خبر درخبر۔537)
شمس تبریز قاسمی
ہندوستانی میڈیا میں گزشتہ کئی دنوں سے دارالعلوم دیوبند کا دو فتوی زیر بحث ہے اور اس تعلق سے دارالعلوم کو بدنام کرنے کی مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں،مسلمانوں کے لبر ل طبقہ کی زبانی دارالعلوم دیوبند ۔ ارب افتائ،مدارس اور علماءپر لعن طعن کیا جارہاہے ،انہیں دقیانوسی خیالات کا حامل بتایا جارہاہے ۔ کچھ چینل والے تو طلاق کی طرح فتوی پر بھی پابندی عائد کرنے کی وکالت کررہے ہیں۔بینک کے تعلق سے دیاگیا فتوی سب سے زیادہ زیر بحث ہے جبکہ لباس سے متعلق دیئے گئے فتوی پر بھی میڈیا نے جم کر ہنگامہ کیا اس سلسلے میں راقم الحروف نے میڈیا کے پیروپیگنڈہ کی حقیقت جاننے کی کوشش کی تو ماضی کی طرح ایک مرتبہ بھر یہ بات غلط ثابت ہوئی ۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ فتوی کچھ اور تھا میڈیا نے کچھ اور دکھلایا افسوسناک بات یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے جس فتوی کو موضوع بناکر اس پر بحث کی گئی ،ڈبیٹ کیا گیا اس فتوی کی اصل کاپی کسی نے نہیں دکھائی ۔کئی اردو صحافی ،علماءاور اسکالرس بھی حقائق جانے بغیر دارالعلوم دیوبند کے خلاف زہر افشانی کرنے لگے ۔
دارالعلوم دیوبندنے بینک کی ملازمت اور اس کی آمدنی کے بارے میں دو فتوی صادر کیا ہے اور دونوں اس سے الگ ہے جو میڈیا میں دکھایاگیاہے ۔ایک فتوی دارالعلوم دیوبند نے 2017 میں جاری کیا ہے جس میں کسی نے سوال کیا ہے ”بینک ملازم کی بیٹی سے نکاح جائز ہے یا نہیں !دلیل سے جوا ب دیں ۔اس کے جواب میں مفتیان کرام نے لکھاہے بینک ملازم کی بیٹی سے نکاح جائز ہے“یہ دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر موجودہے اور یہاں اسکرین شارٹ بھی شامل کیا جارہاہے جسے آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک دوسرا استفتاءہے جسے میں پوچھاگیاہے”کچھ ایسے گھروں سے میرے پاس نکاح کیلئے پیغام آیاہے جن کے والد نے بینک میں ملازمت کرکے پیسہ کمائے ہیںتو ظاہر ہے کہ فیملی کی گزر بسر حرام پیسے پر ہوئی ہے تو کیا ایسے گھروں میں شادی کرنا قابل ترجیح ہے ۔اس استفتاءکا جواب دیاگیا ہے ایسے گھروں میں شادی کرنا قابل احتراز ہے ،قابل ترجیح نہیں !جن لوگوں کی پرورش حرام مال سے ہوتی ہے عموما وہ طبیعت اور اخلاص کے اچھے نہیں ہوتے ،اس لئے احتیاط کرنا چاہیئے اور کسی دیندار گھرانہ میں رشتہ کرنا چاہیئے ۔فتوی کی اصل کاپی یہاں شائع کی جارہی ہے جسے قارئین براہ راست ملاحظہ فرماسکتے ہیں ۔
بینک ملازم کی بیٹی سے نکاح کے بارے میں اوپر دو استفتاءکا تذکرہ کیاگیاہے اور دونوں کا جواب بھی مذکور ہے ،دونوں میں کہیں بھی مفتیان کرام نے یہ نہیں لکھاہے کہ بینک ملازم کی بیٹی سے نکاح حرام اور ناجائز ہے جبکہ میڈیا نے ہنگامہ مچایا کہ دارالعلوم دیوبندنے بینک ملازم کی بیٹی سے نکاح کو حرام قراردیا ہے ۔دوسرے استفاءمیں سائل خود کہ رہاہے کہ بینک ملازم کی گزربسر حرام مال پر ہوتی ہے لیکن جواب میں اس پہلے سے کوئی چھیڑ چھا ڑ کرنے کے بجائے سیدھا سے جواب دیاگیا ہے کہ بینک ملازمین کی بیٹی سے شادی کرنا قابل احتراز ہے ۔احتراز کا مطلب ناجائز اور حرام نہیں ہوتاہے بلکہ اسے آسان زبان میں بچنا کہاجاتاہے ۔
دارالعلوم دیوبند کا یہ فتوی سو فیصد درست اور حق بجانب ہے ،دنیا بھر میں رائج بیکنگ نظام اسلام کے اقتصادی نظام کے خلاف ہے ایسے میں دارالعلوم نے احتراز کا فتوی دیکر ذرہ برابر بھی کوئی غلط نہیں کیا ہے ،دارالعلوم دیوبند نے جسے حق سمجھاہے وہی لکھاہے اب اگرکسی کیلئے اس فتوی پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے تو اس کی مرضی ہے جیسے چاہے رہے اور جس طریقے پر عمل کرے لیکن جب شریعت کا طریقہ پوچھاجائے گا ،اسلامی نقطہ نظر سے بات کی جائے گی تو کسی غلط کام کو اسلام کا نظام قرار نہیں دیا جائے گابلکہ اسلامی نظریہ پر عمل کرنے کیلئے خودساختہ طریقہ کوچھوڑنا ہوگا ۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ،یہاں کا بیکنگ نظام سود پر مبنی ہے ،شہریوں کیلئے اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے اس لئے اکاﺅنٹ کھولنے اور اس نظام سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم سود اور اس طرح کی چیزوں سے احتراز ہونا چاہیئے ۔
آئیے ذرا ب بات کرلیتے ہیں لباس کے متعلق دارالعلوم دیوبند کے دیئے گئے فتوی کی ،ایک شخص نے سوال کیا ہے کہ خواتین کے چست لباس پہننے کے بارے میں علماءکیا فرماتے ہیں جس میں خواتین کے جسم کے اعضاءنظر آتے ہیں ۔مفتیان کرام نے حدیث شریف کے حوالے سے مکمل تفصیل کے ساتھ جواب لکھاہے کہ ایسا لباس پہننے سے شریعت میں منع کیا گیاہے جو چست ہوں ، جس سے جسم کے اعضاءظاہر ہوتے ہوں ۔فتوی میں مکمل وضاحت کی گئی ہے جب عورت گھر باہر قدم رکھے تو مکمل پردہ کا اہتما م کرے ،ڈھیلا ڈھالا لباس پہنے وغیرہ ۔
یہ فتوی بھی سو فیصد درست اور عین اسلام کی تعلیم کا حصہ ہے ۔دارالعلوم دیوبند نے ڈھیلا ڈھالا لباس نہ پہننے والوں کیلئے کفر کا فتوی عائد نہیں کیا ہے ،نہ ہی چست لباس پہنے والے کو سزا دینے کی بات کی ہے بلکہ یہاں اسلام کی تعلیم بتائی گئی ہے اوریہ دارالعلوم دیوبند کی ذمہ داری ہے ،اسی وجہ سے دارالعلوم کو دنیا بھر میں نمایاں مقام حاصل ہے ،یہی اس کی شناخت ہے کہ وہ دنیا کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرے،اسلام نے سماجی ،معاشرتی ،اقتصادی سمیت تمام شعبہائے حیات میں عالم انسانیت کی رہنمائی کی ہے اور قیامت تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے ۔اگر کسی کو مغربی کلچر اچھا لگتاہے ،کوئی ننگا رہنا چاہتی ہے ،کوئی اسکارٹ زیب تن کرنے میں آرام محسوس کرتی ہے تو وہ کرے لیکن اس کے عمل کو اسلامی طریقہ نہیں کہا جائے گا ،یہ کہ کر اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی کہ دنیا ترقی کر گئی ہے اس لئے خواتین کا ایسا لباس پہننا اب شریعت کی نظر میں قبیح نہیں ہے ۔شریعت اور اسلامی تعلیمات سے کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں ہے ،لیکن المیہ یہ ہے کہ آج مسلمان خود بدلنے کے بجائے شریعت کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں ،ایسی بھی لاکھوں خواتین ہیں جن کا لباس شریعت کے خلاف ہوتاہے لیکن وہ دارالعلوم دیوبند کے اس فتوی کا بصداحترام کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میرا لباس میرا ذاتی عمل ہے ، فتوی بالکل درست ہے اس پر ہم کوئی نکیر نہیں کرسکتے۔ایسی ہی ایک خاتون محترمہ شبنم صدیقی صاحبہ ہیں جو شاعرہ اور سوشل ایکٹویسٹ ہونے کے ساتھ ایک مارڈن خاتون ہیں۔ اس موضوع پر میڈیا سے بات چیت کرنے سے قبل انہوں نے مجھے فون کرکے فتوی کی تفصیل جاننے کی کوشش کی اور پھر بتایاکہ درالعلوم کی بات سو فیصد درست ہے ،اسلام کے مطابق اگر ہم لباس نہیں پہنتے ہیں تو یہ ہمارا قصور ہے، میڈیا والے جان بوجھ کر ہماری شریعت کو نشانہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
برسبیل تذکرہ یہ بتادیں کہ خواتین کے لباس کے تعلق سے سنگھ کا نظریہ بھی اسلام سے ملتاجلتاہے ،متعدد مرتبہ آر ایس ایس کے لیڈران یہ بیان دے چکے ہیں کہ لڑکیوں کو جنس نہیں پہننا چاہیئے ،مغربی لباس سے بچنا چاہیئے ،حال ہی میں ایک بی جے پی لیڈر نے یہاں تک کہ دیاتھاکہ جنس پینٹ پہننے کی وجہ سے لڑکیوں کا ریپ ہوتاہے ،ایک منسٹر تو یہ بھی کہ بیٹھے کہ رات کو لڑکیاںجب گھر تنہا سے نکلیں گی تو ریپ ہی ہوگا ۔ہریانہ اور یوپی کی کئی کھاب پنچایتوں نے لڑکیوں کے جنس پہننے اور موبائل استعمال کرنے پر پابندی لگارکھی ہے ۔عالمی ریسرچ بھی یہی بتاتاہے کہ برقع استعمال کرنے والی خواتین خود کو سب سے زیادہ محفوظ سمجھتی ہیں ، اسی لباس میں خواتین کی عصمت و آبرو یقینی طور پر محفوظ ہوتی ہے ،امریکہ ،برطانیہ سمیت متعدد یورپ ممالک میں خواتین کے قبول اسلام کی وجوہات میں یہ اسلامی لباس بھی شامل ہے جسے پہننے کے بعد انہیں ذہنی طور پر سکون نصیب ہوتاہے اور ایسالگتاہے کہ کوئی غلیط نظروں سے انہیں اب نہیں دیکھ رہاہے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com