نیا زمانہ، نئی آواز، نئی شاعری

حسیب اعجاز عاشرؔ
جب تک نئے شعراء کرام کی حوصلہ افزائی و پذیرائی نہیں کیجائے گی ، ادب شناس اہل ذوق کے لئے نئا اندازِ فکر، نئی سوچ، نئے اسلوب کی رنگینی بحر ،نئے خیالات کی ندرت،نئے ترنمِ آفرینی ،نئی مہارت کیساتھ نئے تخلیقی رنگ و آہنگ،نئے ردیف و قافیے کی شگفتگی سے بُنی نئی شاعری کی نئی شادابی کسی صورت بھی میسر نہیں آسکتی ۔اِس حوالے سے ادبی تنظیم ’’ادارہ نئی شاعری‘‘ خراجِ تحسین کی مستحق ہے کہ جس نے ان نئے شعراء کی آواز کو سن بھی رہی ہے اور انکی آواز بن رہی ہے اوراِن کو ایسا مستقل پلیٹ فورم مہیا کرنے میں مکمل کامیاب ہوئی کہ جہاں نوجوان شعراء مکمل اعتماد و جذبے اور ذوق و شوق کے ساتھ اپنے جدت پسندانہ تازہ دم کلام میں زبان کی شوخی و شیرینی سے معصومانہ سچائی اور کھرے پن کا اظہار کر سکتے ہیں ۔
’’ادارہ نئی شاعری‘‘کے زیرِ اہتمام الحمرا کلچرل کمپلیکس،قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی(ابوظہبی) کی زیرِ صدارت پہلے کُل پاکستان نسلِ نو مشاعرہ کا انعقاد اِس سلسلے کا با قاعدہ آغاز ہے۔اِس تقریب کے مہمانانِ خصوصی میںآسمانِ ادب کے درخشندہ ستارے عباس تابش ،تیمور حسن تیمور، احمد رضا راجہ، ناصر ملک، ڈاکٹر قاسم شاہ اور ڈاکٹر بدر منیرسٹیج پے جلوہ آفروز تھے، جبکہ مہمانانِ اعزازی کی حثیت سے زعیم رشید، نوید صادق، سبطین رضا، زاہد حسین، ارشد مرزا، نعیم اللہ انمول،محمد ظہیر بدر اور ظہیر مشتاق رانا(کویت) کی شرکت محفل کے ادبی رونق کو چار چاند لگا رہے تھے۔نظامت کے فرائض وقاص عزیز کے ذمے تھے جو بڑی خوش اسلوبی سے نبھائے گئے۔
ادارہ نئی شاعری کے روح رواں وقاص عزیز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حلقہ شعروادب میں موجود روایتی گروہ بندیوں اور حدبندیوں سے نوجوان شاعرکو اپنے شعری سفر کو مشکلات کا سامنا ہے ۔نوے کی دہائی کے بعد غزل کو ئی نقاد نظر نہیں آیا،کوئی قابل ذکر تازہ کار اُبھر کر شاعر سامنے نہیں آیا،چند شخصیات کی لابی کے باعث جمود طاری ہے ۔اس پلیٹ فورم کا بنیادی مقصد یہ کہ ان شخصیات کی اجارہ داری ختم کی جائے، سنئیرز کی جانب سے جونیئرز کی حوصلہ شکنی کو روکا جائے تا کہ نئے چہرے نئے کلام کے ساتھ سامنے آئیں۔مجھے قوی امید ہے کہ یہ پلیٹ فورم نوجوان شاعروں میں جذبے اور ہمت کی نئی روح پھونکے گا اور اچھی سے اچھی شاعری تخلیق پائے گی اور اِس تقریب سے دنیائے ادب میں نسل نو مشاعروں کا آغاز بھی ہو گا۔
اس ’’پہلا کُل پاکستان نسلِ نو مشاعرہ‘‘میں نوجوان شعراء کی ایک کہکشاں موجود تھی جن میں ضیاء افروز، تہذیب حسین، اوصاف باسط، خیال ثناء، شبیر احرام، عمار اقبال، اسامہ امیر، ساحل بخاری، کاشف کاظمی، نبیل حسین نبیل، سید علی سلمان، اسد بٹ، زبیر فاروق، محمود ناصر، عزیز طارق، تنزیل الرحمان، افتخار اشعر، عدنان محسن، محمد عامر، ریحان بشیر، حسن ظہیر راجہ، عقیل عباس، فیاض اسود، اختر منیر، ڈاکٹر وقار خان، ارشد عباس زکی، منیر سیف، شاہجہاں سالف، عدنان سرمد، عادل بادشاہ، اسد علی باقی، آغر ندیم سحر، زبیر عباس، نادر صدیقی، حمزہ ہاشمی، تیمور علی ، قمرعباس، ساجد رضا، حارث جاوید، سعید شارق، شاکرخان، خاور اسدعلی، وقار شیخ، انعام کبیر، خرم آفاق، نادر عباسی، عدنان آصف بھٹہ، فیضان ہاشمی، عقیل ملک، مشتاق احمد، ہمایوں خان، احسن شہزادہ، احسن شہزاد، سید عقیل شاہ، کمبل عباس اشتر، ہمایوں خان، مبشر علی، سمعیہ نذیر، زیب النسا واثق، وسیم تاشف عادل حسین، تجدید قیصر شامل تھے۔
نوجوان شاعروں نے اپنے اپنے مزاج کے خاص ذوق،نہج اور نظریے کی خوب ترجمانی کی۔کسی شاعرکے لب و لہجے میں تلخی تھی تو کسی کے نرمی بھی کسی کے لہجے میں گھن گھرج تھی تو کسی کا لہجہ دھیمہ بھی کسی آواز میں حلاوت تھی تو کسی میں کرواہٹ بھی،کسی میں روانی تو کسی میں سلاست بھی اور بے ساختگی بھی ۔۔دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو کسی میں میر کا سوز، کسی میں مظہر کی زبان آوری، کسی میں حالی کی لطافت،کسی میں اقبال کی گہرائی،کسی میں جگر کی روانی،کسی میں فراز کی دلربائی، کسی میں حسرت کی عام فہمی ،کسی میں جالب کا انقلاب اور کسی میں داغ کی وسعت باذوق سامعین کو حیرت زدہ کر رہی تھی ۔کلام میں پختگی اور جدت پسندی فروغِ شعرو ادب کے روشن مستقبل کی نوید سنا رہی تھیں،سامعین نوجوان شاعروں کے چونکا دینے والے معیاری کلام میں بے خودی، نشاط کی لطافت، مشاہدہ ،مجاہدہ ،تہذیب ،ثقافتی تغیرات ،خوش رنگی، خوش بیانی،زینتِ زنداں، نظارہِ عہد، رسمِ زندگی، برگِ آوارہ، لطف و معنویت، کمالِ دلربائی سن کر عش عش کر اُٹھے اور تالیوں کی گونج اور بے ساختہ ’’واہ،واہ‘‘ ،’’سبحان اللہ‘‘ سے پسندیدگی کی سند پیش کرتے رہے۔
مقررین نے اپنے اظہار خیال میں کہا امید ہے کہ ایسے مشاعروں کا سلسلہ برقرار رہے گا تا کہ نسلِ نو میں ترویجِ ادب کا رحجان فروغ پا سکے اور یہ معاشرے کی تعمیر اور ثقافت کے تحفظ ،اخلاقی قدروں کی پاسداری، اصلاحِ سماج میں پوری ذمہ داری کیساتھ اپنے اپنے دائرہ کارمیں شعروادب کے ذریعے اپنا پُرخلوص حصہ ڈال سکیں ۔اِس موقع پر نوجوان شعراء کی تازہ دم نئی تخلیقات کی سماعت کے بعد صدرِمحفل جناب صباحت عاصم واسطی نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے شعر’’عاصم خیال ایک سے لہجے ملے جلے شہر سخن میں اس لئے بیزار میں ہوا‘‘ کو اپنی بیاض سے نکال دینے کا اعلان بھی کیا۔تقریب کے اختتام پر ادارہ نئی شاعری کے روح رواں وقاص عزیز نے کچھ اعلانات بھی کئے۔۔ کہ دوسرا نسل نو مشاعرہ اگلے ماہ اسلام آباد کے قرب میں ہوگا، نئے شعراء کی منتخب غزلوں پر مشتمل کی کتاب بھی جلد منظرعام پر آ جائیگی، ایوارڈ کے حوالے سے تیس سال تک کی عمر کے شعراء کے چھپنے والی کتب کے جائزے کے بعد ایک لاکھ روپے نقد رقم اور دیگر کو تحائف سے بھی نوازا جائیگا۔سہ ماہی نئی شاعری کا پہلا شمارہ کی اگست میں ان شاء اللہ تعالی اشاعت ہو جائیگی۔
مشاعرہ نسلِ نو سے قبل منفرد لب و لہجے اور نئی نسل کے نمائندہ شاعر احمد خیال کے دوسرے شعری مجموعہ ’’ستاروں سے بھرے باغات‘‘ کی تقریب پذیرائی کا انعقادبھی ہوا۔’’ستاروں سے بھرے باغات‘‘ کے مطالعے سے احمد خیال کی فنی ہنرمندیوں کے کئی چھپے ہوئے اندازو پہلو بے نقاب ہوتے ہیں ۔احمد خیال ایک خاص سرچشمے سے کسبِ فیض کرتے ہیں اور اسی سرچشمہ کو مستقبل کی شاعری اور ادب کا آدرش سمجھتے ہیں۔کم عمری ہی میں ان میں خیال اور تجربے کی گہرائی قاری کوبے حد متاثر کرتی ہے۔زندگی کے ہر پہلو اور اس کی حقیقتوں پر انکی گہری نظر ہے۔ان میں جستجو، لگن اور سیکھنے کی خواہش بہت واضح اور متاثر کن ہے۔خیال کے ہاں احساسات کا ظہور ہی ان کے جذبہ و احساس کی وسعتوں کی روشن بشارت ہے۔انکی غزلیں ایمائیت سے عبارت ہیں۔انکے کلام میں گہرے احساس والے تخلیق کار کا تخلیقی بہاؤ بھی خوب ملتا ہے جس میں محبت کی سرسراہٹ اور روشنی کی آہٹ قارئین کو اپنے حصار میں جکڑ لیتی ہے۔
سعود عثمانی ’’ستاروں سے بھرے باغات‘‘ پر اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں کہ احمد خیال اپنی ناشکیب نگاہ اور امیدوار دل کیساتھ خیال و خواب کی دنیا میں محو ہے اس دنیاکی نیرنگیاں اسے خود سے دور جانے ہی نہیں دیتی،کم عمری میں کئی ایسے شعر اور مصرعے ملے ہیں جو خوش بختی اور ریاضت کے باہمی ملاپ سے ملتے ہیں۔عطاء الحق قاسمی لکھتے ہیں احمد خیال کی شاعری میں تازگی اور نیا پن ہے وہ چمکتا ہوا مصرعہ کہتا ہے اور شعر کو شعر بنانے کے ہنر سے آشنا ہے احمد خیال کی غزل عام قاری کو ہی نہیں بلکہ ثقہ بند ادیبوں کو بھی اپنی گرفت میں لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔امجد اسلام امجد کچھ یوں لکھتے ہیں کہ احمد خیال کی غزل میں گزرے ہوئے کل کے استعاروں اور کنایوں کے ساتھ ساتھ عصرِ حاضر میں سوچنے اور محسوس کرنے والے دل و دماغ کے سوالات اور تاثرات بھی ہیں ۔
غلام حسین ساجد کی زیرِ صدارت اس اِس تقریب میں نذیر قیصرنے بحثیت مہمانِ خصوصی اور حسین مجروع نے مہمان اعزازی کی حثیت سے شرکت کی ۔اظہار خیال کرتے ہوئے غلام حسین ساجد، علی اصغر عباس،حسین مجروع،حسن عباسی، ڈاکٹر بدرمنیر، نوید صادق اور احمد حماد نے احمد خیال کو ’’ستاروں سے بھرے باغات‘‘ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کی، اوراسے شعروادب میں ایک حسین اضافہ بھی قرار دیا۔نظامت نیوز اینکر، نامور نوجوان شاعر وقاض عزیز نے باحسن خوبی سرانجام دیئے۔شعروادب کے پرستاروں کی کثیر تعداد سے ہال کچھا کھچ بھرا ہوا تھاجوشعراء کرام کے کلام کو بڑے انہماک سے سنتے رہے اور ہر اچھے شعر پر دل کھول کر داد و تحسین پیش کرتے رہے۔احمد خیال کی مجموعہ کلام سے ایک منتخب غزل کے چند اشعار اہل ذوق قارئین کی نذر۔۔کمال حسنِ تخلیل ملاحظہ کیجئے۔۔
دریا میں دشت، دشت میں دریا سراب ہے
اس پوری کائنات میں کتنا سراب ہے
روزانہ اک فقیر لگاتا ہے یہ صدا
دنیا سراب ہے ارے دنیا سراب ہے
موسی نے ایک خواب حقیقت بنا دیا
ویسے تو گہرے پانی میں رستہ سراب ہے
کھلتا نہیں ہے ریت ہے پانی کہ اور کچھ
میری نظر کے سامنے پہلا سراب ہے
(ملت ٹائمز)
( مضمون نگار صحافی ،ادیب اور اردو یونیورسل پوسٹ کے ایڈیٹر ہیں )