قاسم سید
کیا ہندوستانی سیاست میں ہندوتو کا ابھار اچانک ہوگیا یہ صرف ساڑھے تین سال کی مودی سرکار کا کرشمہ ہے کہ اس نے 60 سال سے ملک کی رگ وپے میں دوڑ رہے سیکولرازم کے خون کو منجمد کرکے اسے ڈائیلاسس پر ڈالدیا اور ہندوتو کی بنیادوں پر نیا سماج کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگئی کہ اس کے جارحانہ تیوروں سے کانگریس جیسی سوسالہ قدیم پارٹی بھی خوف زدہ ہے اور ہندوتو کی چادر اوڑھنے پر مجبور ہے‘ اس کے صدر کو ثابت کرنا پڑرہا ہے کہ وہ اعلی قسم کا جینو دھاری برہمن ہے۔ پورے ملک میں ہر طرف ایک ہیجان برپا ہے‘ صرف ہندو ہندوستان کا شور سنائی دے رہا ہے جو ہندوہت کی بات کرے گا وہی دیش پر راج کرے گا کا نعرہ حقیقت بن کر سامنے آگیا ہے۔ تو کیا ہم یہ مان لیں کہ سیکولرازم‘ آئین‘ سول سوسائٹی کا ڈھانچہ کمزور ہو رہا ہےاور ہندوتو کی دیمک دھیرے دھیرے انہیں چاٹ کر بھربھری مٹی میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوا چاہتی ہے اور 2014 کا ہندوستان نہرو گاندھی کا نہ ہوکر ہیڈگوار اور گولوالکر کا ہندستان ہوجائے گا کیونکہ جس شاطرانہ حکمت عملی کے ساتھ چوطرفہ یلغار کی گئی ہے اس سے عقل دنگ ہے کہ ان کی تیاری کتنی زبردست اور منظم ہے کہ صرف ساڑھے تین سال میں ان کے بتائے اور طے کردہ راستے پر چھوٹی بڑی سیاسی پارٹی چلنے پر مجبور ہے۔ یقیناً ملک کی سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا خواہ جے پرکاش نرائن جیسے قد آور لیڈر ہوں یاوی پی سنگھ جیسا منڈل نواز رہنما دونوں نے بی جے پی کو سہارا اور سیکولرازم کو کندھا دیا اور بی جے پی کو شریک سفر بناکر اس کے سیاسی عزائم کی کھیتی کو اقتدار کا کھاد فراہم کیا وہیں کانگریس نے بڑی محنت کے ساتھ ملک کو ہندوتو کی طرف دھکیلا کہ باغباں بھی خوش رہے اور صیاد بھی ناراض نہ ہو۔ سچر کمیٹی رپورٹ نے اسے اطمینان کی سانس دلادی کہ مسلمانوں کو جہاں تک پہنچانا تھا دلتوں سے بدتر حالات میں لانا تھا اس میں کامیاب رہی۔ دوسری طرف اس کے وزیراعظم نرسمہا رائو نے بابری مسجد شہادت کا قانونی انتظام کرکے ہندوتو کے راستے کی اڑچنیں دور کردیں۔ اس سے قبل فسادات اور پھر دہشت گردی کے بہانے کمر توڑ کر رکھ دی۔ ہماری مسلم جماعتیں چار و ناچار کانگریس کا گھنٹہ بجانے اور اس کے پیر دبانے پر مجبور ہیں۔ کانگریس نےمسلمانوں میں مراعات یافتہ طبقہ پیدا کیا تاکہ اس کی محدود ضرورتیں پوری کرکے پوری قوم کو گود لیا جائے اور یہ اس کے لئے مہنگا سودا نہیں تھا۔ یہ بالائی طبقہ اقتدار کی بالائی سے لطف اندوز ہوتا گیا مسلم جماعتوں کا خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی بینک بیلنس بڑھتا گیا ان کے تعیشات اور مال و دولت کے حجم میں لگاتار اضافہ ہوتا گیا۔ الحمد للہ آج بھی لطف وکرم و عنایات کی برسات تھمی نہیں ہے بھلے ہی مودی سرکار میں تھوڑا سا تعطل آگیا ہو مگر ان کے شب وروز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے گجرات میں کانگریس کی تھوڑی بہتر حالت نے ان کی بانچھیں کھلادی ہیں۔ یہ الزام تراشی نہیں ہے گذشتہ تیس سالوں کا ہی جائزہ لیں تو تلخ حقائق سامنے آئیں گے کہ مسلمانوں کا گراف تو لگاتار گھٹتا گیا ان کے پیٹ پر بندھے پتھروں کی گنتی بڑھ گئی۔ وہ اپنی عاقبت کی فکر میں سکڑتے چلے گئے اور دوسرے اپنی دنیا سنوارنے میں صحت مند ہوتے گئے۔ ان جملہ معترضات سے قطع نظر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ووٹ کی طاقت سے ہی لین دین نفع نقصان کی حیثیت و پوزیشن بنتی ہےکہ سیاسی پارٹیوں کو اس کا ہمیشہ احساس رہا ہے اور وہ اسی تناظر میں حکمت عملی طے کرتی ہیں۔ مسلم قیادت اور عوام کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج نے بھی بہت سے مسائل پیدا کئے دونوں ہی اس کے قصور وار ہیں۔ سیاسی پارٹیوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ نوجوان ہندوستان کے مسائل کا ادراک کرنے اور اس کے مطابق حکمت عملی بنانے میں کوتاہی نے اس خلیج کو اور وسیع کردیا ہے آنے والے دنوں میں اسے پاٹنے یا کم کرنے کی بظاہر کوئی سعی و جد و جہد بھی نظر نہیں آتی۔ ہر پارٹی اور طبقہ میں نوجوان قیادت کو ابھارا جارہا ہے یا وہ خود آگے آرہی ہے جبکہ عرصہ دراز سے مسلم قیادت میں کوئی نیا چہرہ جو جاذب نظر ہو، کرشمائی خوبیاں ہوں، وہ یا تو ہے نہیں یا پھر اسے دبا دیا گیا ہے کہ تم ابھی بچے ہو سیاست کی نیرنگیاں کیا جانو۔ مسلم نوجوان بھی اپنی صف میں کوئی کنہیا جگنیش میوانی اور ہاردک پٹیل دیکھنا چاہتے ہیں۔
سیاست تیزی کے ساتھ کروٹ لے رہی ہے کانگریس کے’رام‘ اور بی جے پی کے مسلمان پالیسی کے بارے میں بھی سوچا نہیں جاسکتا تھا 2019 کے پیش نظر ملک 180 ڈگری کے زاویے پر گھوم رہا ہے۔ بنگال سے لے کر گجرات تک اس کے اشارے دیکھے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر کانگریس نے گجرات کی طرز پر کرناٹک‘ راجستھان مدھیہ پردیش کے اہم مندروں میں راہل کو درشن کرانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سوراشٹر علاقہ میں پوجا کی تقسیم کے ساتھ 148رام مندروں میں شری رام ساندھیہ آرتی کمیٹی بنائی ہے۔ کانگریس کارکنان صبح و شام آرتی کریں گے تاکہ ہندو دھرم کی روایات کے ساتھ بھکتی کاجذبہ پیدا کیاجائے یعنی کانگریس کا گجرات ماڈل پورے ملک میں اپنایا جائے گا۔
دوسری طرف تماشہ ہے کہ بی جے پی نے بنگال میں اقلیتی کانفرنس کی ۔ یہ اس کی دوسری کانفرنس ہے کیونکہ بنگال کے 30 فیصد مسلم ووٹوں کے بغیر اقتدار کا خواب بے معنی ہے۔ مایاوتی نے 8 ہزار برہمنوں کو گیتا بھینٹ کی یعنی ہرپارٹی اپنی امیج توڑنے اور نئی امیج بنانے میں ایک دوسرے سے بازی مارنے کی کوشش میں ہے کانگریس اور ممتا بنرجی’ مسلم نوازی‘ کا داغ ہندوتو کے ڈٹرجنٹ پاؤڈر سے دھو رہے ہیں تو بی جے پی بعض علاقوں میں کٹر ہندوتو کی امیج کو مسلم نوازی سے بنا کاک ٹیل بنانا چاہتی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کرسی کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ ملک اور سماج کا نمبر اس کے بعد آتا ہے۔ راشٹرواد کے تڑکے نے ہر پارٹی کا ذائقہ بگاڑ دیا ہے۔ میڈیا کا بڑا طبقہ ضرورت اور مجبوری کے دباؤ میں بھگوا دھاری ایجنڈے کا ضامن بن گیا ہے ۔ گرچہ بھیما کورے گاؤں کے واقعہ نے حکمراں طبقہ کے ماتھے پر شکن ڈال دی ہے۔ اونا کے سائیڈ افیکٹ نے بلڈ پریشر پہلے ہی بڑھا دیا تھا ۔بھیما کورے گاؤں سے دلت سیاست میں نیا ابھار اب تک کی ساری محنت پر پانی پھیر سکتا ہے۔ کیونکہ دلت کوئی مسلمان نہیں ہیں کہ انہیں دبا دیا جائے وہ جتنے جارح ہوں گے برہمنی غلبہ والی سیاست خاموش رہے گی۔ اسے یہ بھی ڈر ہوگیا ہے کہ کہیں دلت اور مسلم ذہنی طور پر ایک ساتھ نہ آجائیں اور مظلوم طبقات کا گٹھ جوڑ 2019 کا کھیل بگاڑ دے۔
دراصل دلت قیادت شاید سرمایہ دار‘ میڈیا اور اسٹیٹ کے گٹھ جوڑ کو سمجھ رہی ہے ‘ دلتوں میں سماّن کی آگ دہکانے کی محنت اونا کے بعد سے ہونے لگی تھی۔ بھیما کورے گاؤں نے اس میں گھی ڈال دیا ہے۔ جگنیش میوانی کی تیزابی زبان اور امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر کے تدبر نے کورے گاؤں کو دہلی میں لاکھڑا کیا ہے۔ ملک شدید ہیجانی کیفیت میں ہے۔ اصلی نقلی ہندوتو اور اصلی نقلی راشٹر واد کی لڑائی سڑکوں پر آگئی ہے۔ دلت اس کا ایندھن بن سکتے ہیں۔ فروری میں اجودھیا پر سماعت شروع ہونے پر صورت حال اور بدل سکتی ہے ان حالات کا مقابلہ کرنے اس لڑائی میں اپنا مقام طے کرنے اور سیاسی عمل میں باعزت واپسی کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ کانگریس یا کسی اور پارٹی کے بوتے لڑائی نہیں لڑی جاسکتی ہے اور کوئی اپنا کندھا دے گا بھی نہیں۔ مسلمانوں سے چھوا چھات والا رویہ ابھی جاری رہے گا۔ ہمیں اس میں اپنی جگہ تلاش کرنی ہے۔ اسلام کے سماجی مساوات کا پیغام دلتوں کو قریب لانے میں معاون ہوسکتا ہے۔ مگر ہم نے چھوٹے تالابوں پر اکتفا کرلیا ہے۔ فروعی مسائل میں لڑنے سے ہی فرصت نہیں دین کو روایات و رسومات ‘ چند مظاہر تاریخ اور اسلاف کے تذکروں تک محدود کردیا ہے۔ تاریخ آواز دے رہی ہے وہ کسی کا انتظار نہیں کرتی جو ہاتھ پکڑلیتا ہے اس کا حصہ دار ہوجاتا ہے ۔۔۔
qasimsyed2008@gmail.com