میں عمران خان کی مخالفت کیوں کرتا ہوں !

 محمد عرفان ندیم 

کیون مارش برطانوی صحافی ہیں، یہ 1978 سے بی بی سے وابستہ ہیں، شروع میں نیوز ٹرینی کے طور پر بی بی سی جوائن کیا اور اپنی صلاحیت کی بنا پر مستقل جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ آج کل بی بی سی کالج آف جرنلزم کے ایڈیٹر ہیں، یہ آن لائن لرننگ پروگرام ہے جس میں صحافت سے وابستہ افراد کو لیکچر زدیئے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کیون مارش کے لیکچرز کا سلسلہ شروع ہوا، لیکچرز کی تیاری میں کیون مارش نے درجنوں تجربہ کار ایڈیٹرز، پروڈیوسرز، رپورٹرز اورصحافیوں سے بات کی، ان کے مشورے لیے اوران کے تجربات اکھٹے کیئے۔ ایک “کامن” سوال جو اس نے سب سے کیا کہ وہ نادر نسخہ کیا ہے جس میں ان کی کامیابی کا راز چھپا ہے۔ ان کہنہ مشق اور جہاندیدہ صحافیوں کا ایک ہی جواب تھا “تجسس”

صحافت ایسا پیشہ ہے کہ جس میں اگر آپ مکمل طور پر تجسس کا شکار نہیں ہوتے تو آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ آپ اگر کسی شاہراہ پر پانچ سو گز چلنے کے بعد کوئی خبر نہیں ڈھونڈتے تو آپ کو محنت کی ضرورت ہے۔ صحافت میں آپ کو ہر چیز کے بارے میں اس حد تک متجسس ہونے کی ضرورت ہے کہ اگر آپ ایک سادہ دیوار بھی دیکھیں تو یہ سوچے بغیر نہ رہ سکیں کہ یہ کس طرح سادہ رہ گئی اور یہ سادہ کیوں ہے۔ عمران خان الیکشن میں کامیا ب کیا ہوئے ساری صحافت اور اور میڈیا نے اپنا قبلہ بدل لیا۔ میں حیران ہوں کہ میڈیا کے بڑے بڑے نام ایک تقریر پر کیسے ڈھیر ہو گئے اور اس غیر متوقع کامیابی کو اتنی آسانی سے کیسے ہضم کرلیا۔ اتنے بڑے مارجن سے جیتنے کی امید تو خود تحریک انصاف کو نہیں تھی۔ ایسے لوگوں کو کم از کم کچھ عرصہ غیر جانبدار رہ کر صورتحال پر غور کرنا چاہئے تھا، تجسس، تجزیے اور مشاہدے کے بعد اگر وہ اس نتیجے پر پہنچتے تو با ت سمجھ آتی تھی لیکن یہاں جیت کا اعلان بعد میں ہوا اور یہ لوگ وکیل بن کر پہلے سامنے آگئے۔ یہ کیسی صحافت ہے اورکیسا پروفیشنلزم ہے؟سوچتا ہوں تو سر پکڑ لیتا ہوں۔ میں ایک نو آموز صحافی اور طفل مکتب ہوں، مجھے معلوم ہے اس فیلڈ میں میرا قد ابھی بہت چھوٹا ہے، میری جتنی عمر ہے اس سے ذیادہ لوگوں کے پاس تجربہ ہے لیکن اس کے باجود مجھے عمران خان کی شخصیت اور اس کی جیت پر تحفظات ہیں، یہ تحفظات کیوں ہیں اس کی وجہ میرا تجسس اور صرف تجسس ہے۔ اسی تجسس کی بنیاد پر عمران خان کے بارے میں میری ایک رائے ہے اور بطور صحافی یا کالم نگار میں یہ رائے رکھنے کا مجاز ہوں۔ میں عمران خان کو ایک ایسا مہرہ سمجھتا ہوں جو پاکستان مخالف طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہا ہے اور شاید اسے خود بھی احساس نہیں کیوں کہ جہاں مہرے کو استعمال ہونے کا احساس ہو جائے وہاں نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ نوے کی دہائی میں ساری دنیا جان چکی تھی کہ پاکستان ایٹمی قوت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے، پاکستان مخالف قوتوں کے لیے یہ بات ہرگز قابل برداشت نہیں تھی، کہاجاتا ہے کہ یہودی سو سال پہلے پلاننگ کرتے ہیں۔ اب ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جو پاکستان میں مقبول ہو، اس مقصد کے لیے عمران کو چنا گیا، جمائما کو اس کے قریب کر کے شادی کروائی گئی، اپنے گھناؤنے مقاصد کی تکمیل کے لیے لڑکیوں کا استعمال یہودیوں کی شاطرانہ چالوں کا حصہ ہے، تاریخ اسلام کے آغاز سے لے کر خلافت عثمانیہ کے زوال تک ایسی ہزاروں داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ نوے کی دہائی میں شروع کی جانے والی سازش 2018میں کامیاب ہو گئی۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اگلی شخصیت جس پر ابھی سے محنت جا رہی ہے وہ ملالہ یوسف زئی ہے، کیا وجہ تھی کہ وہ ملالہ جسے اپنے شہر میں کوئی نہیں جانتا تھاوہ اچانک شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی، اگر اس کی وجہ ملالہ پر حملہ تھا تو اس کے ساتھ دیگر تین چار طالبات بھی اس حملے میں زخمی ہوئی تھیں ان کا کوئی نام تک نہیں جانتا۔ پھر اس کونوبل پرائز تک دے ڈالا آخر کس بات پر ؟ایدھی جیسا شخص تو نوبل پرائز کے لیے نامزد نہ ہو سکا اور ملالہ سولہ سال میں یہ کارنامہ سرانجام دے گئی۔ آپ مزید ڈوریاں ملائیں تو بات مزید واضح ہو جائے گی، ملالہ کہتی ہے میں پاکستان کا وزیر اعظم بن کر ملک کی خدمت کرنا چاہتی ہوں، آپ لکھ لیں آئندہ د س پندرہ سالوں میں ملالہ کو بھی عمران کی طرح میدان سیاست میں اتار دیا جائے گا اور جو کام عمران نہ کر سکا وہ اس سے کروائے جائیں گے۔ آپ عمران اور ملالہ دونوں کہانیوں کو ساتھ ملا کر دیکھیں آپ کو بہت سی کہانیاں، غیر متوقع کامیابیوں اور ان شخصیات سے جڑے بہت سے حقائق واضح ہوتے نظر آئیں گے۔

عمران کے بارے میں میری یہ رائے کیوں ہے اس کی کچھ وجوہات ہیں، پہلی وجہ اس کا ماضی اور وہ کردار ہے جس کا مظاہرہ اس نے پچھلے پانچ سال میں کیا، پچھلے پانچ سال میں یہ ملک جس قدر عدم استحکام کا شکار ہوا اس کا سارا کریڈٹ عمران کوجاتا ہے، عالمی طاقتوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرکے انارکی پھیلائی جائے اور عمران نے اس سلسلے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ میں ماضی کے تجربات کی بنیاد پر عمران کے بارے میں یہ رائے رکھتا ہوں اور حال میں اس رائے کے اظہار پر مجبور ہوں۔ دوسری وجہ حکیم سعید شہید ہیں، حکیم سعید جیسی جہاندیدہ شخصیت کو اللہ نے معرفت کا وہ نور عطا کیا تھا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، اسی معرفت کی بنیاد پر انہوں نے عمران کے بارے میں اس وقت پیشنگوئی کی تھی جب اس نے سیاست میں قدم بھی نہیں رکھا تھا، میں حکیم سعید کے وہی الفاظ یہاں منتقل کر رہا ہوں:” پاکستان کے ایک عمران خان کا انتخاب ہوا ہے، یہودی ٹیلی ویژن اور پریس نے عمران کو ہاتھوں ہاتھ لیا ہے، سی این این، بی بی سی سب عمران کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں، برطانیہ جس نے فلسطین تقسیم کر کے یہودی ریاست قائم کروائی وہ ایک طرف عمران خان کو آگے بڑھا رہا ہے۔ ۔ ۔ الخ۔

اب عمران خان کی شادی یہودیوں میں کرا دی ہے، پاکستان کے ذرائع ابلاغ کو کروڑوں روپے دیے جا رہے ہیں تاکہ عمران خان کو خاص انسان بنا دیا جائے۔ وزارت عظمیٰ پاکستان کے لیے ان کو ابھارا جا رہا ہے، محترمہ بے نظیر پہلے تو عمران خان پر برسی تھیں مگر اب انہوں نے عمران خان کے خسر کو کھانے پر مدعو کیا ہے، نائب صدر امریکہ نے عمران کو لنچ پر بلالیا ہے۔ نوجوانوں ! کیا پاکستان کی آئندہ حکومت یہودی الاصل ہو گی”

سپریم کورٹ میں زیر سماعت نااہلی کیس میں عمران کے وکیل اعتراف کر چکے ہیں کہ 195ملٹی نیشنل کمپنیوں سے اربوں کا فنڈ حاصل کیا۔ یہ بتانے کی ضرروت نہیں کہ دنیا کی اکثر ملٹی نیشنل کمپنیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں اور یہی کمپنیا ں امریکہ میں صیہونی حکومت سازی کے لئے فنڈنگ کرتی ہیں۔ ہمارا سار االیکٹرانک میڈیا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے رحم و کرم پر ہے، پچھلے تین چار سال سے پاکستانی میڈیا عمران کو کیوں بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے اس بات پر بھی سنجیدگی سے غور ہونا چاہئے۔ عائشہ گلالئی اور ریحام خان نے جو انکشافات کیئے ہیں انہیں بھی کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا اور وہ وقت کی دھول میں دب کر رہ گئے، آخر کچھ تو سچائی تھی ورنہ بغیر ثبوت اور وجہ کے کوئی کسی پر کیسے الزام لگا سکتا ہے۔

یہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر عمران کے بارے میں میری یہ رائے ہے، مستقبل میں اگر یہ رائے غلط ثابت ہوتی ہے تو میں اخبار کے انہی صفحات پر اپنی رائے سے رجوع کر لوں گا لیکن اگر میرے یہ خدشات درست ثابت ہوئے تو اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا ہو گا۔

کالم نگارپاکتسان کے نوجوان تجزیہ نگار اور ریسرچ اسکالرہیں۔ مضمون میں پیش کئےگئے خیالات ان کے ذاتی ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں