صرف 800 مہاردلتوں نے 28 ہزار پیشوا فوج کو دھول چٹادی۔ اس کے بعد سے وہ یکم جنوری کو شوریہ دوس کے طور پر مناتے ہیں۔ اس کو انگریزوں کی فتح کی نظر سے نہیں بلکہ برہمنوں کی نسلی تفریق کی مار کے بطور پر یاد کرتے ہیں مگر مودی سرکار کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہندوتو وادی طاقتوں نے اسے مراٹھوں کی شکست کی شکل میں دیکھنے کی افواہ پھیلانی شروع کردی تاکہ مراٹھا اور دلت جو سردرد بن رہے ہیں آپس میں ٹکراکر کمزور ہوجائیں اور منوواد کو تقویت ملے۔ پونے تشدد اس کا نتیجہ ہے مگر دلتوں نے مہاراشٹر بند کرکے اپنی طاقت دکھا دی۔ ظاہر ہے کہ یہ ہندوتو اور اس کے گڑھی ہوئی قوم پرستی کے لئے نیک فال نہیں جس ہندوتو کے فیو کول سے ذات پات کے نظام پر مبنی ہندو دھرم کے تابعداروں کو جوڑ کو رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے اس کے تارپود بکھر جائیں گے وی پی سنگھ کے منڈل کارڈ کھیلنے کا نتیجہ تھا کہ ہندوتو کئی دہائی پیچھے چلا گیا تھا ۔ سنگھ کی محنت پر پانی پھر گیا دلتوں کے خلاف مظالم کی نوعیت سیاسی نہیں بلکہ ذات پات کے نظام کی سفاکیت کی بنا پر ہے وہاں پیدائش کی بنیاد پر اشرف اور ارذل طے ہوتا ہے جبکہ مسلمانوں پر مظالم کا سبب ان کا تہذیبی شناخت پر اصرار ہے‘ کیونکہ تہذیبی شناخت پر اصرار ہندتو کے فریم میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ ٹکراؤ، تصادم اور تکرار کی یہی اصل وجہ ہے تہذیبی شناخت کو ختم کرنے کا جو کھیل کانگریس نے رچا تھا بی جے پی اسے آگے بڑھا رہی ہے۔ مسلمان نے سیاسی تعلیمی اور معاشی زبوں حالی قبول کرلی مگر اس محاذ پر اب تک ڈٹا ہوا ہے پہلے یکطرفہ فسادات ‘پولیس ایکشن اس کے بعد دہشت گردی کے بہانے حوصلے توڑنے کی کوششیں ناکام رہیں تو اب سیریل کلنگ کے ذریعہ خوف زدہ دہشت زدہ کرنے کی مکروہ چالیں چلی جارہی ہیں اور بدقسمتی سے ان کاہلکا پھلکا اثر اتنا ضرور ہے کہ اکیلے ٹرین یا بس میں سفر کرتے وقت ذہن میں وسوسے سر اٹھاتے رہتے ہیں۔
2017 میں انڈیا اسپینڈ کی رپورٹ کے مطابق نفرت پر مبنی جرائم کے کل 37 معاملے درج ہوئے جس میں گیارہ کو اپنی جان سے ہاتھ دھوناپڑا متاثرین میں 61 فیصد مسلمان 12 فیصد ہندو اور ایک فیصد عیسائی تھے ان میں تین واقعات کی گونج بین الاقوامی سطح پر بھی سنائی دی یکم اپریل 2017 کو 55 سالہ پہلو خان کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا جو گرفتار ہوئے ان کو بعد میں چھوڑ دیا گیا یعنی یہ پیغام تھا کہ آپ قتل کرکے بھی بچ سکتے ہیں۔ اسی طرح جون میں جنید نامی نابالغ 16سالہ لڑکے کو ٹرین میں چاقو سے گود کر پلیٹ فارم پر پھینک دیا۔ زیادہ خون بہنے سے بھائی کی گود میں دم توڑ دیا۔ معاملہ گائے کا نہیں بیف اور سیٹ پر بحث کا تھا۔ گویا بحث کرنے پر بھی مسلمان کو جان سے مارا جاسکتا ہے۔ سرکاری ملازم سمیت چار افراد گرفتار ہوئے سزا کسی کو اب تک نہیں۔ جاتے جاتے دسمبر میں افرازالحق کا معاملہ سامنے آیا جو ملک کی آزادی کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جہاں قاتل کلہاڑے سے وار کرکے 45 سالہ افراز کا قتل کرتا ہے۔ نابالغ لڑکے سے ویڈیو بنواتا ہے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا ہے اور شمبھولال نامی قاتل لو جہاد کرنے والے مسلمانوں کو اس کے بدتر انجام کی دھمکی والی تقریر کرتا ہے۔ ایک بی جے پی ممبر پارلیمنٹ سمیت ہزاروں لوگ اسے سراہتے ہیں۔ لاکھوں روپے جمع کرلیتے ہیں۔ حمایت میں مظاہرہ کے دوران الور کی عدالت پر بھگوا جھنڈا لہراتے ہیں اور چناؤ میں اتارنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ یہ خطرناک رجحان ہے۔
مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف تشدد منوواد یا برہمن واد کے پائے چو بین منو سمرتی پر رکھے ہیں کیونکہ ہندوتو کوئی دھرم نہیں ہے۔ زندگی جینے کا طریقہ ہے جس میں غیر ہندوئوں اور دلتوں کے لئے عزت کا کوئی مقام نہیں ہے امبیڈکر نے دلتوں کو ریزرویشن دلاکر مستقبل میں باعزت زندگی کا ایک نظام بنادیا۔ مسلم لیڈر اس وقت ریزرویشن کے حق کو چھوڑ بیٹھے جوموجودہ حالات میں مشکل ہی نہیں ناممکن لگتا ہے۔ سیاسی طور پر مسلمانوں کی بے توقیری اور سسٹم سے باہر کرنے کی حکمت عملی کے ساتھ دلتوں کو قابو میں رکھنے کی چال ایک سکہ کے دو رخ ہیں۔ ذات پات کا ذلت آمیز نظام ہندوتو کا سب سے کمزور پہلو ہے اس پر جتنا زور دیا جائے گا ہندوتو کی پرتیں کھلیں گی اور وہ کمزور ہوگاد لتوںپر بے پناہ مظالم ہوئے انہیں آج بھی دل سے انسان کا درجہ نہیں دیاگیا مندروں میں داخلے پر پابندی‘چھوت چھات آج بھی دیہی علاقوں میں پوری قوت سے موجود ہے۔ اس کو بتانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ سماجی انصاف کے معاملہ پر دلتوں سے تال میل کرنے پر غور کرناچاہئے۔ دلتوں کو عزت ووقار اور مسلمانوں کو تہذیبی شناخت اور سماجی انصاف کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ہیڈگوار سے شیاما پرشاد مکھرجی تک ہندو نظام کے حامی لیڈروں کے لٹریچر کا مطالعہ کرکے دلتوں‘ مسلمانوں اور عورتوں کے حقوق اور حیثیت پر ان کے فکرونظر سے دوسروں کو آگاہ کیا جائے کہ یہ کیسا نظام ملک پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ہم صرف یہ چاہیں کہ دوسرے ہمارے ساتھ آکر کھڑے ہوں۔ ہمارے اوپر مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں تو یہ نہیں چلے گا جبکہ خیر امت کی حیثیت سے ہم پر فرض ہے کہ مظلوموں کا ساتھ دیں۔ ان کے حق میں آواز اٹھائیں اور موقع کا اپنےحق میں استعمال کریں ۔۔
qasimsyed2008@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں