گورکھپور اور پھول پور کا پیغام

 قاسم سید

سیاست کے بارے میں چند باتیں بڑی اہم ہیں اس میں مستقل دوستی اور مستقل دشمنی نہیں چلتی۔ وقت اور ضرورت کے مطابق تبدیلی کرلی جاتی ہے۔ ایک دوسرے پر غرانے، چڑھ دوڑنے اور نوکیلے پنجوں سے زخمی کرنے اور گلا پکڑنے والے کب گلے میں بانہیں ڈال کر ادائے دلفریبی کے ساتھ قاتلانہ مسکراہٹیں بکھیرنے لگیں کہا نہیں جاسکتا۔ دوسرے سیاست دماغ سے کی جاتی ہے دل سے نہیں، یہ شطرنج کا کھیل ہے اس میں مخالف کی چالوں کو ناکام کرنا ہوتا ہے۔ رحم دلی کا مظاہرہ کرکے طشتری میں سجاکر فتح کی ٹرافی نہیں دی جاتی۔ جو دل سے کھیلتے ہیں وہ ہارتے ہیں اور ان کے سر ٹھوکروں میں رہتے ہیں۔ پہلے فاتحین سروں کامینارہ بناکر جشن مناتے تھے۔ قتل عام کرکے مفتوحین کا نام و نشان مٹا دیا کرتے تھے، سروں کو نیزوں پر اچھال کر خوف و دہشت کا ماحول بنایا جاتا تھا تاکہ بغاوت و سرکشی کی ہر گنجائش کو ختم کردیا جائے۔ انہیں غلام بنالیا کرتے تھے۔ اب یہ کام جمہوریت کے سپہ سالار کرتے تھے۔ پہلے جس کے پاس جتنی فوج اس کا اثر، دبدبہ، رعب اتنا ہی زیادہ اب جس کی جھولی میں جتنے ووٹ اس کی حصہ داری اتنی زیادہ۔ کسی بھی حد تک جاکر خوشامد کرنے سے گریز نہیں۔ اس لیڈر کی وقعت ہوتی ہے جو ووٹ دلانے انہیں ٹرانسفر کرانے کی طاقت رکھتاہو۔ چیخنے، چلانے، پانی میں آگ لگادینے اور ہوا میں پیر چلانے والوں کو بقدر ضرورت استعمال تو کرلیا جاتا ہے۔ مگر ان کی افادیت عارضی ہوتی ہے۔ افادیت ختم ہوتے ہی نیپکن کی طرح کوڑے دان میں ڈال دیتے ہیں۔ بغیر ووٹ کے جمہوری نظام میں کسی کمیونٹی کی کوئی حیثیت اور وقعت نہیں ہوتی اسی لئے ہندوتو کے مفکرین نے اقلیتوں سے ووٹ چھین لینے کا مشورہ دیا ہے۔ اس لئے ہندوتو کی فیکٹری میں ہندو فخر کے احساس کو صیقل کیا جاتا ہے‘ اترپردیش کے حالیہ ضمنی الیکشن کے نتائج کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نتائج پر بچوں کی طرح خوش ہوکر تالیاں بجانے، ہندوتو کی بساط لپیٹ دئیے جانے کی خوش کن تعبیرات اور اپوزیشن کی واپسی کی پیش گوئیاں سیاسی دیوالیہ پن کی علامتیں ہیں، خاص طور سے جب نہ تو ہمارا کوئی رول متعین ہے اور نہ ہی اس سیاسی کھیل میں کسی طرح کی حصہ داری کیونکہ بلاشرط خود سپردگی کے جذبہ بیکراں کے سمندر میں غوطے لگانے کی عادت نے یہ سوچنے کی فرصت کہاں دی ہے کہ کون ہمارا استحصال کر رہا ہے اور کون کہاں مال دکھاکر وصولی میں مصروف ہے، بازارِ حسن میں یوسف کے خریدار بہت ہیں اور یہ’ کار خیر ‘ برادرانِ یوسف ہی انجام دے رہے ہیں، تو پھر گلہ شکوہ کیسا؟۔ عام آدمی بے چارہ صبح و شام کی فکر کے جال میں اس طرح الجھا ہے کہ وہ اقتدار کی گردشوں میں اس کے زخموں‘ دکھوں کی سوداگری کے پیج و خم کو سمجھنے کی نہ صلاحیت ہے نہ فرصت۔
گورکھپور اور پھول پور کے نتائج اس اعتبار سے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں کہ یہ دونوں سیٹیں یوگی اور موریہ کی تھیں اس میں بھی گورکھپور تین دہائیوں سے گورکھناتھ پیٹھ کے قبضہ میں تھی اس پر ہار کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا پھر بی جے پی نے آر ایس ایس کی زبردست محنت کے نتیجہ میں مختلف ذاتوں اور برادریوں کو ہندوتو کے دھاگے میں کامیابی کے ساتھ پرویا اور اس پر راشٹرواد کا خمار چڑھایا یہی وجہ ہے کہ 2014 سے لے کر 2017 تک پے درپے کامیابی ملتی رہی۔ ہندوتو کی تربیت یافتہ فوج نے لگاتار فتوحات کا ایسا ریکارڈ بنایا کہ 21 ریاستوں کو اپنی قلمرو میں شامل کرلیا۔ یہ صرف اپوزیشن کی پھوٹ نہیں بلکہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کی 90 سال کی جدوجہد محنت اور قربانیوں کا نتیجہ ہے جس نے بی جے پی کے لئے ہراول دستہ کا کام کیا ہے اور جب کسی فوج کو مسلسل فتح ملتی رہے تو اس کا سپہ سالار اور وہ خود تھکن محسوس نہیں کرتے بلکہ جوش و جذبہ کا گراف بڑھتا رہتا ہے۔ ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کی جیت شب خون کی طرح ہے تو کیا سیاسی دشمن کو اس سے زک پہنچے گی یا وہ نئے سرے سے منظم ہونے کی کوشش کرے گا۔ کیونکہ اس کے ترکش میں تو ہزاروں تیر ہیں اور ان کا استعمال بخوبی جانتا ہے۔ البتہ یہ سچ ہے کہ ایسی ہار کی توقع خواب میں بھی نہیں کی تھی یہی وجہ ہے کہ ابھی تک صدمہ سے باہر نہیں آسکے ہیں اور نہ ہی کوئی تاویل ان کے ذہن میں آرہی ہے۔
یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ 2014 کے الیکشن کے بعد سے اب تک لوک سبھا کی 16سیٹوں پر ضمنی الیکشن ہوئے ہیں۔ جس میں بی جے پی کو صرف دو سیٹوں پر کامیابی ملی ہے جبکہ 14سیٹوں پر حزب مخالف کامیاب ہوئی ہے۔ یعنی مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد بی جے پی کو ایک بھی لوک سبھا سیٹ حاصل نہیں ہوئی بلکہ پانچ سیٹوں کا خسارہ ضرور ہوا ہے جن دو سیٹوں پر کامیابی ملی وہ اس کی اپنی تھیں تو کیا مودی اور بی جے پی کا گراف گررہا ہے۔ صرف پانچ سال کے اندر ہی اس کا زوال شروع ہوگیا ہے۔ یہ اپوزیشن کی وجہ سے ہوا یا بی جے پی سرکار عدم کارکردگی اور ناقابل عمل وعدوں کے بوجھ تلے دب گئی ہے اور ہندوتو کا رنگ روغن اترنے لگا ہے؟ اس کی سب سے بڑی طاقت نوجوان ووٹر کا ’موہ بھنگ‘ ہو رہا ہے اور کیا بی جے پی و آر ایس ایس قیادت کو اس کا احساس ہے اور کیا تھکی ہاری علاقائی پارٹیاں پھر تازہ دم ہورہی ہیں اور کیا حاشیہ پر پہنچا دئیے گئے مسلمانوں کو مین اسٹریم میں آنے کی ہمت واپس آئے گی؟ یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ گذشتہ چند سالوں میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ اس کے قیادت کا ایک بڑا حصہ بھی خوف کے نفسیات میں مبتلا دیکھاگیا ہے۔ ممکن ہے یہ تاثر غلط ہو لیکن مختلف مسائل پر خاموشی نے دل کے کسی نہ کسی گوشے میں یہ سوال ضرور پیدا کیا ہے۔
ان جیسے متعدد سوالات ہیں ۔ کرناٹک ‘ راجستھان اور مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات میں ان کا جواب مل جائے گا۔ لیکن گورکھپور اور پھول پور کے نتائج کو ہندوتو کی ہار کہنا جلد بازی ہوگا ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی کی سوشل انجینئرنگ جو 2014 اور 2017 میں فیل ہوگئی تھی اور بی جے پی کی کامیاب‘ وہ پھول پور اور گورکھپور میں چل گئی۔ بی جے پی چاہنے کے باوجود ہندو کارڈ نہیں کھیل پائی۔ وہیں اکھلیش کی تقریروں پر غور کریں کہ انہوں نے زور دے دے کر ہندو ہونے کی بات لگاتار کہی ۔ بیک ورڈ ہندو ہونے کا احساس اجاگر کیا۔ ذات کی بنیاد پر حصہ داری کا مدعا اچھالا اور ہندوتو کی سیاست پر تبصرہ سے گریز کیا۔ اجودھیا میں کئے گئے مذہبی کاموں کا بار بار تذکرہ کیا۔ کسی مسلم لیڈر کو اپنے ساتھ نہیں رکھا۔ مسلم قیادت کا پارٹی میں تقریباً خاتمہ کردیا، اب جو بھی ہیں وہ صرف پچھ لگو ہیں بوقت ضرورت ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسرے بی جے پی ایک مورچہ ہاری ہے جنگ نہیں۔ اس کے ہزار چہرے اور ہزار رنگ ہیں۔ وہ کوئی نیا مکھوٹا لگاکر آسکتی ہے۔ اس کے پاس ایسی مشنری ہے جو فوج سے پہلے تیاری کرکے میدان جنگ سنبھال سکتی ہے جیسا کہ بھاگوت نے کہا تھا۔ وہیں اپوزیشن کے بکھرے کنبہ کو سمیٹنا اور کشتی کا مانجھی طے کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ لہٰذا یہ جنگ آسان نہیں ہے۔ جیسا کہ لگ رہا ہے البتہ اس کا جو پیغام گیا ہے وہ بہت طاقتور ہےاوراس کی دھمک دور دور تک محسوس کی جارہی ہے۔بی جے پی کے اندر سے اختلاف اور بغاوت کے سر اٹھنے لگے ہیں۔ نئی صف بندی کی جارہی ہے۔
مسلمانوں کو یہ طے کرنا ہے کہ کیا وہ سیاسی اجنبیت اور در بدری کو ختم کرنے کے لئے کوئی منصوبہ تیار کریں گے یا ماضی کی طرح پچھ لگو بن کر تھوڑی بہت مراعات حاصل کرکے خوش رہیں گے۔ کیا ان کے نام پر سیاست کرنے والی پارٹیاں خاموش حمایت کے لئے مجبور کریں گی اور بارہویں کھلاڑی کی طرح صرف تولیہ اٹھانے تک محدود کریں گی اور بندوق کی نوک پر ووٹ حاصل کریں گی یا ان کو باعزت مقام دے کر اقتدار میں شراکت داری کے حوالے سے ڈائیلاگ میں مدعو کریں گے۔ مسلمان ہمیشہ کی طرح بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ بنارہے گا یاسیاسی پارٹیاں خاموش مفاہمت کے تحت انہیں کمزور بنانے کی پالیسی پر عمل کرتی رہیں گی۔
بدقسمتی سے مسلمانوں کا طبقہ اشرافیہ ہمیشہ سے کانگریس اور دیگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے لئے میدان تیار کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ 70 سالوں میں عام آدمی کی طرح عام مسلمان بھی تعلیمی ‘سیاسی اور سماجی طور پرپسماندہ رہا اور خوش حالی کے راستے اس پر بند رہے چنانچہ ان خدمات عالیہ کے عوض انہوں نے بھی صرف اسی طبقہ کو ہر طرح کی مراعات سے فیض یاب کیا‘ اس کے ثمرات و فواکہات صرف ان کی ذات یا پارٹی تک ہی پہنچ سکے، قطار میں کھڑا آخری شخص آج تک صرف انتظار میں ہے گذشتہ پارلیمانی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے اگر زیادہ کچھ کہا گیا تو بہت سے محترم چہرے بے پردہ ہوجائیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عام آدمی کے مفادات کے بارے میں بھی اب سوچ لیا جائے کیونکہ اس کے تیور بگڑے تو بہت کچھ بگڑ جائے گا۔ پھول پور اور گورکھپور کا یہی پیغام ہے عوام ایک حد تک صبر کرتے ہیں اور جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے تو پانسہ پلٹ دیتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ باعزت سیاسی واپسی کے ہمارے نقطۂ نظر سے کیا امکانات ہیں اور اس کے لئے کیا وسیع تر منصوبہ بنایا جاسکتا ہے جب دہائیوں پرانے حریف اپنے وجود کے بقا کے لئے اپنے تمام اختلافات اور دشمنی بھلاکر ایک دوسرے کے دروازے پر جاسکتے ہیں تو ایک خدا‘ ایک رسول‘ ایک کلمہ‘ ایک قبلہ اور ایک کتاب کے ماننے والے اپنے معمولی اور فروعی اختلافات کو بھلاکر دکھیاری زخم خوردہ ملت کی عزت و بقا کے لئے ایک نہیں ہوسکتے۔ پھول پور اور گورکھپور کا ایک پیغام یہ بھی ہے ۔
qasimsyed2008@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں