تیرے سوا سب کافر!

قاسم سید
ہندوستانی مسلمانوں نے قدم قدم پر ثابت کیا ہے کہ وہ سادہ لوح ‘ معصوم اور بھولے ہونے کے ساتھ ہی حب الوطنی سے سرشار اور ایمانی غیرت و حمیت سے مالا مال ہیں۔ شریعت کے تحفظ کے لئے جان نثاری کا جذبہ بے پناہ اور حب رسولؐ کا بحرِ بیکراں ان کی رگ رگ میں موجزن ہے۔ اس میں بھی کوئی شک کی گنجائش نہیں تھی۔ ہمارے طالع آزما سیاست داں اور خالص سیاسی مزاج رکھنے والے علما کا ایک طبقہ (گستاخی معاف) اس معصومیت ‘بھولے پن اور مذہبی جذبہ کا استحصال کرتا رہا ہے ۔ان کی جھولیاں بھرنے کے لئے اپنی جیب خالی کرنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگاتا۔ ان کی ایمانی غیرت کو للکار کر سڑکوں پر اتارا جاتا ہے تو حکومت سے ٹکر لینے میں بھی گریز نہیں کرتا۔ کتنی جانیں ایمانی غیرت کے نام پر قربان ہوگئیں۔ ان کے قصیدے تو پڑھے گئے مگر ان کی اولاد کو سڑکوں پر بھٹکنے اور مزدوری کرنے کے لئے چھوڑ دیاجاتا ہے۔ جن پر مقدمات قائم ہوئے ہیں‘ ان کےگھر کے برتن فروخت ہوجاتے ہیں۔ بیوی دوسروں کے برتن مانجھ کر بچوں کی بھوک مٹاتی ہے۔ بچے ہوٹلوں میں جھوٹے گلاس دھونے اور ٹوٹنے پر مالک کی مار کھاتے ہیں۔ کوئی ان کی تعلیم‘ روزگار اور ضروریات کے بارے میں پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کرتا۔ ان کا سب کچھ اجڑ جاتا ہے مگر نعرہ مستانہ دینے اور سڑکوں پر اتر کر شریعت بچانے کی ترغیب دینے والوں کا چمن ضرور آباد ہوجاتا ہے۔ اسے بھیڑ بکریوں کی طرح ادھر سے ادھر ہانکا جاتا ہے کبھی کانگریس کو ایمان کا جز سمجھایا جاتا ہے تو کبھی اسے سبق سکھانے کی تلقین کی جاتی ہے کبھی ملائم سنگھ نجات دہندہ تو کبھی لالو‘ نتیش یا کوئی اور یہ نوٹنکی بلاتوقف جاری ہے۔ اس کے پیٹ کے پتھروں میں اضافہ اور اس کے نام لیواؤں کی خوشحالی کا گراف میں مسلسل اضافہ ‘ کون کب کس سے کیوں چھپ کر چوروں کی طرح مل آتا ہے۔ کون اقتدار کے دستر خوانی قبیلہ کا مہمان بن کر ’’ لذت طعم و دہن ‘‘ سے سرفراز ہوتا ہے۔ کون وفود بناکر اپنی فائلوں کے ساتھ سربسجود ہوکر شکرانہ ادا کرتا ہے۔ کس کے اشاروں پر کیا کھیل ہوتا ہے اب تو یہ سب کھلے راز ہیں۔ سوشل میڈیا نے سب کو برہنہ کردیا ہے جن کا نقاب ابھی نہیں اترا ہے ان کی مایوسی بھی دور ہوجائے گی۔ چھپ چھپ کر ملنے والے اپنی رسوائی میں بھی فخر کرتے ہیں۔ بے شرمی کے ساتھ پہلے انکار اور پھر اقرار کرتے ہیں۔ پردہ اٹھانے پر قانونی نوٹس کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا یونہی کھیل چلتا رہے گا۔ اسی طرح مفادات کے بازار حسن میں ’’برادران یوسف‘‘ مارکیٹنگ کرکے اپنے شیئر بڑھاتے رہیں گے۔ اور عام مسلمان محض جنس بازار ہی رہے گا اس کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔
وہ لوگ جو اختلاف رائے کے تمام جملہ حقوق اپنے نام محفوظ رکھتے ہیں۔ دوسرے کو اختلاف رائے کا حق دینے کو تیار نہیں۔ اسے ملت دشمن‘ شریعت دشمن ‘علما کے تقدس کا دشمن‘ بزرگوں کا دشمن حتی کہ قومی سلامتی کے لئے خطرہ تک بتادیتے ہیں۔ دشنام طرازی کی نئی طرحیں ایجاد کرتے ہیں۔ مٹھا دیشوں کی فوج اس طرح حملہ آور ہوتی ہے جیسے کوئی دشمن ان کی حدود یا سرحد میں داخل ہوگیا۔عام مسلمانوں کی عاقبت اور اپنی دنیا سنوارنے والوں کا کبھی تو احتساب ہوگا۔ انہیں اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا تو ہوگا۔ اگر آپ پبلک لائف میں ہیں تو ہرحرکت اور عمل پر نظر رکھی جائے گی۔ عوامی عدالت جائزہ لیتی رہے گی یہ نہیں ہوسکتا کہ گڑ کھائیں اور گلگلوں سے پرہیز کریں۔ ہر سیاسی معاملہ پر اپنی قیمتی رائے سے فیض یاب فرمائیں۔ سرکاری حلقوں سے مضبوط رابطے رکھیں ان کی عنایات و نوازشات سے لطف اندوز ہوں۔ سیاسی پارٹیوں کا باالوسطہ حصہ بن جائیں‘ کسی کو ہرانے اور جتانے کی اپیلیں کریں اور پھر سوال اٹھانے والوں پر اپنی تربیت یافتہ پرائیویٹ آرمی چڑھادیں۔ اس کی بوٹی بوٹی کرڈالیں گستاخ ‘نافرمان ‘ناہنجار‘ نابکار‘ زندیق‘ فاسق‘ فاجر جاہل اور شان رفعت میں توہین کا مرتکب کہہ کر ذلیل و رسوا کرنے کی تمام حدوں کوحلال کرلیا جائے۔ دوسروں کو اخلاق کریمہ‘ اسوہ حسنہ ‘حسن ظن اور قرآنی اخلاقی تعلیمات کا حوالہ دے کر شرمندہ کرنے کی کوشش کی جائے مگر خود پر کسی اخلاقی ضابطہ کا اطلاق نہ کیا جائے۔ یہ دہرا منافقانہ اور ریاکارانہ رویہ برداشت کیا جاسکتا ہے؟ شاید اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ اظہار رائے کی آزادی کے معاملہ میں عدم تحمل کی اس سے بدتر مثال ملنا مشکل ہے۔ اگر یقین نہ ہوتو سوشل میڈیا کی تمام قسموں پر زبان وبیان کا جائزہ لیں تصویر صاف ہوجائے گی کہ آپ سچے مومن ہیں۔ امین و صادق ہیں اور سامنے والا انگلی اٹھادے تو کاذب ‘فاسق‘ فاجر ۔رویو ں کی سفاکیت‘ اندھی حمایت کا جنون اور راہ حق پر سمجھنے کا فتور ہر حدوقید سے بے نیاز ہے۔
مسلم عوام کو نیپکن کی طرح استعمال کرکے پھینک دینے کا حالیہ واقعہ بہار میں پیش آیا۔ چونکہ شریعت اور ملک دونوں خطرے میں ہیں ان کو بچانے کے لئے عظیم الشان تاریخی کانفرنس ہوئی ویسے بھی مسلمانوں کو کانفرنسوں اور جلسوں میں الجھاکر ان کی توانائی اور پیسہ دونوں فیاضی کے ساتھ خرچ کیا جارہا ہے۔ ایمانی غیرت للکار کر شرکت کے علاوہ دل کھول کر چندہ کی اپیل کی گئی۔ جب معاملہ شریعت اور ملک کا ہوتو ان کو لاکھوں کی شرکت اور کروڑوں خرچ کرکے بچا لئے جائیں تو انہیں اچھا اور سستا نسخہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ اجلاس میں دن بھر مودی سرکار کو جم کر کوسا گیا۔ وعیدیں سنائی گئیں۔ شام ہوتے ہوتے مودی کے حلیف اور دوست نتیش کمار نے حضرت امیر شریعت مفکر اسلام دامت برکاتہم و مدظلہ العالی کی سفارش پر ان کے قریبی کو ایم ایل سی کا ٹکٹ مرحمت فرمادیا وہی نتیش کمار جنہوں نے بی جے پی سے ہاتھ ملاکر بہار میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا۔ جس کو ٹکٹ ملا وہ ہماری برادری کا ہے اس کی ترقی پر خوشی ہے اللہ تعالی اس کے مزید درجات بلند کرے اور حضرت کی وساطت سے دنیا کی ہر کامیابی وترقی اس کے قدم چومے۔ پیادے چالوں میں پیٹے جاتے ہیں۔ مہروں کا استعمال ہوتا ہے۔ سوال ٹکٹ کا نہیں ٹائمنگ کا ہے۔ یہ تو امیر شریعت ہی بتائیں گے کہ کیا شریعت اور ملک دونوں بچالے گئے یا ابھی کچھ اور مرحلہ باقی ہے۔ کیا کانفرنس کی یہی معراج تھی۔ جن کو ٹکٹ دیا گیا انہوں نے کانفرنس سے 45دن پہلے ہی جنتادل یو کی ابتدائی ممبر شپ لی تھی۔ یعنی سارا معاملہ پہلے سے طے شدہ تھا؟ بینروں پر نتیش کمار کے فوٹو سرکار کا بھرپور تعاون ‘حکمراں پارٹی کی تائید و حمایت بورڈ کی اعلی قیادت کی ریلی سے دوری۔ بہرحال دنیا فقیروں اور خانقاہوں کی ٹھوکر پر ہوتی ہے۔
ہم یہ نہیں مانتے کہ صرف ایک ٹکٹ کے لئے سارا کھیل ہوا۔ ہم یہ نہیں مانتے کہ لالو کی طرف سے مسلمانوں کا رجحان نتیش کمار کی طرف پلٹنے کے لئے یہ سب کچھ ہوا۔ ہم نہیں مانتے کہ بورڈ اور امارت شرعیہ کو ٹول کی طرح استعمال کیا گیا۔ ہم نہیں مانتے کہ سرکاری کمیٹیوں کے ممبر بننے والے حضرات کے خلوص پر شبہ کیا جاسکتا ہے۔ ہم نہیں مانتے کہ چھپ چھپ کر ملنے والوں کے بھی ’’اچھے دن ‘‘آنے والے ہیں۔ ہم نہیں مانتے کہ امارت شرعیہ کو نتیش کی گود میں بٹھادیا گیا ہے۔ ہم یہ بھی نہیں مانتے دین وشریعت کے نام پر مسلمانوں کو بے وقوف بنایا گیا۔ رسوا کیا گیا ہے اور انہیں مال غنیمت کی طرح جنتادل یوکو سونپنے کی خوبصورت حکمت عملی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس تاریخی یادگار باوقار کانفرنس کو لے کر میڈیا میں جو کہانیاں گردش کر رہی ہیں ان میں کتنی صداقت ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ خاص کانفرنس کے روز ہی ایم ایل سی ٹکٹ کانفرنس کے کنوینر کو دینے کے اعلان کی کیا مصلحت تھی۔ کیا وہ منتظمین کو ایکسپوز کرنا چاہتے تھے۔ ان کا ہمالیائی قد بونا کرنا چاہتے تھے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ دونوں باتوں میں کیا باہم ربط ہے۔ کیوں کانفرنس کو اس اقتدار کا لازمی حصہ بنادیا گیا۔ جس کے خلاف کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہ کونسی سیاست اور بزرگیت ہے یہ کیسی قیادت ہے جو گھٹنوں پر چل کر قد بلند رکھنا چاہتی ہے۔ یہ کونسی شریعت ہے جو قول و فعل کے تضاد کو جائز سمجھتی ہے۔ تو کیا سجدہ شکر بجا لائیں۔ قدموں سے لپٹ جائیں۔ احسان عظیم کی گٹھری سرپر باندھ لیں کہ شریعت اور ملک دونوں کا کتنی آسانی سے تحفظ ہوگیا۔ معاف کیجئے زندہ مکھیاں نگلی نہیں جاسکتیں۔ یہ تماشے مقربین‘ متعبین‘ مامورین اور مریدین کو خوش کرسکتے ہیں لیکن عام مسلمان اپنی بے توقیری بے حرمتی بےبسی پر خون کے آنسو رو رہا ہے کہ وہ شام کو صرف ایک ٹکٹ دے کر لوٹا دیا گیا۔ بھلے ہی اپنے سواسب کو کافر قرار دے دیں مگر اتنا سستا تو نہ بنائیں‘ بھائو اتنا نہ گرائیں ‘ہم تو ان کے دربار عالیہ میں معتوب و مقہور ہیں‘ رہیں کوئی گلہ نہیں۔ ایسی اور گالیاں دیں سب قبول۔ مگر مسلمانوں کی عصمت کو شریعت کے نام پر فروخت نہ کیا جائے۔ بہرکیف جو بھی کسی منصب یا ذمہ داری پر فائز ہے اپنے ہر قول و فعل کے لئے عوام کے سامنے جواب دہ ہے۔ اسے سوال کرنے کا حق ہے اور جواب دینا منصب دار کا فرض۔ خواہ کتنا بڑا کیوں نہ ہو۔ یہ بزرگوں کی شان میں بے ادبی‘ گستاخی اور اہل منصب کی نافرمانی نہیں جو سوالوں کا جواب دینے کی بجائے بھکتوں کی فوج کو بمباری و سنگساری کے لئے آگے بڑھادیتے ہیں انہیں بھی نوشتۂ دیوار پڑھ لینا چاہئے جب عام آدمی غضبناک ہوتا ہے تو شاہوں کے تخت و تاج بھی محفوظ نہیں رہتے۔۔

qasimsyed2008@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں