یہ خود فراموشی مہنگی پڑے گی

قاسم سید

ہمارا ملک جس نظریاتی کشمکش سے دوچار ہے اس کے راون کی طرح متعدد چہرے ہیں ہر چہرے کی جداگانہ شناخت ہے۔ مگر اس کے ڈانڈے ہندوتو سے ہی جاکر ملتے ہیں جس کو سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ نے سند جواز عطا کردی ہے۔ اس لڑائی میں جو بظاہر یکطرفہ ہے کیونکہ سامنے کی فوج شکست خوردہ بے سمت ہے۔ کانگریس ہو یا لیفٹ سب ہانپ رہے ہیں۔ ہندوتو وادیوں کی جارحانہ پیش قدمی کو روکنے کے لئے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اتحاد کی اپیل کرنے والے خود کئی خانوں میں بٹے ہوئے ہیں ان کے پیر ہوا میں لٹک رہے ہیں کیونکہ ان کا سارا زور اپنے وجود کی بقا پر ہے خواہ اس کے لئے کسی کو بھی ایندھن بنالیا جائے منظور ہے۔ فریق مخالف کی ہمالیائی غلطیاں وقفہ وقفہ سے سامنے آتی ہیں لیکن ان کا فائدہ اٹھانے میں ہم بھی ناکام ہیں۔ دراصل جنہیں سیکولر فورسز کہاجاتا ہے یہ منافقوں کا ٹولہ ہے ان کا ایمان سیکولرزم پر نہیں صرف دکھاوا اور ڈھونگ ہے۔ ایک پردہ پڑا ہوا ہے جس کے پیچھے سفاک چہرہ ہے اس لئے کہ سرکار کسی کی بھی ہو فرقہ پرستوں کی بے روک ٹوک مہربانیاں جاری رہتی تھیں اس لئے صرف گجرات ہی نہیں ممبئی اور میرٹھ‘ ہاشم پورہ‘ ملیانہ ہی نہیں‘ بھاگلپور اور جمشید پور ہے۔ حتی کہ امیرالمسلمین کے عہد حکومت میں مظفر نگر زخموں کے ساتھ جگمگارہا ہے۔ علاقائی پارٹی ہو یا قومی کوئی بھی اس داغ سے محفوظ نہیں ہے۔ اگر واقعی یہ سچے ہیں تو نتیش کمار‘ رام ولاس پاسوان‘ ملائم سنگھ‘ چندر بابو نائیڈو‘ مایاوتی وغیرہ نے اپنی سیاسی ضرورتوں کے مطابق پالے نہ بدلے ہوتے بلکہ چٹان کی طرح سیکولر نظریہ پر قائم رہتے بھلے ہی اقتدار سے محروم ہوجاتے‘ یہ صرف چند مثالیں ہیں ورنہ قومی مفاد‘ علاقائی ضرورت اور ملک کی خاطر قلابازیاں کھانے کا طویل ریکارڈ ہے جس کے ذکرکا یہاں چنداں موقع نہیں۔
2019 کا منظر نامہ بھی خوش کن نہیں ہے۔ بی جے پی کو اقتدار سے محروم کرنے اور آئین و جمہوریت بچاؤ کے نعرے کھوکھلے دکھائی دیتے ہیں۔ سب کو اپنا سائباں بچانے اور دائرۂ اثر بڑھانے کی فکر ہے ملک جائے جہنم میں۔ ورنہ اترپردیش کے حالیہ ضمنی الیکشن میں نام نہاد سیکولر پارٹیاں ایک جگہ نظر آتیں؟ کیا مشترکہ مفاہمت کے ذریعہ متحدہ امیدوار کھڑا نہیں کیا جاسکتا تھا یہ بات جاننے سمجھنے کے باوجود سیکولر ووٹ منتشر ہوجاتا ہے اور بی جے پی کا ووٹ اقلیت میں ہونے کے باوجود بکھرے ووٹ کے سبب فاتح بن جاتا ہے ۔ گذشتہ لوک سبھا الیکشن میں کانگریس سمیت نامور سیاسی پارٹیوں کا بدترین حشر گذرے زمانے کی بات نہیں صرف یوپی کی بدولت بی جے پی کو لوک سبھا میں دوتہائی اکثریت ملی 80 لوک سبھا سیٹوں میں سے 73سیٹیں اس کے کھاتے میں گئیں۔ بی جے پی نے شاطرانہ حکمت عملی سے ان کے تار پود بکھیر دئیے۔ اب جبکہ مودی سرکار بھنور میں نظر آرہی ہے اس کی غلطیوں کا فائدہ اپوزیشن اٹھانے میں ناکام ہے۔ لگتا یہی ہے کہ پنجاب بینک گھوٹالہ بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ سب جانتے ہیں کہ مرکزمیں اقتدار کا راستہ اترپردیش سے ہوکر گذرتا ہے۔ پھر بھی کانگریس ‘ سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی سبق لینے کو تیار نہیں ہیں۔ آپس میں ٹکرا کر بھلے ہی سر پھوٹ جائیں مگر ناک اونچی رکھنے کے لئے بی جے پی کو تو واک اوور دے دیں گے یوپی کویہ ساتھ پسند ہے والے نوجوان لیڈر مفاہمت کی بجائے مخالفت کی پگنڈنڈیوں میں گم ہونا گوارا کریں گے یہ دلوں کی تنگی اور پارٹی مفادات کو ترجیح دینے کی وجہ سے ان کی درگت ہو رہی ہے اور کوئی یہ سیکھنے کو تیار نہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ان کا رویہ ناقابل فہم سا ہے اور شاید آگے بھی رہے گا۔ مسلم قیادت پر مسائل کا اتنا بوجھ ہے کہ وہ اس محاذ پر اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے کے لئے آگے نہیں آناچاہتی۔ ایک پہلو یہ بھی قابل غور ہے کہ اگر نام نہاد سیکولر پارٹیاں مشترکہ امیدوار اتارنے میں ناکام رہیں ۔ سب کا اپنا امیدوار ہو تو نہ سیکولرزم خطرے میں نظر آتا ہے اور نہ ہی ان میں سے کوئی بی جے پی کا مفاد پورا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ البتہ اویسی یا کوئی اور مسلم نام والے کو پارٹی اپنا امیدوار اتار دے تو اسے بی جے کا ایجنٹ اور سیکولرازم کا دشمن کہتے ہیں۔ مقابلہ آرائی شروع ہوجاتی ہے۔ آخر ہر پارٹی کا اپنا امیدوار اتارنے پر اصرار سے بی جے پی کو فائدہ نہیں ہوتا تو پھر ان سیکولر پارٹیوں کو کلین چٹ کیوں مل جاتی ہے ان کے رویہ پر انگلی کیوں نہیں اٹھائی جاتی ان کا گریبان کیوں نہیں پکڑا جاتا کیا اس لئے کہ روابط و تعلق کو خراب نہیں کیا جاسکتا۔ حال ہی میں بورڈ کے اجلاس میں طلاق بل پر جس طرح ایک مخصوص پارٹی اور اس کے لیڈروں کی تعریف کی گئی اور دیگر پارٹیوں کی راجیہ سبھا میں طلاق بل پر کارکردگی کو نظر انداز کیا گیا اس کو بھول چوک کہہ کر آگے نہیں بڑھا جاسکتا یہ صرف ایک مثال ہے لوگ اس میں بھی بدنیتی کا پہلو تلاش کرلیں گے ۔ ایک معروف دلت لیڈر نے حال ہی میں متنبہ کیا کہ مسلمانوں کو اپنی زمینی لڑائی خود لڑنی ہوگی۔ اسے دوسروں پر تکیہ کرکے نہیں بیٹھنا چاہئے دلت کورے گاؤں سے گجرات تک زمین پر اتر کر لاٹھیاں کھارہا ہے‘ جیلوں میں سڑ رہا ہے۔ ان کی عورتیں بھی محاذ پر ڈٹ گئی ہیں۔ مگر مسلمان گھروں سے نکل کر سڑکوں پر اترنے کو تیار نہیں وہ صرف سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کی گود میں بیٹھ کر مزے لیتے رہے ہیں اگر وہ چاہتے ہیں کہ دلتوں کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کریں تو ان کو زمینی لڑائی کو سمجھنا ہوگا یہ باتیں بھلے ہی تلخ اور یکطرفہ سوچ کا آئینہ ہیں مگر ان کو ناک بھوں چڑھاکر صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔
شاید سب سے سنگین معاملہ یہ ہے کہ سواد اعظم موجودہ حالات کے اثرات و نتائج کو سنجیدگی سے لینا نہیں چاہتا جس میں موہن بھاگوت اور آرمی چیف تک شریک کار ہیں۔ بھاگوت تین دن میں فوج تیار کردینے کا اعلان کرتے ہیں تو آرمی چیف کو آسام کے حالات کی فکر ہے کہ یہاں بی جے پی کے مقابلہ بدرالدین اجمل کی اے او ڈی ایف آگے بڑھ رہی ہے۔ معاملہ گؤ رکشا ‘ موب لنچنگ ‘سوریہ نمسکار ‘ گائے گنگا سے بہت آگے جاچکا ہے۔ ڈرانے دھمکانے کی علامتیں ضمنی حصہ بھی ہیں۔ یہ سوچنا ہوگا کہ کب تک ایک ساتھ تین طلاق کے جائز و ناجائز رویے اور بورڈ اور مولانا سلمان ندوی میں کس کے حق پر ہونے کے لئے دلائل و براہین کے انبار لگاتے رہیں گے۔ اندھی عقیدت اور شخصیت پرستی کے فریب سے باہر نکلیں گے۔ اپنے حضرت اپنے جناب کے لئے دوسروں کے حضرتوں اور جنابوں پر کیچڑ اچھالتے رہیں گے اور سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے صاحبوں پر غلاظت انڈیل کر انانیت کو تشفی پہنچاتے رہیں گے۔ دوسری طرف ارباب حل و عقد سمیناروں اور کانفرنسوں کی کارگذاریوں میں عافیت تلاش کر رہے ہیں۔ ان پر بھی فکری جمود کا سایہ ہے۔ نوجوانوں کا عظیم سرمایہ ایک دوسرے کا سر پھوڑنے پر لگادیا گیا۔ نیوز چینلوں کی لیلائیں اپنی جگہ سوشل میڈیا پر روز سجنے والی محفلوں کا جائزہ لیا جائے تو فکر کے دیوالیہ پن کا شدید احساس ہوتا ہے جبکہ چاروں طرف بچھائے گئے جال اور نفرت و انتشار کی بارودی سرنگوں کی ہلاکت خیزی کے بارے میں آگہی زیادہ ضروری ہے۔ اس چکرویو سے نکلنے کی تدابیر پر غور نہیں کیا اور دوسروں سے ذمہ داری نبھانے کی امید کرتے رہے تو 2019 کے بعد ان مشغلوں کی اجازت بھی ختم ہوجائے گی جن سے ہمارے روز وشب کٹتے ہیں ۔۔

qasimsyed2008@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں