جشن اظہر عنایتی و عالمی مشاعرہ 2020 زیر اہتمام کاروان اردو قطر

16/جنوری ۲۰۲۰ کی شب کاروان اردو قطر نے جناب اظہر عنایتی صاحب کے اعزاز میں اپنا چوتھا عالمی مشاعرہ منعقد کیا ۔ کاروان نے اپنے عالمی مشاعروں اور ممتاز ہندوستانی شعرا کے جشن منانے کا سلسلہ 2017 میں جناب منور رانا صاحب کے جشن سے شروع کیا تھا، اس سے اگلے برس (2018) میں جشن راحت اندوری اور 2019 میں جشن شہپر رسول کا انعقاد کیا گیا۔ 2020 کاعالمی مشاعرہ جشن اظہر عنایتی کے عنوان سے منعقد کر کے کاروان نے اس سلسلہ کو ثابت قدمی اور تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کا واضح اشارہ دیا ہے۔

ہندوستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر کاروان کے متعدد خیرخواہوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ امسال کا مشاعرہ منسوخ کردیا جائے، کاروان کی مجلس انتظامیہ میں بھی اس موضوع پر اختلاف رائے موجود تھا، لیکن بہت غور و خوض اور طویل بحث و مشاورت کے بعد بالآخر یہی فیصلہ کیا گیا کہ روایت کا تسلسل جاری رکھا جائے اور اس موقع کو بھی ان آوازوں کی تقویت کے لئے استعمال کیا جائے جو ہندوستانی حکومت کے غرور اور جبر و تکبر کے خلاف ہندوستان کے کونے کونے سے بلند ہو رہی ہیں، چنانچہ جو لوگ آڈیٹوریم میں موجود تھے وہ یقینا اس بات کی گواہی دیں گے کہ از اول تا آخر مشاعرہ کے تفریحی رنگ پر احتجاجی رنگ غالب رہا اور ایک لمحہ کے لئے بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ بیرون وطن بسنے والے ہندوستانیوں کے جذبات اپنے ان بہن بھائیوں سے مختلف ہیں جو ہندوستان کے مختلف شہروں میں احتجاج کا علم بلند کئے ہوئے ہیں اور تمام ہندوستانیوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔

اظہر عنایتی ، جن کے اعزاز میں یہ عالمی مشاعرہ منعقد ہوا، اردو دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔وہ منفرد لب و لہجہ کے ایک ایسے شاعر ہیں جو تقریبا نصف صدی سے گیسوئے اردو کی مشاطگی میں مصروف ہیں ، بنیادی طور پر آپ غزل کے شاعر ہیں اور کلام میں کلاسیکیت اور عصریت اس طرح ہم آمیز ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کے کئے شعری مجموعے منظر عام پر آکر اردو دنیا کے ادبی حلقوں سے داد و تحسین وصول کر چکے ہیں ، کتنے ہی ادبی اعزازات اور انعامات سے آپ کو نوازا جا چکا ہے ، ہندوستان کے علاوہ بیرون ہند منعقد ہونے والے مشاعروں میں بھی آپ بار بار ہندوستان کی کامیاب نمائندگی کر چکے ہیں ۔ 1966 میں آپ نے وکالت (LLB) کا امتحان پاس کرکے اپنے وطن رامپور میں ہی قانونی پریکٹس کا آغاز کیا تھا، لیکن وکالت کے پیشہ سے مزاجی مناسبت نہ ہونے کے سبب چند سالوں میں ہی اسے خدا حافظ کہہ دیا اور کل وقتی شاعر بن گئے ۔ تب سے آج تک اظہر عنایتی ہیں اور شعرو شاعری ومشاعرے۔

اظہر عنایتی کے مضامین شعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ ملکی منظرنامے کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے عالمی منظرنامہ پر بھی ان کی گہری نظر ہے ۔ اور اس تناظر میں سیاسی ، تہذیبی، اخلاقی اور تجارتی حوالوں سے جو تغیرات برپا ہو رہے ہیں انہیں آپ نے بڑے خوبصورت انداز میں اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

وہ جلتا گھر ہے مجھ سے دور لیکن دھواں آنکھوں میں بھرتا جارہا ہے

اب کوئی شہر اجڑتا ہے تو یہ لگتا ہے جیسے اس شہر کو آباد کیا تھا میں نے

یہ رات اپنے جرائم کے واسطے کم ہے اب آفتاب کو دن میں غروب کرنا ہے

صاحب جشن محترم اظہر عنایتی کے علاوہ جن دوسرے شعرا اور شاعرات نے اس مشاعرہ کی رونق میں اضافہ کیا ان کے نام کچھ اس طرح ہیں : جوہر کانپوری، ڈاکٹر چندر کمار جین، ڈاکٹر کمار وشواس، عتیق انظر، عزیز نبیل، ملکہ نسیم، شبینہ ادیب، ڈاکٹر ندیم شاد، احمد جمال، ، راشد عالم راشد، وصی الحق وصی، مشفق رضا نقوی ۔

’ ڈی پی ایس ماڈرن انڈین اسکول ‘ کے پرشکوہ اور وسیع آڈیٹوریم میں شام ساڑھے آٹھ بجے سے شروع ہو کر رات دو بجے تک جاری رہنے والی اس پروقار تقریب کی صدارت صاحب جشن محترم اظہر عنایتی صاحب نے فرمائی، مشاعرہ کی نظامت اپنے البیلے اور دلکش انداز میں ڈاکٹر کمار وشواس نے کی، اس سے پہلے تقریب کے نثری حصہ کی نظامت کاروان اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب محمد شاہد خاں نے کی، انہوں نے اپنی تمہیدی گفتگو اور شعرا کے تعارف میں پیش کئے گئے اشعار سے تقریب کو ایک احتجاجی رنگ دینے کی کوشش کی جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔

تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد کاروان اردو قطر کے چیرمین جناب عظیم عباس نے خطبہ استقبالیہ پیش فرمایا اور شعراء کرام نیز معزز مہمانوں کی خدمت میں گلدستے پیش کرکے ان کا روایتی استقبال کیا ۔

کاروان کے سابقہ مشاعروں کے بالمقابل اس مشاعرہ کی ایک خصوصیت یہ بھی رہی کہ اس میں ہندی کی نمائندگی ڈاکٹر چندر کمار جین اور ڈاکٹر کمار وشواس نے کی، بلکہ ثانی الذکر نے تو مشاعرہ کی کامیاب نظامت بھی کی، اس طرح اس مشاعرہ میں کوی سمیلن بھی داخل ہو گیا ،اور بر صغیر کی گنگا جمنی تہذیب کا خوبصورت مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ اورغالبا یہی وجہ رہی ہوگی کہ شائقین اردو کے ساتھ ساتھ ہندی سننے والوں کی قابل لحاظ تعداد بھی آڈیٹوریم میں موجود تھی۔

 اس تقریب میں انڈین ایمبیسی دوحہ کے فرسٹ سکریٹری جناب ایس آر ایچ فہمی مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے ، جبکہ لولو ہائپر مارکیٹ کے ڈائریکٹر جناب محمد الطاف نے مہمان اعزازی کی حیثیت سے شرکت فرمائی ۔

صاحب جشن جناب اظہر عنایتی کی شعری و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی خدمت میں حاصل حیات ایوارڈ اور ایک لاکھ روپئے کا چیک پیش کیا گیا، اسی کے ساتھ دوحہ کے مشہور بزنس مین اور سماجی خدمت گزار جناب ثناء اللہ عبدالرحمن کو بھی ان کی سماجی اور ثقافتی خدمات کے اعتراف میں حاصل حیات ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے بعد کاروان اردو قطر کی سالانہ میگزین کی رسم رونمائی عمل میں آئی۔

کاروان اردو قطر کے اہم رکن ڈاکٹر محمد شکیل نے صاحب جشن جناب اظہر عنایتی کی حیات اور خدمات پرایک تعارفی خاکہ پیش فرمایا ، اور کاروان اردو قطر کے میڈیا سکریٹری ڈاکٹرنشاط احمد صدیقی نے جناب ثناء اللہ عبدالرحمن صاحب کے تعارف میں ایک مختصر تحریر پیش کی۔

جو شائقین اردو اس تقریب میں شریک نہیں ہو سکے ان کی ضیافت طبع کے لئے مشاعرہ میں پسند کئے گئے کلام کا انتخاب حاضر ہے، جو خواتین و حضرات مشاعرہ میں موجود تھے امید ہے انہیں بھی قند مکرر کا لطف آئے گا۔

(1) اظہر عنایتی، دبستان رامپور کے اہم شاعر ، محشر عنایتی کے شاگرد:

آئینے سے پوچھ لیجے لمس میرے نام کا

آپ کے ہونٹوں کا کتنا رنگ گہرا کر گیا

اجالا دشت جنوں میں بڑھانا پڑتا ہے

کبھی کبھی ہمیں خیمہ جلانا پڑتا ہے

یہ مسخروں کو وظیفے یوں ہی نہیں ملتے

رئیس خود نہیں ہنستے ہنسانا پڑتا ہے

بڑی عجیب یہ مجبوریاں سماج کی ہیں

منافقوں سے تعلق نبھانا پڑتا ہے

شکستگی میں بھی کیا شان ہے عمارت کی

کہ دیکھنے کو اسے سر اٹھانا پڑتا ہے

بلند ہوتا ہے انسان سر جھکا کے مگر

خلاف ظلم کبھی سر اٹھانا پڑتا ہے

کسی کے عیب چھپانا ثواب ہے لیکن

کبھی کبھی کوئی پردہ اٹھانا پڑتا ہے

غزل کا شعر تو ہوتا ہے بس کسی کے لیے

مگر ستم ہے کہ سب کو سنانا پڑتا ہے

اب یہ معیار شہریاری ہے

کون کتنا بڑا مداری ہے

ہم نے روشن چراغ کر تو دیا

اب ہواؤں کی ذمہ داری ہے

صرف باہر نہیں محاذ کھلا

میرے اندر بھی جنگ جاری ہے

ہم اندھیرے میں ہیں مگر دیکھو

دور تک روشنی ہماری ہے

عمر بھر سر بلند رکھتا ہے

یہ جو اندازِ انکساری ہے

مٹ رہی ہے یہاں زبان و غزل

اور غالب کا جشن جاری ہے

(2) جوہر کانپوری:

رہ عاشقی سے ہٹایا گیا ہوں

میں ہارا نہیں ہوں ہرایا گیا ہوں

مجھے فیصلہ آپ کیوں کہہ رہے ہیں

میں اک حکم ہوں جو سنایا گیا ہوں

جو راستہ دکھائے وہ مینار چاہئے

ہم ایسی قوم ہیں جسے سردار چاہئے

پہلے یہ تھا کہ طے کرو دستار یا کہ سر

اب اس کو سر کے ساتھ ہی دستار چاہئے

حویلی جھونپڑی سب کا مقدر پھوٹ جائے گا

اگر یہ ساتھ ہندو مسلموں کا چھوٹ جائے گا

دعا کیجے کہ ہم میں پیار کے رشتے رہیں قائم

یہ رشتے ٹوٹ جائیں گے تو بھارت ٹوٹ جائے گا

(3) ڈاکٹر چندر کمار جین،چھتیس گڑھ:

اندھیرا چاہے جتنا گھنا ہو

پہاڑ چاہے جتنا تنا ہو

ایک لو یدی لگ جائے

ایک قدم یدی اٹھ جائے

کم ہوجاتا ہے اندھیرے کا اثر

جھک جاتی ہے پہاڑ کی بھی نظر

اندھیرا تو روشنی کی رہنمائی ہے

پہاڑ تو ریت کی پرچھائی ہے

(4) ڈاکٹر کمار وشواس، نئی دہلی:

ایشیا کے ہم پرندے ، آسماں ہے حد ہماری

جانتے ہیں چاند سورج ، ضد ہماری زد ہماری

ہم وہی جس نے سمندر کی لہر پر باندھ سادھا

ہم وہی جن کے لئے دن رات کی اپجی نہ بادھا

ہم کہ جو دھرتی کو ماتا مان کر سمان دیتے

ہم کہ جو چلنے سے پہلے منزلیں پہچان لیتے

ہم وہی جو شونیہ میں ہی شونیہ رچتے ہیں نرنتر

ہم وہی جو روشنی رکھتے ہیں سب کی چوکھٹوں پر

ان اجالوں کا یہی پیغام لے آئے ہیں ہم

ہم ہیں دیسی ، ہاں مگر ہر دیش میں چھائے ہیں ہم

زندہ رہنے کا اصل انداز سکھلایا ہے ہم نے

زندگی ہے زندگی کے بعد سمجھایا ہے ہم نے

ہم نے بتلایا کہ قدرت کا اصل انداز کیا ہے

مہک کیا ہے ، رنگ کیا ہے، روپ کیا ہے، سواد کیا ہے

ہم نے دنیا میں محبت کا اثر زندہ کیا ہے

ہم نے دشمن کو گلے مل مل کے شرمندہ کیا ہے

ان ترقی کے خداؤں نے تو گھر کو ڈر بنایا

ان بڑے خالی مکانوں کو ہمیں نے گھر بنایا

ہم نہ آتے تو ترقی اس قدر نہ بول پاتی

ہم نہ آتے تو یہ دنیا کھڑکیاں نہ کھول پاتی

ہیں یشودھا کے یہاں پر دیوکی جائے ہیں ہم

ہم ہیں دیسی ، ہاں مگر ہر دیش میں چھائے ہیں ہم

(5) اسد اجمیری ، ممبئی سے :

سب مہنگا ہے میں کچھ سستا پیش کروں

ٹوٹے دل کا کوئی ٹکڑا پیش کروں

ساتھ مرے کچھ غم رہتے ہیں برسوں سے

حکم ہوا ہے خود کو تنہا پیش کروں

گھر پچھلی بارش میں نذر آب ہوا

آنکھوں میں ہے گھر کا نقشہ پیش کروں

اب فرہاد کے قصہ میں وہ لطف کہاں

آپ کہیں تو اپنا قصہ پیش کروں

حد نظر تک جلتا تپتا صحرا ہے

پیاس اسد کہتی ہے دریا پیش کروں

(6) عتیق انظر ، دوحہ قطر :

جو فن سے نابلد ہیں ان کو فنکاری دکھاتا ہے

وہ آدی باسیوں میں اپنی سرداری دکھاتا ہے

وہی جو آگے آگے تھا مری کشتی ڈبونے میں

وہی ساحل پہ سب سے پہلے غمخواری دکھاتا ہے

ابھی تم اس کے بارے میں نہ کوئی فیصلہ کرنا

وہ پہلی بار تو سب سے وفاداری دکھاتا ہے

ایک نظم موب لنچنگ کے حوالہ سے، عنوان ہے ‘جنگل کا کھیل’

لوگ سنسان جنگل میں ہانکا لگا کر

ہرن کو نشانے کی جانب بھگاتے

شکاری نشانہ لگائے ہوے گھات میں بیٹھا ہوتا

ہرن چوکڑی بھرتا جس وقت

اس کے نشانے پہ آتا

شکاری اسی وقت گھوڑا دباتا

وہ سنسان جنگل

خطرناک بندوق کی انتہائی گرج دار آواز سے

کانپ جاتا

پرندے سبھی شور کرتے ہوے

گھونسلے چھوڑ دیتے

ہرن گولی کھا کر زمیں پر تڑپتا

شکاری اور ہانکا لگانے کے ماہر

سبھی مل کے جنگل میں منگل مناتے

یہ جنگل کاکھیل

اب ہمارے مہذب سماجوں میں ہونے لگا

آدمی آج پھر جنگلی اور حیوان ہونے لگا

(7) عزیز نبیل ، دوحہ قطر :

خاموشی ٹوٹے گی آواز کا پتھر بھی تو ہو

جس قدر شور ہے اندر کبھی باہر بھی تو ہو

بزدلوں سے میں کوئی معرکہ جیتوں بھی تو کیا

کوئی لشکر مری ہمت کے برابر بھی تو ہو

بجھ چکے راستے سناٹا ہوا رات ڈھلی

لوٹ کر ہم بھی چلے جائیں مگر گھر بھی تو ہو

بکھر رہا ہے مرا انگ انگ عالی جاہ

چھڑی ہوئی ہے اصولوں کی جنگ عالی جاہ

چراغ لے کے مقابل ہوا ہوں آندھی کے

اتارنا ہے ہواؤں سے زنگ عالی جاہ

منافقین کے نیزے جگر میں اترے ہیں

ہمارا لہجہ ہے پھر بھی دبنگ عالی جاہ

(8) ملکہ نسیم ، الہ آباد:

تم کو پلکوں پہ بٹھایا ہے اگر

کیا ضروری ہے خدا ہو جاؤ

ہم کو پنجرے کی اسیری دے کر

خود اڑو اور ہوا ہو جاؤ

مسیحائی نہ پھر چارہ گری نے

کیا رسوا تو پلکوں کی نمی نے

اجالے پھر ضرورت ہیں کسی کی

ردائیں پھینک دیں تیرہ شبی نے

ہوا لائی ہے وہ انجان نغمہ

جسے گایا تھا کل اک اجنبی نے

بکھیرے ہیں مرے آنچل پہ آنسو

تری چھوٹی سی اک ناراضگی نے

ہمارے راز افشاں کر دیے ہیں

ہماری اک پرانی ڈائری نے

نسیم آنکھوں سے خوابوں کو جھٹک دو

اذان فجر دی ہے مولوی نے

(9) شبینہ ادیب ، کانپور سے:

اندھیروں کی ہر اک سازش یہاں ناکام ہو جائے

اجالے ہر طرف ہوں روشنی کا نام ہو جائے

مری کوشش تو نفرت کو دلوں سے دور کرنا ہے

مرا مقصد ہے دنیا میں محبت عام ہو جائے

خموش لب ہیں جھکی ہیں پلکیں، دلوں میں اُلفت نئی نئی ہے

ابھی تکلف ہے گفتگو میں، ابھی محبت نئی نئی ہے

ابھی نہ آئے گی نیند تم کو، ابھی نہ ہمکو سکوں ملے گا

ابھی تو دھڑکے گا دل زیادہ، ابھی یہ چاہت نئی نئی ہے

جو خاندانی رئیس ہیں وہ مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا

تمہارا لہجہ بتا رہا ہے تمہاری دولت نئی نئی ہے

ذرا سا قدرت نے کیا نوازا، کہ آ کے بیٹھے ہو پہلی صف میں

ابھی سے اڑنے لگے ہوا میں، ابھی تو شہرت نئی نئی ہے

بموں کی برسات ہو رہی ہے،پُرانے جانباز سو رہے ہیں

غلام دُنیا کو کر رہاہے، وہ جس کی طاقت نئی نئی ہے

ابھی میں کیسے کہوں شبینہ ، وفا نبھائیں گے وہ ہمیشہ

کہ مرے دل کی زمیں پہ ان کی ابھی حکومت نئی نئی ہے

(10) ڈاکٹر ندیم شاد ، دیوبند سے :

کبھی بھی باخدا یہ سانحہ ہونے نہیں دیں گے

ہم اپنےجیتے جی تجھ کو خدا ہونے نہیں دیں گے

دئے روشن کریں گے اور منڈیروں پہ بھی رکھیں گے

اور اس پہ یہ ہےکہ تجھ کو ہوا ہونے نہیں دیں گے

چراغو تم اگر بجھ بھی گئے وعدہ ہے ہم جگنو

اندھیروں کا جہاں میں دبدبہ ہونے نہیں دیں گے

سو تم ہو اور کسی کے بتا دیا تم نے

جو ہم سے عہد کیا تھا بھلا دیا تم نے

نہ خوشبوؤں سے محبت نہ عشق رنگوں سے

یہ کس کے ہاتھ میں گلشن تھما دیا تم نے

ہماری سوچ کو کیسے چڑھاؤ گے سولی

چلو زباں پہ تو پہرہ لگا دیا تم نے

تمہیں خبر ہی نہیں تھی چبھیں گے آنکھوں میں

وہ جن کو خاک سمجھ کر اڑا دیا تم نے

(11) احمد جمال ، لکھنؤ سے :

  اتنی سی بات پر ہی وہ اترا گئی تھیں بس

زلفیں ہوا کے زور سے بل کھا گئی تھیں بس

تم سے بچھڑنا دیکھ کے اک عمر تک نہ سوئیں

آنکھیں تمہارے خواب سے گھبرا گئی تھیں بس

اب کیا بتائیں ہم تمہیں کل شب کی داستاں

کل شب ہمارے خواب میں تم آگئی تھیں بس

مر کر بھی ماں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہیں

بیٹوں کے انتظار میں پتھرا گئی تھیں بس

پھر یوں ہوا کہ ظلم کی سانسیں اکھڑ گئیں

آہیں ہماری عرش سے ٹکرا گئی تھیں بس

یہ جو دھواں دھواں سی ہیں لاشیں ہواؤں کی

اک شب مرے چراغ سے ٹکرا گئی تھیں بس

(12) ڈاکٹر راشد عالم راشد، دوحہ قطر:

میں سنا گیا کسی اور سے میں کہا گیا کہیں اور کا

تیری زہر سے بھری گفتگو ترا فلفسہ کہیں اور کا

اسی گھر میں ہم ہوئے ہیں جمع یہیں دفن ہم یہیں تربتیں

جو ثبوت ہم سے ہے مانگتا وہ ہے بے وفا کہیں اور کا

مرا حوصلہ مری راہ میں مری منزلیں ہیں نگاہ میں

ترے راستے میں ہیں ظلمتیں ترا راستہ کہیں اور کا

ترے پاس شہرت و نام ہے ترے ہاتھ نظم و نظام ہے

تو ہے دردو غم سے نا آشنا تو ہے ناخدا کہیں اور کا

ذرا سن تو میری اے راہبر تو ہے کارواں سے ہی بے خبر

تجھے کارواں سے غرض نہیں تو ہے رہ نما کہیں اور کا

مجھے پیار اپنی زمیں سے ہے مرا مسئلہ بھی یہیں کا ہے

مرے مسئلہ میں خموش تو کہ یہ مسئلہ کہیں اور کا

(13) ڈاکٹر وصی بستوی، دوحہ قطر:

تیری آنکھوں نے جزیرے جو بنائے ہوئے ہیں

ہم انھیں موجِ حوادث سے بچائے ہوئے ہیں

میرے ہی نام سے منسوب کہانی ہوگی

سارے کردار مرے خوں میں نہائے ہوئے ہیں

یہ پرندے جو دمِ صبح کہیں نکلے ہیں

گھونسلے اپنے پروں پر ہی اٹھائے ہوئے ہیں

گردشِ وقت ٹھہر تجھ سے بھی نپٹیں گے ابھی

ابھی طوفان سے ہم آنکھ ملائے ہوئے ہیں

اس جہاں میں بھی جو رسوا ہوں تو حیرت کیا ہے

ہم ہیں وہ لوگ جو جنت سے بھگائے ہوئے ہیں .

سیکھ لو ہم سے زمیں نرم بنانے کا ہنر

ہم نے صحراؤں میں بھی پھول کھلائے ہوئے ہیں .

(14) مشفق رضا نقوی، دوحہ قطر:

جو بے زبان ہیں ان کو زبان دوں گا میں

ہیں بے امان جو ان کو امان دوں گا میں

جنم لیا جو کبھی کبھی یقین محکم نے

تو اس کے کان میں پہلی اذان دوں گا میں

یہ آگ حرص و ہوس کی نہ راکھ کر دے کہیں

سو صحن یار کو اک سائبان دوں گا میں

زمین دل پہ محبت کی بارشیں مولا

ہری بھری ہوں یہ فصلیں لگان دوں گا میں

پروں کے ہوتے ہوئے بھی جو اڑ نہیں سکتے

مرا یہ وعدہ ہے ان کو اڑان دوں گا میں

نہی ہے جرات اظہار بھی یہاں جن کو

میں حوصلہ انہیں دوں گا زبان دوں گا میں

یقیں ہے شرط رضا یہ خدا کا وعدہ ہے

زمین دوں گا تجھے آسمان دوں گا میں