ایک پیغام ذمہ داران مدارس کے نام


سراج الدین قاسمی
السلام علیکم   ۔  ۔
رمضان المبارک گزر گیا، عید کی تعطیلات بھی ختم ہونے کو ہیں ،مدارس تقریبا کھل ہی چکے ہیں، آپ (اہل مدارس )تعلیمی آغاز کی سرگرمیوں میں مصروف ہوچکے ہیں ۔ہر کسی کی سوچ ہے کہ ترقی ہو ۔یہ سوچ تو اچھی اور بہت ہی اچھی سوچ ہے ۔
مگر ۔۔۔۔۔۔
ترقی کا مطلب کیا ہے؟
شاید یہ کہ ۔۔۔۔۔
ابھی تک مکتب میں صرف ناظرہ تک تعلیم تھی ،تو اب حفظ کا آغاز کیا جائے ۔
ابھی تک ہمارے مدرسہ میں حفظ تک تعلیم تھی تو ،تجوید کا شعبہ اور قائم کیا جائے ۔
ابھی تک ایک درجہ تھا اب دو درجے کئے جائیں ۔
ابھی تک صرف حفظ ہی حفظ کی تعلیم ہے ،اب عربی فارسی بھی شروع کی جائے ۔
ابھی تک دو ہی جماعتیں چلتی آرہی ہیں، اب چہارم تک تعلیم ہونی چاہیے ۔
اسی طرح ارباب مدارس کی سوچ ترقی کے مراحل کے خواب دیکھتی رہتی ہے ،جس کو فی نفسہ غلط سوچ نہیں کہہ سکتے ۔
لیکن ہو یہ رہا ہے کہ مدارس میں ترقی کے نام پر عزیز طلبہ کی زندگی کا ایک اچھا خاصا حصہ ضائع ہورہا ہے ۔
طالب علم خواہ کتنا ہی بڑا ہو، ناقص العقل ہوتا ہے، اس کو جیسے پڑھایا جائے (بلکہ یوں کہا جائے تو مناسب ہوگا کہ اس کو جیسے بہکا یا جائے وہ بہک جاتا ہے)بس شرط یہ ہے کہ اسکو آزادی دیدی جائے، اس پر ڈانٹ ڈپٹ اور غلط باتوں پر سختی نہ کی جائے ۔
ایک اچھے خاصے مدرسہ میں پڑھتے پڑھائے بچے کو ،اپنے یہاں درجہ بندی کرنے کے لئے وہاں کی پچاس خامیاں تلاش، بلکہ تراش کر اور اپنے یہاں کے ہزاروں، ہرے بھرے خواب دکھلا کر، اپنے یہاں داخل کر بیٹھتے ہیں ۔اور اس کام کی ذمہ داری مہتمم صاحب کم، اورمدرسین زیادہ نبھاتے ہیں ۔
سال دوسال یوں ہی گزر جاتے ہیں اور کچھ نہیں ہوتا ۔اب طالبعلم کچھ شعور وادراک کا حامل ہوتا ہے، تو وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے اور یہی طالبعلم اپنی تعلیم ترک کر بیٹھتا ہے ۔
اور جس نے بہت اچھے سپنے دکھائے تھے آج یہ بچہ اسی کو گالیاں دیتا ہے ۔
ہاں ۔۔۔ یہ حقیقت ہے حقیقت ہے ۔
میرے سامنے ایک دو نہیں درجنوں مثالیں ہیں ۔
اس لئے برائے کرم آپ ایسا نہ کیجئے!
بلکہ آپ اپنے یہاں قابل ترین اساتذہ کا نظم کیجیے! آپ کے یہاں ناظرہ کی تعلیم معیاری ہوگی، تو اسی سے آپ کا درجہ حفظ تیار ہوگا ۔آپ درجہ حفظ معیاری بنالینگے تو اسی سے ایک سے دو اور دو سے تین درجے قائم ہوجائے گے ۔
گستاخی کی معافی چاہتے ہوئے عرض ہے ،کہ کہ آپ کے آس پاس اگر عربی فارسی کی معیاری تعلیم ہورہی ہے ،یا شعبہ تجوید مضبوطی سے چل رہا ہے ،تو کیا ضرورت ہے آپ کو آگے بڑھنے کی؟
آپ اپنے اسی شعبہ حفظ کو مضبوط سے مضبوط بنایئے ! ایسا بنالیجئے کہ آپ داخلہ لیتے لیتے تھک جائیں اور طلبہ سفارشات لے لیکر آپ کے یہاں پہنچے ۔
جی ہاں۔۔۔ معیاری تعلیم کی ایک اہم علامت یہ بھی ہے کہ اس مدرسہ کا کوئی اعلان داخلہ، جس میں تمام مراعات کی بھرمار ہو ،نظر نہیں آئیگا ۔
اور ایسے مدرسے الحمدللہ موجود ہیں ،مگر کم بہت کم ۔
آپ کے یہاں اگر معیاری تعلیم چل رہی ہے، تو اس کی بقا کی فکر زیادہ کیجئے ،آگے بڑھانے کی نہیں ۔
اللہ معاف فرمائے ۔۔۔
ایک سوچ یہ بھی ہوتی ہے کہ فلاں مدرسہ میں اچھی تعلیم ہورہی ہے، تو اس کو کمزور کرنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں ۔منجملہ یہ کہ وہاں کے اہم ،قدیم، فعال، مدرس کو اضافی تنخواہ کا لالچ دیکر اپنے یہاں تقرر کرلیا جاتا ہے، اب وہ مدرس اکیلا نہیں آتا بلکہ اپنے ساتھ بہت سارے طلبہ کو بھی بھگالاتا ہے ۔وہاں سب کچھ چوپٹ ہوجاتا ہے اوریہاں رونق آجاتی ہے۔بیشک یہاں یہ مدرس نادان وناسمجھ ہے اور کافی حد تک یہ قصور وار ہے، مگر اصل مجرم آپ( مہتمم وارباب حل وعقد) ہیں ۔اور آپ کی یہ رونق وبہاریں زیادہ دن رہنے والی نہیں ہیں ۔
یہ حضرت آج آپ کے بہکاوے میں آئے ہیں، تو یقینا کل کسی اور کے جھانسے میں آجائیں گے ۔
(مدرسین پر بات آئندہ ہوگی فی الحال تو آپ سے ہے )
مہتمم صاحب ! آپ اس بات پر بھی دھیان دیجئے! کہ آپ کے مدرسہ میں پڑھنے والے بچے کسی ماں باپ کی اولاد ہیں ۔میری یہ بات ذرا تلخ ہے مگر حقیقت ہے ۔جن کمروں میں آپ نے طلباء کو قیام کرا رکھا ہے، شاید آپ اپنے بچوں کو ان میں قیام نہیں کراسکتے، جوکھانا آپ طلباء کو کھلاتے ہیں، ایمانداری سے بتلائیے ! کیا آپ بھی اس کو کھاسکتے ہیں؟
مدرسہ کی بیت الخلائیں، گندی پڑی رہتی ہیں اور ایک دو دن نہیں ، مہینوں مہینوں،۔۔۔۔
کیا آپ کے گھر کی کوئی بیت الخلاء صرف ایک دن کے لیے خراب پڑی رہی؟
آپ مہتمم صاحب!
انہیں طلبہ کو مدرسے سے باہر: مہمانان رسول :صلی اللہ علیہ و سلم ،گردانتے ہیں اور معاف کیجئے!
سچ اور جھوٹ بولکر چندہ جمع کرتے ہیں، مگر یہی مہمان آپ کے مدرسہ میں سب سے زیادہ پریشان رہتے ہیں ، آخر کیوں؟
یہی مہمان محلہ والوں کی دعوت کا انتظار کرتے ہیں، بلکہ آپس میں الجھ بیٹھتے ہیں ۔
پتہ ہے کیوں؟
اگر آپ کے یہاں کھانے کا نظم اچھا ہوتا ،تو آج ایسے ایسے خوددار طلباء مدارس میں پہونچ رہے ہیں کہ، وہ اندر سے ہرگز ہرگز دعوت میں جانا پسند نہیں کرتے ۔
مہتمم صاحب!
مجھے معلوم ہے کہ میری یہ باتیں ناگوار، محسوس ہورہی ہونگی اور میں یہ بھی جانتا ہوں، کہ اب سارے مدارس کا حال ایسا نہیں رہا، کچھ سدھار آیا ہے ، لیکن یہ بھی واقعہ ہے ،کہ ابھی بھی ایسے مدارس اور ایسے مہتمم ومنتطمین حضرات موجود ہیں، جو میرے آج اصل مخاطب ہیں ۔
اگر آپ کے اندر یہ خامیاں نہیں ہیں، تو ہرگز میں آپ سے نالاں نہیں ہوں ، آپ معاف کیجئے!
میں اپنے 22 /سالہ تدریسی تجربہ کی روشنی میں یہ باتیں کررہا ہوں ۔
دارالعلوم دیوبند یا اور چند مدارس کے استثناء کے ساتھ کہیں کم کہیں زیادہ یہ شکایات ضرور موجود ہیں ،خاص طور سے ہمارا اتر پردیش جو مدارس کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ،یہاں پر زیادہ ان باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔
باتیں تو بہت ہیں مہتمم صاحب!
مگر چلئے!
آخری ایک بات پر بات کو ختم کرتا ہوں ۔
یہ تو سب کہتے ہیں کہ اساتذہ کی تنخواہیں اور زیادہ ہونی چاہئے، مگر زیادہ کرتے نہیں ۔زیادہ تنخواہ مقرر کرنے والے اور اضافہ کرنے والے بھی تو آپ ہی ہیں ۔مگر آپ کرتے نہیں ؟ آخر کیوں؟
ایک مدرسہ میں حفظ کے استاذ کی تنخواہ آج 5000 /سے 9000 تک ہے ۔شاید کہیں 10000 اور 12000 بھی ہو مگر وہ شاذ ونادر ہے ۔
جو استاذ گھر سے باہر ملازمت کرتا ہو تو اس کے لئے تو یہ تنخواہ بالکل ناکافی ہے ۔پھر مزید اس پہ یہ پابندیاں کہ آپ مسجد میں امامت نہیں کر سکتے، کہیں اور کوئی آمدنی کا ذریعہ تلاش نہیں کر سکتے، وغیرہ وغیرہ ۔تو آپ ہی بتلائیے کہ کیا یہ تنخواہ معقول ہے؟
برائے کرم تنخواہ بڑھائیے!
عام طور پر مدارس میں ایک سال میں ایک مرتبہ تنخواہ میں اضافہ ہو تا ہے ،وہ بھی کتنا؟ آپ جانتے ہیں ۔
مگر آپ کو تعجب ہوگا کہ کچھ مدارس میں کئی کئی سال میں اضافہ ہوتا ہے ۔
ایک مدرسہ کی رپورٹ کے مطابق چار پانچ سال میں اضافہ ہوتا ہے ۔
نیز کچھ نہیں بلکہ اکثر مکاتب ومدارس میں ماہ رجب، شعبان ،رمضان المبارک کی تنخواہ رک جاتی ہے ، بلکہ روک لی جاتی ہے( وہ حکمت عملی کے تحت ایسا کیاجاتا ہے) مگر آپ کیا کہیں گے کہ بعض مدارس میں تو 10 بلکہ 12 /12 /ماہ کی تنخواہ رکی رہتی ہے ۔
مہتمم صاحب!
غور کیجئے گا ! آخر خدا کے یہاں کیا عذر پیش کیا جائے گا؟
ممکن ہے بعض تنقیدی نظر رکھنے والے یہ کہیں :
کہ اگر آپ مہتمم ہوتے، تو آپ بھی ایسا ہی کرتے ۔
ہاں ۔ ممکن تو یہ بھی ہے، لیکن ایسا ہے نہیں ۔میری نگرانی میں (اہتمام میں نہیں )جن لوگوں نے کام کیا ہے، وہ گواہ ہیں کہ حتی الامکان مدرسین کو سہولیات دینے کی کوشش کی گئی ہے اور کی جاتی ہے ،اور جو چیز اپنے بس سے باہر ہے؛ اس میں مجبوری ہوتی ہے ۔
بہرحال تلخی پر معافی اور شیریں پر قبول کی درخواست ۔۔۔۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں