ڈاکٹر فرقان حمید
حالیہ کچھ عرصے کے دوران جب سے نواز شریف کو گرفتار کیا گیا ہے اس وقت سے پاکستان کے تمام ہی ٹالک شوز او ر اخبارات میں ترک صدر ایردوان کی طرح ملک میں اسٹیبلشمنٹ پر گرفت قائم رکھنے اور اسے وزارتِ دفاع کی نگرانی میں دیتے ہوئے ملکی سیاست میں دخل اندازی کے تمام دروازے بند کرنے کے عمل کو پاکستان میں بھی متعارف کروانے کا واویلا مچایا جا رہا ہے۔ ترک صدر ایردوان کو اسٹیبلشمنٹ پر سویلین حکومت کی گرفت اور ملکی سیاست میں دخل اندازی سے باز رکھنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے ہیں۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے جدید جمہوریہ ترکی کے قیام ہی سے اپنی گرفت مضبوطی سے قائم کیے رکھی ہے۔ کبھی فوج نے مارشل لاء لگاتےہوئے براہ راست اپنا اقتدار قائم کیے رکھا تو کبھی اسٹیبلشمنٹ اپنی پسند کی سویلین حکومت کو برسر اقتدار لاتے ہوئے من و عن اپنے احکامات کی تعمیل کرواتی رہی ہے۔ سیلمان دیمرل ، تانسو چیلر، بلنت ایجوت، ترگت اوزال، یلدرم آق بُلت ، نجم الدین ایربکان تقریباً تمام ہی وزرائے اعظم ہمیشہ ہی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ان کو اپنے تیار کردہ منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کا موقع نہ دیے جانے کی شکایت کرتے رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے صرف ملکی انتظامیہ پر ہی گرفت قائم نہ کیے رکھی بلکہ ایردوان دور سے قبل تک ان کا ہمیشہ ہی میڈیا پر مکمل کنٹرول قائم رہا ہے ۔ اخبارات کی خبروں سے لے کر کالموں تک کی ایک ہی جنبش میں کاٹ چھانٹ کردی جاتی رہی ہے اور کالم نگار وں کی اخبارات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹی بھی کروائی جاتی رہی ہے اور خاص طور پر مذہبی رجحان رکھنے والے کالم نگاروں کے کالموں کا قینچی کی زد میں نہ آنا ناممکن سمجھا جاتا رہا ہے۔
ترک فوج بیرکوں میں رہتے ہوئے بھی تمام سویلین حکومتوں کو تگنی کاناچ نچاتی رہی ہے۔ ترک فوج اتاترک کے دور میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں اور ملک میں برپا کئے جانے والے انقلابات کی آڑ میں ری پبلیکن پیپلزپارٹی کے تعاون اور نام نہاد اور یکطرفہ سیکولرازم کی تلوار کا سہارا لیتے ہوئے سویلین حکومتوں کو کوالیشن پر مجبور کرتی رہی ہے۔ ترک اسٹیبلشمنٹ نے جس طریقے سے نجم الدین ایربکان کی حکومت کا تختہ الٹا تھا ، اسے کوئی بھی نہیں بھول سکا ہے۔ ملک میں نام نہاد سیکولرازم کی آڑ میں حزب ِ اختلاف کے ملین افراد پر مشتمل جلسوں اور ریلیوں کو بھلا کون فراموش کرسکتا ہے ؟ جلسوں میں تو لوگ جوق در جوق شرکت کرتے رہے لیکن انتخابات کے وقت ووٹ کسی اور ہی جماعت کر پڑتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے ایردوان کے دوسرے دور میں عدلیہ کا سہارا لیتے ہوئے جسٹس اینڈ ڈولپمینٹ پارٹی پر پابندی لگانے کی بھی کوشش کی لیکن اسٹیبلشمنٹ کو یہاں بھی منہ ہی کی کھانا پڑی، اسٹیبلشمنٹ نے آق پارٹی کے پہلی بار برسر اقتدار آنے پر صدر ایردوان کو مذہبی اشعار پڑھنے کی پاداش میں جیل کی سزا دلوا کر وزارتِ اعظمیٰ سے دو رکھنے کی بھی کوشش کی تھی جو دیگر پارٹیوں کے تعاون سے آئین میں ترامیم کرواتے ہوئے ناکام بنا دی گئی تھی۔ ایردوان اس وقت ہی یہ بات اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ دیگر سیاستدانوں کی طرح ان کی حکومت کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرتی رہے گی، اس لئے انہوں نے پہلے روز ہی سے عوام کی خدمت کو اپنا اشعار بنا کر اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایردوان نےاپنی وزارتِ اعظمیٰ کے پہلے دونوں ادوار میں بڑے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو ذرہ بھر بھی نہ چھیڑا حالانکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی تمام ریشہ دوانیوں سے پوری طرح باخبر تھے۔ ایردوان نے اس دوران ملک کی اقتصادیات کی طرف خصوصی توجہ دی اور فی کس آمدنی کو دو ہزارڈالر سے بڑھا کر گیارہ ہزار ڈالر تک پہنچا دیا اور ملک کو اقتصادی لحاظ سے سولہویں بڑی طاقت بنا کر جی 20 ممالک کی صف میں جگہ پانے میں کامیابی حاصل کی۔ وزیراعظم ایردوان نے اپنے پہلے دونوں ادوار میں اپنی حکومت کو مضبوط بنانے اور ملک میں سیاسی استحکام قائم کرنے کی جانب خصوصی توجہ دی کیونکہ وہ جانتے تھے سیاسی لحاظ سے کمزور ہونے کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ عدنان میندرس کی طرح انہیں بھی تختہ دار پر لٹکانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گی اور مختلف وزرائے اعظم کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کی طرح ان کی حکومت کا بھی تختہ الٹنے میں ذرہ بھر بھی نہیں ہچکچائے گی ۔ ان تمام باتوں سے باخبر وزیراعظم ایردوان نے اپنے پہلے دونوں ادوار کے برعکس تیسرے دور میں پچاس فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد آخر کار اسٹیبلشمنٹ پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کرلیا۔ اسٹیبلشمنٹ پر ہاتھ ڈالنے سے قبل ایردوان نے محکمہ پولیس کی از سر نوتشکیل کی، اس کی خفیہ سروس ڈپارٹمنٹ کو اسٹیبلشمنٹ کی خفیہ سروس ڈپارٹمنٹ سے بھی زیادہ مضبوط بنایا اور اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے حکومت کے خلاف بنائے جانے والے تمام پلانز اور کارروائیوں سے متعلق معلومات یکجا کیں۔ ایردوان حکومت نے اس دوران عدلیہ کو بھی نئے خطوط پر استوار کیا اور اس پر اسٹیبلشمنٹ کے تمام اثرو رسوخ کو ختم کرتے ہوئے اسے اسٹیبلشمنٹ کا ذیلی ادارہ بننے سے روک دیا۔ ایردوان حکومت نے ججوں کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ کو یقینی بنایا۔
عدلیہ اور محکمہ پولیس میں ہونے والی ان بڑی تبدیلیوں کے بعد ایردوان حکومت نے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے سے متعلق معلومات اور دستاویزات کو پولیس سے حاصل کرتے ہوئے عدلیہ کے روبرو پیش کر دیا اور اسی دوران آئین مین ترامیم کراتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ پر سول عدالت میں مقدمہ چلانے کی بھی زمین ہموار کرالی۔
صدر ایردوان کو اپنے وزیراعظم ہونے کے ابتدائی دور میں مختلف شعبوں کو سربراہان متعین کرنے کا بھی حق حاصل نہ تھا۔ ایردوا ن کی جانب سے مختلف عہدوں کے منتخب کیے جانے والے بیورو کریٹس کو اُس وقت کے صدر احمد نجدت سیزر جو اسٹیبلشمنٹ کے احکامات کی تعمیل کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے تھے ایردوان کی جانب سے متعین کیے جانے والےمختلف شعبوں کے سربراہان کو آئین کی رو سے ویٹو استعمال کرنے کے اختیارات سے وزیراعظم ایردوان کے پسندید ہ بیورو کریٹس کی اپنی میعاد پوری ہونےتک تعیناتی تک نہ ہونے دی۔صدر احمد نجدت سیزر کے ریٹایرڈ ہونے کے بعدجب آق پارٹی ہی سے تعلق رکھنے والے عبداللہ گل نے صدارتی فرائض سنبھالے تو اس وقت ہی ایردوان کے لیے ملک کی ترقی کے راستے پوری طرح کھل گئے اور انہوں نے موقع سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ترکی کو دنیا کے گنے چنے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا۔ ترکی جیسے جیسے ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا رہا اسٹیبلشمنٹ کے اندر تشویش کی لہر پیدا ہوتی رہی کیونکہ ترکی تیسری دنیا کےایک پسماندہ ملک سے نکل کر دنیا کے سولہویں بڑے اقتصادی ملک کا روپ دھارتے ہوئے جی 20 ممالک کی صف میں شامل ہو چکا تھا۔
اسی دوران اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دو بار ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی لیکن وقت سے قبل ہی اطلاع ملنے پر تختہ الٹنے کی کوششوں میں ملوث تمام جرنیلوں کو سزا د لوا کر پہلی بار سویلین حکومت کو اسٹیبلشمنٹ پر برتری کو ثابت کردیا گیا جس کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے ایردوان کے خلاف اپنی پالیسی میں تبدیلی کرلی اور سویلین حکومت کے خلاف کاروائی نہ کرنے ہی میں اپنے ادارے کی عافیت سمجھی۔ لیکن اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے اندر ایردوان کے خلاف نفرت پھیلانے ، ان کو غدار قرار دیے جانے اور ملکی مفادات کے خلاف قائم کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے اندر سے فتح اللہ گولن کے تعاون سے ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی 15 جولائی 2016ء کو آخری کوشش کی لیکن اللہ و تعالی کے فضل و کرم سے ایردوان اور ان کی حکومت محفوظ رہی اور عوام نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اور ٹینکوں کے آگے لیٹتے ہوئے ملک میں جمہوریت کا بھر پور ساتھ دیا ۔ صدر ایردوان نے اپنی انتھک کوششوں کے بعد ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے ، عوام کے لیے خوشحالی اور رفاہ کا بندو بست کرنے اور دنیا بھر میں ترکی کو بلند مقام دلوانے کے بعد ہی اسٹیبلشمنٹ پر ہاتھ ڈالا اور اب اسٹیبلشمنٹ کو مکمل طور پر وزارتِ دفاع کے ما تحت کردیا گیا ہے اور ترکی کے ریٹایرڈ چیف آف جنرل سٹاف جنرل حلوصی آقار کو وزیر دفاع متعین کرتے ہوئے فوج پر مکمل گرفت قائم رکھی ہوئی ہے ۔ پاکستان میں بھی صرف اسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں ملوث ہونے سے روکا جاسکتا ہے جب کوئی سویلین حکومت اپنے عوام اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے اور پاکستان کو دنیا میں بلند مقام دلوانے میں کامیاب ہوتی ہے ورنہ اسٹیبلشمنٹ یوں ہی سیاستدانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہے گی اور سیاستدان ہمیشہ ہی اسٹیبلشمنٹ پر سیاست میں دخل اندازی کا رونا روتے رہیں گے۔
Mob:+90 535 870 06 75
furqan61hameed@hotmail.com