۔دوسری شکل یہ ہے کہ بی جے پی دونوں ایوان کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے یہ بل پاس کرنے کی کوشش کرے گی ،اگر لوک سبھا اور راجیہ سبھا کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جاتاہے تو اس صورت میں بی جے پی کے ممبران کی تعداد زیادہ ہوگی اور یہ بل پاس ہوجائے گا ، ماضی میں واجپئی کے وزیر اعظم رہتے ہوئے این ڈی اے حکومت ایسا کرچکی ہے۔تیسری شکل یہ ہے کہ بی جے پی آرڈنینس لاکر اسے قانونی شکل دے گی ،آر ڈینینس کی مدت چھ ماہ کی ہوتی ہے اور اس کی حیثیت مستقل قانون کی نہیں ہوتی ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ حکومت صدر جمہوریہ سے آرڈنینس جاری کراکر اسے نافذ کردے ،چھ ماہ بعد پھر وہ جاری کردے۔ اس طرح اگلے تین سالوں تک وہ اس پر عمل کرنے کا منصوبہ بنالے ۔ جیسے ہی راجیہ سبھا میں اس کی اکثریت ہو گی وہ بل کو پاس کراکر مستقل قانون کی شکل دے دیگی
خبر درخبر(536)
شمس تبریز قاسمی
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کاروائی آج مکمل ہوگئی ہے ،بی جے پی نے سرمائی سیشن میںتحفظ شادی مسلم خواتین بل 2017(طلاق ثلاثہ بل) کو لوک سبھا کے راجیہ سبھا سے بھی پاس کرانے کیلئے پوری طاقت جھونک دی تھی لیکن اس مشن میں وہ کامیاب نہیں ہوسکی ،28 دسمبر کو لوک سبھا میں چار گھنٹہ کی بحث کے بعد انتہائی آسانی کے ساتھ یہ بل پاس ہوگیاتھا ،کانگریس سمیت اکثر اپوزیشن پارٹیوں نے بھی حمایت کردی تھی لیکن 3 جنوری کو راجیہ سبھا میں یہ بل پیش کئے جانے کے بعد منظرنامہ بالکل بدل گیا ،18 اپوزیشن پارٹیوں نے یکطرفہ طور پر کہاکہ موجودہ بل ناقابل قبول ہے ،اسے سلیکٹ کمیٹی میں بھیجاجائے ،بی جے پی کی اتحاد ی شیوسینا اور بیجو جنتادل نے بھی بی جے پی کا ساتھ نہیں دیا ،3 سے 5 جنوری تک بی جے پی نے ہر ممکن راجیہ سبھا سے یہ بل پاس کرانے کی کوشش کی لیکن اسے کامیابی نہیں مل سکی ،اپوزیشن اپنے مطالبہ پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہی اور اس طرح اس بل پر بحث کی بھی اجازت نہیں مل سکی ۔کانگریس سمیت سبھی اپوزیشن پارٹیاں مجوزہ بل میں کچھ ترمیم چاہتی ہے جس کیلئے اسے سلیکٹ کمیٹی میں بھیجا جانا ضروری سمجھاگیا۔سلیکٹ کمیٹی میں تمام پارٹیوں کے نمائندے ہوتے ہیں،ماہرین ہوتے ہیں ،صاحب معاملہ سے رائے لی جاتی ہے اور پھر ایک جامع قانون بنایاجاتاہے ،اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد مسلسل یہ کہ رہے ہیں کہ ہم تین طلاق کے خلاف بل کے حق میں ہیں،سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق بل ضروری سمجھتے ہیں لیکن موجودہ بل مسلم خواتین کے خلاف ہے اس لئے اسے 25 دنوں کیلئے سلیکٹ کمیٹی میں بھیجاجائے جہاں ایک جامع بل تیار ہوگا ۔لوک سبھا میں بھی ہم اسے اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھیجنا چاہ رہے تھے لیکن اقلیت میں ہونے کی وجہ سے ہماری پارٹی ایسا نہیں کرسکی ۔دوسری طرف حکومت اس مسودہ میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں چاہتی ہے ،کانگریس نے یہ تجویز بھی رکھی تھی کہ کم ازکم شوہر کے جیل جانے کی مدت میں حکومت بیوی کے اخراجات کی ذمہ داری کا انتظام کردے لیکن اس ترمیم کو بھی سرکار نے قبول نہیں کیا ۔ راجیہ سبھا کے چیر مین وینکیا نائیڈو نے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو ہم رائے کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی اور اس طرح اجلاس مکمل ہوجانے کے باوجود اسے سلیکٹ کمیٹی میں بھیجنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا ۔
حکومت کا رویہ بتارہاہے کہ وہ بل کے مسودہ میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں کرے گی اور اس کیلئے اب وہ کچھ دوسرا راستہ اپنائے گی ۔متبادل راستوں کے سلسلے میں ایک قیاس آرائی یہ کی جارہی ہے کہ 30 جنوری سے بجٹ اجلاس شروع ہورہاہے جس میں راجیہ سبھا میں اس بل بر بحث کرائی جائے گی لیکن اس وقت بھی وہاں بی جے پی اقلیت میں ہی ہوگی اس لئے پاس کرانا ممکن نہیں ہوگا لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ اپوزیشن کی یہ مخالفت برقرار رہنی چاہیئے ۔دوسری شکل یہ ہے کہ بی جے پی دونوں ایوان کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے یہ بل پاس کرنے کی کوشش کرے گی ،اگر لوک سبھا اور راجیہ سبھا کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جاتاہے تو اس صورت میں بی جے پی کے ممبران کی تعداد زیادہ ہوگی اور یہ بل پاس ہوجائے گا ، ماضی میں واجپئی کے وزیر اعظم رہتے ہوئے این ڈی اے حکومت ایسا کرچکی ہے۔تیسری شکل یہ ہے کہ بی جے پی آرڈنینس لاکر اسے قانونی شکل دے گی ،آر ڈینینس کی مدت چھ ماہ کی ہوتی ہے اور اس کی حیثیت مستقل قانون کی نہیں ہوتی ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ حکومت صدر جمہوریہ سے آرڈنینس جاری کراکر اسے نافذ کردے ،چھ ماہ بعد پھر وہ جاری کردے۔ اس طرح اگلے تین سالوں تک وہ اس پر عمل کرنے کا منصوبہ بنالے ۔ جیسے ہی راجیہ سبھا میں اس کی اکثریت ہو گی وہ بل کو پاس کراکر مستقل قانون کی شکل دے دیگی ۔یہ بات یقینی ہے کہ اگلے دوسالوں میں راجیہ سبھا میں بھی بی جے پی کی اکثریت ہوجائے گی ،ابھی اس کے ممبران کی تعداد کانگریس کے برابر ہے لیکن اگلے سیشن سے وہ راجیہ سبھی میں بھی سب سے بڑی پارٹی ہوگی کیوں کہ کانگریس کے تین ارکان کی مدت 27 جنوری 2018کو پوری ہورہی ہے جنہیں آج الوداعیہ دیاگیاہے ۔ ان کی جگہ عام آدمی پارٹی سے تین نمائندے آرہے ہیں ۔فی لحال ملک کی 18 ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے اسلئے راجیہ سبھا میں اس کے ممبران کی تعداد اب مسلسل بڑھتی جائے گی ۔
راجیہ سبھا میں کانگریس سمیت تمام اپوزیشن پارٹیوں کا کردار قابل ستائش رہاہے، بھلے ہی حکومت نے اسے سلیکٹ کمیٹی میں بھیجنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے لیکن اس کا غرور خاک میں ضرور مل گیا ہے اور سرمائی سیشن میں پاس کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکاہے ، حکومت کی اس ضد سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ منشاءخواتین کی فلاح وبہبود نہیں بلکہ مسلم مردوں کو جیل کی سلاخوں میں ڈالنا ،ان کے کیریئر کو تباہ کرنا اور مسلم خواتین کو کٹورا لیکر بھیک مانگنے پر مجبور کرناہے ۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی قیادت نے ہر ممکن موجودہ بل کو پاس ہونے سے رکوانے کی کوشش کی، بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی بھی اندرونی سطح پر بہت متحرک نظر آئے ، ان کی ہدایت پر کانگریس سمیت اکثر اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہ سے مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی ،مولانا فضل الرحیم شاہ مجددی ، ڈاکٹر اسماءزہر ااور دیگر ذمہ داروں کی ملاقات نے اپوزیشن کا مائنڈ تبدیل کیا۔ ان کی سیاسی بصیرت نے بھی خامیوں کا اندازہ لگایا جس کے بعد انہوں نے راجیہ سبھا میں اس کی پرزور مخالفت کی۔پاپو لر فرنٹ آف انڈیا ،اس کی خواتین ونگ ، مجلس اتحاد المسلمین اور اس کی خواتین ونگ، جماعت اسلامی ،جمعیت علماءہند ،ملی کونسل ،مجلس مشاورت سمیت متعدد جماعتوں اور تنظیموں نے بھی راجیہ سبھا سے پاس نہ ہونے دینے کیلئے مکمل کوششیں کی ،مختلف جگہ احتجاج و مظاہرہ کا اہتما کیا گیا ، یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور بڑے پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے ،خواتین کااجتماع بلا کرانہیں بل کی خامیوں سے آگاہ کرنا اور اس کے نقصانات کو بتانا لازم ہے کیوں کہ مسلم خواتین کی ایک بڑی تعداد میڈیا کے پیر وپیگنڈہ کی شکار ہے اور انہیں یہ لگ رہاہے کہ طلاق ثلاثہ بل مسلم خواتین کے مفاد میں ہے۔
یہ یاد رہے کہ حکومت نے ابھی گھٹنے نہیں ٹیکے ہیںوہ بغیر کسی ترمیم کے موجودہ شکل میں بل پا س کرنے کے ہر متبادل پر غوررکررہی ہے ۔ اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ اور ملی قیادت کو پہلے زیادہ سے متحرک ہونا ہوگا اورترمیم کے بغیر پاس ہونے سے روکنے کیلئے اب دوسرے متبادل پر غور کرناہوگا ۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)