دوراہا

آبیناز جان علی
راجیش بہت خوش ہے کیونکہ کل اس کی شادی ہونے والی ہے۔ چار سال سے وہ جس لڑکی کے عشق میں گرفتار تھا کل وہ اس سے شادی کرنے والا ہے۔ شادی ایک ایسا مقدس اور اٹوٹ بندھن ہے جو میاں بیوی کو ہمیشہ کے لئے جوڑدیتی ہے۔ کل اس کا پیار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کا ہو جائے گا۔ کل کے بارے میں سوچ کر اس کا چہرہ کھل رہا ہے ۔ اندر سے خوشیوں کا فوارہ پھوٹ رہا ہے۔ اس کے گال گلابی ہو رہے ہیں۔ کل اس کی زندگی کا سب سے بڑا دن ہوگا۔ اس کے دل سے ندا آرہی ہے: کل، کل، کل، کل۔۔۔
گھر میں چہل پہل ہے۔ تمام رشتہ دار، دوست اور پڑوسی شادی کے کام میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ سب راجیش کے لئے بہت خوش ہیں۔ راجیش ایک نیک دل اور خوش اخلاق لڑکا ہے۔ وہ یونیورسٹی تک پڑھا لکھا ہے اور ایک نامور کالج میں ریاضی پڑھاتا ہے۔ اس کی تنخواہ بھی تسلی بخش ہے۔ شادی کے بعد دولہا دلہن لڑکے کے والدین کے گھر کی پہلی منزل میں آرام سے رہیں گے۔ راجیش کے والدین نے اسے حال میں ایک نئی گاڑی بطور تحفہ دی ہے۔
راجیش دیکھنے میں بھی بہت حسین ہے۔ لمبے قد اور صاف رنگت والا یہ نوجوان ہمیشہ مسکراتا رہتا ہے۔ سب سے گرم جوشی سے پیش آتا ہے۔ اس کی کوئی بری عادت نہیں ہے۔ نہ سگرٹ جلاتاہے اور اس نے آج تک شراب کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ وہ اپنے والدین کا فرمانبردار لڑکا ہے۔ اس نے زندگی میں ایک ہی لڑکی کو چاہا اور کل وہ اس سے شادی کرنے والا ہے۔ سب راجیش کے لئے ازحد خوش ہیں۔
کل کے بارے میں سوچ کر راجیش نے اپنی منگیتر کو ایک ایس ایم ایس بھیجا:
”میں کل تمہیں دلہن کے لباس میں دیکھنے کے لئے اتاﺅلاہو رہا ہوں۔“
میوری اپنے ہاتھوں میں مہندی لگا رہی ہے۔ کل راجیش کے ساتھ اس کی شادی ہے۔ کل پوتر اگنی کے سات پھیرے لے کر جنم جنم کے لئے راجیش سے جڑنے والی ہے۔ راجیش کو وہ یونیورسٹی کے دنوں سے جانتی ہے۔ راجیش اچھا لڑکا ہے۔ وہ اس کا بہت خیال رکھتاہے۔ اس کی ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے۔
میوری بھی ایک خوبصورت لڑکی ہے۔ راجیش اور میوری کو ساتھ میں دیکھ کر ہر کوئی کہتا ہے کہ دونوں کی جوڑی تو رب نے ہی بنائی ہے۔ دونوں کاقد، رنگ روپ، سماجی عہدہ اور معیارِ تعلیم سب برابر ہے۔ میوری انگریزی کی معلمہ ہے۔ اس کی خود کی گاڑی ہے۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی ہے۔ سب کو یقین ہے کہ نازوں میں پلی اس گڑیا پر راجیش بھی اتنا ہی پیارنچھاور کرے گا۔
میوری کا فون بجا۔ اس کی اسکرین کو دیکھا کہ راجیش کا ایس ایم ایس ہے۔ اس نے فون اٹھایا نہیں کیونکہ وہ ہاتھوں میں مہندی لگا رہی ہے۔ تھوڑی دیر بعدٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ میوری نے دیکھا کہ کال آرہی ہے۔ میوری نے شبنیز کو مہندی لگاتے ہونے سے روکا اور دوسرے کمرے میں جا کر فون کا جواب دیا۔
“میںنے تم سے کہا مجھے بار بار فون کرنا بند کرو۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ کل شادی ہے میری!”
پھر میوری واپس دوسرے کمرے میں شبنیز کے سامنے بیٹھ گئی اور شبنیز نے مہندی لگاناجاری رکھا۔ شبنیز پھولوں اور پتوں کی بیل کے نہایت پیارے نقش بنا رہی تھی۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں کہنیوں تک اور دونوں پیروں میں گھٹنوں تک مہندی لگائی جائے گی۔ مہندی کی قسم سے اندازہ ہو رہا ہے کہ مہندی کا رنگ بہت گہرا چڑھے گا۔
میوری کو معلوم ہے کہ وہ صحیح فیصلہ لے رہی ہے۔ اسے اپنے والدین کی عزت کا پاس رکھنا ہے۔ پھر شادی میں کتنے خرچے ہوتے ہیں۔ سب لوگ کتنے خوش ہیں۔ راجیش کتنا اچھا ہے۔ میوری نے خود کو یقین دلایا کہ وہ مناسب قدم اٹھا رہی ہے۔ تب اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔
”رو رہی ہو؟“ شبنیز نے کہا۔ ”ہر لڑکی کو اس منزل سے گزرنا پڑتا ہے۔ شروع شروع میں سب چیزیں عجیب لگیں گی۔ بعد میں عادت پڑ جائے گی۔“
میوری نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے اندر ہی اندر سوچا کہ دل کافر ہے۔ اس کی نہیں سننی چاہئے۔
اگلے دن شادی کا دن آگیا۔ راجیش دولہے کے لباس میں بہت جچ رہا ہے۔ قیمتی شیروانی، نئے جوتے اور سر پر سہرا باندھ کر وہ گاڑی
میں نکلا۔ نئی گاڑی کو پھولوں سے آراستہ کیا گیا ہے۔ برات میں ڈیڑھ سو لوگ شامل ہیں۔ پندرہ گاڑیاں اور ایک بس مےہبرگ سے نکل کر روزہل کی طرف روانہ ہوئیں۔ راجیش بے حد و ممنون ہے کہ اس کے والد اور چھوٹے بھائی نے شادی کی تمام ذمہ داریاں سنبھالیں۔سب لوگ اس پر خوشیاں نچھاور کر رہے ہیں۔
دوسری طرف میوری بھی سج دھج کر گڑیا لگ رہی ہے۔ ہر کوئی اس کی بلائیں لے رہا ہے۔ بڑے بزرگ اسے سمجھا رہے ہیں کہ اپنے سسرال میں سب کا خیال رکھنا۔ اگر کوئی چیز ناگوار معلوم ہو تو دیکھا اندیکھا کر دینا اور کہا انسنی کر دینا۔ میوری سب کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے۔ دوسری طرف اس کا فون کئی بار بج رہا ہے۔ میوری نے فون بند کر دیا۔ پھر اسے منڈپ میں لایا گیا۔
سب سے پہلے سماج کے سامنے سرعدالتی شادی ہوئی۔ سرکاری افسر نے سمجھایا کہ کورٹ میرج سے راجیش اور میوری نپولین کوڈ کی پیروی کریں گے۔ انہیں ایک ہی گھر میں ایک ہی کمرے میں رہنا پڑے گا۔ انہیں ایک دوسرے کی طرف وفاداری نبھانی پڑے گی اور اگر ان کے بچے ہونگے تو بچوں کی پرورش کرنی پڑے گی۔
پھر پنڈت نے شادی کی رسم شروع کی۔ ایک ایک کر کے تمام رشتہ دار کو روسومات کی ادائیگی کے لئے بلایا گیا۔ شادی تو دو خاندانوں کا سنگم ہے۔ راجیش اور میوری کا گٹھ بندھن ہوا۔ پھر دونوں نے اس مقدس آگ کے پھیرے لے کر ساتھ جینے مرنے کی قسم کھائی اور ایک دوسرے سے وفاداری نبھانے کا بھی وعدہ کیا۔ اس کے بعد راجیش نے میوری کے گلے میں منگل سوتر باندھا اور اس کی مانگ بھری۔ اب میوری ہمیشہ ہمیشہ کے لئے راجیش کی ہوگئی۔
دیر رات تک محفل چلی۔ تمام رشتہ داروں کی خوب خاطرداری ہوئی۔ رات کو نئی نویلی دلہن اور دولہا اپنی خوابگاہ میں داخل ہوئے۔
”میرے سر میں شدید درد ہو رہا ہے۔“ میوری نے اچانک کہا۔
”میں دبادوں؟“ راجیش نے کہا۔
”نہیں سو جاﺅں گی تو ٹھیک ہو جائے گا۔“میوری نے دھیمے لہجے میں کہا۔
”ٹھیک ہے۔ تم سو جاﺅ۔“ راجیش نے شفقت آمیز لہجے میں کہا۔
راجیش اور میوری کی شادی کو چھ مہینے ہو گئے ہیں۔ دونوں کام پر جاتے ہیں۔ دوپہر میں میوری کھانا تیا ر کرتی ہے اورراجیش ٹیوشن دیتا ہے۔ویکو ¿ اینڈ کو میاں بیوی اپنے سسرال میں ساتھ میں کھانا کھاتے ہیں۔ میوری میکے جاتی ہے۔ راجیش اسے چھوڑنے جاتا ہے اور واپس بھی لاتا ہے۔
میوری کا فون اکثر بجتا رہتا ہے۔ میوری اکثر فون پر رہتی ہے۔ کبھی کھبی اکیلی گھومنے جاتی ہے۔ راجیش اس سے کبھی پوچھتا نہیں ہے کہ وہ کہاں جاتی ہے۔ یا پھر کس کا فون آرہا ہے کیونکہ راجیش کو معلوم ہے کہ کون میوری کو رات دن فون کرتا ہے اور اسے پیغامات بھیجتا ہے۔ میوری کو گھر سے نکلتے دیکھ کر راجیش کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ آنسوﺅں سے اس کے گال تر ہو جاتے ہیںلیکن وہ کچھ نہیں کہہ پاتا۔
میوری نندوز کے طعام خانے میں اکیلی بیٹھی ہے۔ وہ اپنے سامنے خلا کو تک رہی ہے۔ وہ اندر ہی اندر گھٹ رہی ہے۔ کبھی کبھی اسے اپنے آپ پر شرم آتی ہے۔ کئی بار اس نے سوچا کہ وہ غلط قدم اٹھا رہی ہے۔ راجیش اس کا شوہر ہے۔ وہ کتنا اچھا ہے۔ دوسری طرف میوری کے گھروالوں نے کتنے ارمانوں سے اس کی شادی کرائی تھی۔ میوری جانتی ہے کہ شادی کوئی کھیل نہیں۔ شادی میں سمجھوتے ضروری ہیں۔ ان چھ مہینوں میں اس نے لاکھ کوششیں کیں کہ وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو سنبھالے۔ پھر بھی اس کے دل میں ایک خلا ہے جو ناسور کی طرح اسے تڑپا رہا ہے۔ بہت سوچنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ کر اسے کبھی چین نہیں آئے گااور نہ ہی وہ راجیش کو خوش رکھ پائے گی۔ راجیش کا خیال آتے ہی میوری کا سر پھٹنے لگا۔ راجیش کتنا نیک دل ہے۔ اس نے کبھی میوری سے اونچی آواز می ©ں بات تک نہیں کی۔ میوری کو معلوم ہے کہ راجیش سب کچھ سمجھ گیا ہے۔ پھر بھی اس نے منہ سے اف تک نہیں نکالا۔ راجیش کتنا سیدھا سادہ ہے۔ وہ یہ صدمہ کیسے برداشت کر ے گا؟ میوری نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ وہ اپنے دل کے آگے اتنی مجبور ہو جائے گی۔
طعام خانے کا دروازہ کھلا اور اشوک داخل ہوا۔ پل بھر میں میوری کی تمام کشمکش رفو چکر ہو گئی۔ اشوک اس کے دل کے دھڑکنے کی وجہ ہے۔ اشوک کے سامنے سارے منطق فیل ہو جاتے ہیں۔ میوری اور اشوک پرائمری اسکول سے ایک دوسرے کو چاہتے تھے جب انہیں معلوم بھی نہ تھا کہ پیار کیا چیز ہے۔ میوری نے اپنا بچپن ، لڑکپن اور پھر جوانی اشوک کے ساتھ ہی گزاری۔ اشوک اس کا دوست ہے، اس کا ہمدرد ہے اور اس نے ہمیشہ اشوک کے ساتھ ہی باہمی زندگی کا خواب دیکھا تھا۔ یونیورسٹی میں راجیش کی ملاقات میوری سے ہوئی تھی اور راجیش پہلی نظر میں ہی اس پر فریفتہ ہو گیا تھا۔ میوری کو یہ بات معلوم تھی لیکن و ہ تو ہمیشہ سے اشوک کی تھی۔ ایک دن میوری نے راجیش کو یہ بات صاف صاف بتادی لیکن راجیش اتنا خوش اخلاق اور نیک لڑکاتھا کہ میوری نے اس سے دوستی برقرار رکھی۔
پچھلے سال اچانک اشوک غائب ہو گیا اور اپنی کوئی خبر نہیں دی۔ میوری بہت پریشان ہوئی۔ اس نے اشوک کے گھر جا کر پتہ کرایا تو
معلوم ہوا کہ اشوک ایک سال کے لئے جہاز پرنوکری کرنے کے لئے گیا ہے۔ میوری کو اشوک کی یہ حرکت کسی دھوکے سے کم نہیں لگی۔ ایک ہفتہ بعد اشوک نے اس کو پیغام بھیجاکہ وہ جہاز پر کام کر رہا ہے تاکہ وہ میوری کو ایک سنہرا مستقبل دے سکے۔ اشوک کو معلوم تھاکہ میوری اس کی روانگی پر کبھی ہامی نہیں بھرتی کیونکہ میوری ایک پل کے لئے بھی اس کی جدائی برداشت نہیں کر پاتی۔ میوری کو اتنا صدمہ پہنچا کہ اس نے اشوک سے رشتہ توڑ دیا۔ اس نے سوچا کہ آج اگر اشوک اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے تو وہ مستقبل میں بھی ایک بار پھر دھوکا دے سکتا ہے۔
کسی طرح راجیش کو یہ بات معلوم ہوئی اور اس نے اپنے والدین کے ذریعہ میوری کے گھر شادی کا رشتہ بھیجا۔ میوری کے گھر والوں نے اپنی بیٹی کو سمجھایا کہ راجیش سے شادی کرنے میں ہی سمجھداری ہے۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہی کافی ہوتا ہے۔ چنانچہ میوری راجیش کی ناﺅ میں سوار ہو گئی اور آخرکار شادی کے لئے راضی ہو گئی۔ ایک سال بعدجب اشوک موریشس واپس آیاتو میوری کی شادی ہو رہی تھی۔ اس نے شادی روکنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن میوری اپنے والدین کی عزت پر داغ لگانا نہیں چاہتی تھی۔ وہ معصوم راجیش کے ساتھ مذاق بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اشوک نے جہاز کی نوکری کے کمائے ہوئے پیسوں سے پےرے بیر کے سمندر کے کنارے ایک ٹکڑا زمین خریدا اور ایک بنگلہ بنوایا۔ اس بنگلے کے فرنیچر، پردے اور باقی سجاوت سب میوری کی پسند کا بنوائی۔ میوری اس کی رانی ہے اور یہ بنگلہ ان دونوں کے بچپن کا خواب ہے جو جہاز کی نوکری کے بغیر شرمندئہ تعبیر نہیں ہو پاتا۔
شادی کے اولین ایام میں میوری نے خود کو ازدواجی زندگی کے رنگ میں رنگنا چاہا مگر ناکام رہی۔ محبت کے آگے اس نے ہتھیار ڈال دئے۔
”آج تمہیں فیصلہ کرنا ہی پڑے گا۔” اشوک نے اصرار کیا۔“ میں نے بچپن سے ہی تمہیں دیوی ماں سے مانگ لیا تھا۔ تم میری ہو۔ یہ بات تم خوب جانتی ہو۔“
”میں راجیش کے جذبات کے ساتھ غلط کر رہی ہوں۔“
”ٹھیک ہے تو میں مر جاتا ہوں۔ وہ پتی ہے تمہارا۔ میں کچھ نہیں۔ تم میری زندگی ہو۔ تم نہیں تو یہ زندگی بھی نہیں۔“
”پاگلپن چھوڑو اشوک۔ تم جانتے ہو میرے دل پر صرف تمہارا اختیار ہے۔ میں نے آج تک راجیش کو مجھے چھونے تک نہیں دیا۔“
”تو چلو میرے ساتھ۔“اشوک نے تجسس بھرے لہجے میں کہا۔
”ایسے نہیں مجھے راجیش سے بات کرنی ہوگی۔“میوری نے فیصلہ کرتے ہوئے کہا۔
راجیش اندھیرے میں بیٹھا میوری کے لوٹنے کا انتظار کر رہا ہے۔ میوری نے چپکے سے دروازہ کھولا اور اس گھر میں داخل ہوئی جو اس کا ہوتے ہوئے بھی اس کانہیں لگ رہا ہے۔
“میں جا رہی ہوں راجیش۔ تمہارے دکھ کی وجہ میں ہوں۔ میں تمہیں خوشیاں نہیں دے سکتی کیونکہ میں خود یہاں خوش نہیں ہوں۔۔۔تم جیسے فرشتے کا دل توڑ کر مجھے افسوس ہے۔ ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔”
کچھ دیر ٹھہر کر میوری چلی جاتی ہے۔ راجیش کے سامنے اندھیرا ہے اور اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو جاری ہیں۔
(مصنفہ موریشش کی پہلی اردو ادیبہ اور مہاتما گاندھی سگنڈری اسکول میںاردو کی استاذ ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں