نظریاتی جنگ کا آخری پڑاؤ

قاسم سید

وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں تقریر جو صدر جمہوریہ کے خطبہ پر شکریہ تحریک پر بحث کے جواب میں کی گئی اس میں کئی خفیف اور کھلے اشارے ہیں ‘مستقبل کی چھپی تصویر اور ایجنڈا اور اقلیتوں کے لئے واضح پیغام بھی۔ آئیڈیا آف انڈیا جو نیو انڈیا کے غلاف میں لپٹا ہوا ہے جہاں مہا تماگاندھی کے مقابلہ میں دین دیال اپادھیائے ہیں ان کا سو سالہ جشن پیدائش منانے کا وسیع منصوبہ تیار کیاگیا جس پر مختلف عنوانوں اور پروگراموں کے تحت عمل ہو رہا ہے۔ وہیں وزیراعظم نے اپنی باڈی لنگویج اور الفاظ کے انتخاب سے واضح کردیا کہ آنے والے دنوں میں جارحیت کی شیرینی میں اور اضافہ ہوگا۔ انہوں نے طلاق بل پر دوٹوک موقف بتاکر مسلم قیادت کو چیلنج کردیا کہ وہ چاہے جتنے پاپڑ بیل لے طلاق بل ہرحالت میں نافذ ہوکر رہے گا۔ یہ سوال ملک کی اعلی ترین قیادت نے عوام کی طرف اچھالا ہے جو بی جے پی کی آئیڈیالوجی سے میل کھاتا ہے۔ یعنی شادی توڑنے پر ہندو شوہر جیل جائے تو مسلمان شوہر کیوں نہیں جائے گا۔ اب تک یہ اندازہ گفتگو آر ایس ایس کی شکمی تنظیموں کے چھوٹے بڑے لیڈروں‘بی جے پی کے فائر برانڈ کہے جانے والے وزیروں اور رہنمائوں کی طرف سے اختیار کیاجارہا ہے لیکن پردھان سیوک کی زبان سے ہندومسلم کی بنیاد پر کوئی بات سامنے آئے تو تکلفات کے تمام پردے تار تار ہوتے نظرآتے ہیں ۔ گاندھی بنام دین دیال اپادھیائے ‘گاندھی بنام گوڈسے‘ منوسمرتی بنام آئین‘ہندو بنام مسلمان جیسے نعرے سنجیدگی کاجامہ پہن لیں اور ان کو سرکاری وقار عطا ہونے لگے۔ اقتدار کے طاقتور ایوانوں سے سب کا ساتھ سب کا وکاس کی تعبیریں اور تشریحیں ناقابل فہم بن جائیں تو پھر سمجھ لیجئے کہ کنفیوژن کی حالت جان بوجھ کر پیدا کی جارہی ہے۔ وزیراعظم کی تقریر سے صاف ہے کہ اگلے عام انتخابات 2019 کی بجائے 2018 میں ہی ہوں گے۔ کانگریس کی نوجوان قیادت مودی اور شاہ کی جوڑی کا سامنا کرنے کے لئے کس حد تک تیار ہے اس کا ٹسٹ بھی ہوجائے گا جہاں تک علاقائی پارٹیوں کا تعلق ہے وہ نظریاتی طور پر دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ ان کی قیادت بوڑھی ہوگئی ہے اور ان کی رگوں میں موجود خاندانی نظام کا وائرس صالح بیدار مغز اور تیز طرار قیادت کا متبادل دینے میں ناکام ہے۔ کروناندھی سے لے کر ملائم سنگھ تک ان کے جانشین بونے ثابت ہوئے ہیں اور ان سے سردست کوئی امید لگانا خود فریبی میں مبتلا ہونے کا اظہار ہے۔ البتہ جن کی مفادات کی رسی ایسے لیڈروں کے کھونٹے سے بندھی ہے وہ ہزار ملامتوں اور لعنتوں کے باوجود یہ در چھوڑنے کی جرأت نہیں کریں گے۔ جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے وہ سافٹ ہندوتو کے خول میں ایسی سمٹی ہے کہ اس سے باہر جھانکنے پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے کیونکہ اس نے یہ ذہن بنالیا ہے کہ بغیر سافٹ ہندوتو کے وہ اکثریتی ووٹ کا مستحق نہیں ہوسکتی۔ گجرات میں اس کا تجربہ ہوا ہے اب کانگریس اور بی جے پی کا اپنااپنا گجرات ماڈل ہے مگر ایک بات بالکل دو اور دوچار کی طرح صاف ہے کہ عام انتخابات کا ایندھن مسلمان ہی بنے گا اور ساری سیاست اس کے ایشوز کے اردگرد ہی گھومے گی۔ اس پہلو سے حالات کو سمجھنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
طلاق بل پر ہندو-مسلم کا رنگ چڑھادیاگیا ہے کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں ایک حد سے آگے نہیں جاسکتیں کوئی بھی پارٹی موجودہ وقت میں داڑھی ٹوپی والے کے ساتھ کھڑا دیکھنا نہیں چاہتی ہے۔ کوئی بھی پارٹی عورت مخالفت ہونے کا داغ اپنے دامن پر لگانے کا موقع نہیں دیناچاہتی۔ اس لڑائی میں مسلمان تنہا ہے۔ شاہ بانو کیس اور سائرہ بانو کیس کے درمیان بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ سرکار نے اپنے تیوروں سے صاف کردیاکہ طلاق بل پر وہ جھکنے والی نہیں ہے بالفرض راجیہ سبھا سے منظورنہیں ہوتا تو وہ آر ڈی ننس لے آئےگی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم جماعتیں منظم پرامن جمہوری تحریک چلاتی ہیں تو اس کو بھٹکانے ‘سڑکوں پر اتارنے اور سپریم کورٹ سے ٹکرائو کی حالت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ گذشتہ 4 سالوں میں سرکار اور مسلم قیادت کے درمیان سردجنگ رہی ہے اس کے ختم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کرنے کا اندیشہ خارج از امکان نہیں۔ سرکار سے مسلم قیادت نے اور مسلم قیادت سے سرکار نے دشمنی اور لاتعلقی کا رویہ اپنائے رکھا ہے وہ دونوں میں کسی کے مفاد میں نہیں ہے اور جس سرکار کو نفرت کی حد تک دشمن سمجھاجائے اس سے خیر‘ بھلائی اورصلہ رحمی کی توقع بھی نہیں کرنی چاہئے۔ وہ اپنے دشمن کو کمزور کرنے‘ مٹانے اور گھٹنوں کے بل لانے کے لئے ہرحلیہ اور تدابیر آزمائے گی ۔ جب سرکار اور پارٹی کے درمیان فرق نہیں سمجھاجاتا تو رویوں میں بے رحمی کا آنا باعث حیرت نہیں۔ دونوں طرف سے کشیدگی کم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اس کے نقصانا ت اس لحاظ سے دونوں کو بھگتنے پڑ رہے ہیں کہ سرکار کی عالمی سطح پر بھی امیج خراب ہوئی ہے اور ہمارے مسائل مزید پیچیدہ ہوتے گئے اب تعلیم ‘روزگار جان ومال کے تحفظ کی ضمانت تو دور کی بات آئین میں دئیے گئے بنیادی حقوق بھی زد پر آگئے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ مار کھانے کے ساتھ چپ رہنے کی ہدایت ہے جن کو ہمدرد جان کر اپنامال ومتاع لٹاتے آئے وہ بھی ہرجائی بن بیٹھے۔ اس صف میں نتیش کمار جیسےمنافقین سیاست سرفہرست ہیں تو لگتا یہی ہے کہ طلاق بل گرما گرم ایشو رہے گا اور الیکشن میں اس کے ثمرات و فواکہات پر لوٹ مار کی جائے گی۔
2018 میں ہی بابری مسجد رام جنم بھومی مقدمہ کا فیصلہ آنے کی امید ہے فریق مخالف کو سو فیصد یقین ہے کہ فصلہ اس کے حق میں آئے گا اس نے مندر بنانے کا ماہ تک طے کردیا ہے۔ عدلیہ جس طرح کے دباؤ سے دوچار سے اس میں کچھ بھی متوقع ہے۔ مسلمان پہلے ہی کہتے آرہے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہر حال میں مانیں گے ہندو فریق نے ایسی ضمانت بھی نہیں دی وہ اسے آستھا کا معاملہ مانتا ہے اور مصالحت کے لئے تیار نہیں۔ اب ذرا تصور کیاجائے کہ ایک طرف مسلم پرسنل لا تختہ مشق بنے گا کیونکہ طلاق کے بعد تعدد ازدواج اور حلالہ بھی عدالت میں زیر بحث آنے والا ہے۔ دوسری طرف کانگریس کا پیدا کردہ ناسور یعنی اجودھیا تنازع اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے ملکیت کا فیصلہ آنے کے بعد ملک کے کیا حالات ہوں گے سوچ کر بھی ڈرلگتا ہے ۔ گئو رکشک تفویض کردہ ڈیوٹی کو بخوبی انجام دے رہے رہیں۔ گئو موتر اور اس کا گوبر پینے اور کھانے کے کتنے فوائد ہیں اور صحت کے لئے کتناضروری ہیں سرکردہ لوگوں کے فرمودات آتے رہتے ہیں۔ بات بات پر پاکستان بھیج دینے کی دھمکیاں عام ہوگئی ہیں۔یعنی مذہب سے لے کر کھانے پینے تک سب کو بدلنے کی نیت اور ارادے دونوں واضح ہیں۔ شناخت پر اصرار کی قیمت تو چکانی پڑے گی۔ ہندوتو کا یہ کردار ڈھکا چھپا نہیں ہے۔اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ہماری معزز باوقار قیادت نے 2019 کے لئے کیا روڈ میپ تیار کیا ہے یقیناً  وہ ان چیلنجوں سے بخوبی واقف ہوگی لیکن عام آدمی اس سے واقف ہونے کے لئے بے قرار ہے۔ شاید اتنی تنہائی بے بسی اور لاچاری گذشتہ 70سالوں کے درمیان کبھی محسوس نہیں ہوئ ہوگی حتی کہ جن کے لئے جان ومال‘عزت وآبرو‘ سب کچھ قربان کردیا گیا انہوں نے بھی منہ موڑ لیا ہے کون غیر کون اپنا تمیز مشکل ہوگئی ہے ۔ کہاں جائیں کدھر جائیں کس کا دامن پکڑیں۔ کس سے فریاد کریں کس سے عہدوفاداری باندھیں۔ یہ سوال پریشان کئے ہوئے ہے کیونکہ ہم نے اپنی زمین اور آسمان پیداکرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ اب بتایاجائے کہ کیا دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قہر درویش پر جان درویش کی صورت برقرار رہے تنگ آمد بجنگ آمد کا اعلان ہو۔ خاموشی اختیار کرلیں لبوں کو سی لیں جو ہورہا ہے اس کو مقدر جان کر صبر کرلیں یا ہمت کے ساتھ مزاحمت کا راستہ اپنائیں۔ کیا ہوا کے رخ پر چلتے رہیں یا طوفان سے مقابلہ کریں ۔ غلاموں کی طرح ہر طرح کا ظلم و جبر برداشت کریں یاپھران تمام مصائب سے آزادی کا عزم کرلیں۔ کیا پرانا تجربہ دہراتے رہیں یاپھر نئے تجربہ کی ہمت پیدا کریں۔ اندھیرا ضرور ہے۔ تاریکی گہری ہوتی جارہی ہے ۔ مایوسیوں کی چادر تاحد نظر پھیلی ہوئی ہے لیکن ہر رات کی صبح ہوتی ہے یہ یقین پیدا کرنا ہوگا۔ اگلے عام انتخابات نظریاتی جنگ کا آخری پڑائو ہیں۔ اس کے نتائج ملک کا نقشہ اور اس کی آئیڈیالوجی کا مقدر طے کریں گے۔ 20 کروڑ کی آبادی خاموش نہیں رہ سکتی۔ اس کو اپنے حصہ کا فرض تو ادا کرنا ہی ہوگا ۔۔۔

qasimsyed2008@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں