سیدہ تبسم منظور
’’تایا ابا ! آپ سے کئی دفعہ کہا کہ سامنے والاگھر خرید لیجئے۔پر آپ نے کبھی ہماری بات پر غور ہی نہیں کیا”۔
’’ زویا ! بیٹی ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔جو اس گھر کو خرید کر ازسر نو تعمیر کرتے۔‘‘
’’ تایا ابا! ہم تو بچپن سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ گھر تو ہمیشہ ہی بند رہتا تھا۔۔۔۔پہلے تو ذرا ٹھیک تھا۔۔۔اب تو گھر کم کھنڈر زیادہ لگتا ہے۔ آگے پیچھے کے سارے پیڑ پودے بھی سوکھ گئے۔۔۔۔پھولوں کا باغ نیست نابود ہوگیا ہے۔‘‘
’’ہاں بیٹی۔۔۔یہاں طاہر انکل رہا کرتے تھے۔ان کے دونوں بیٹے ہمارے ساتھ پڑھتے تھے۔ کالج بھی ساتھ کیا۔۔۔ طاہر انکل کو سات سمندر پار سے ایک جاب کا آفر آیا۔۔۔۔اور وہ سعودی عرب چلے گئے۔۔۔پھر دو چار سال بعد اپنے بیوی بچوں کو بھی بلا لیا۔ بیٹے بھی وہاں اچھی جاب پر لگ گئے۔ پھر انھوں نے پلٹ کر کبھی دیکھا ہی نہیں۔ پہلے پہل کبھی کبھار ان کے سالے صاحب گھر کھول کر دیکھ لیا کرتے۔۔۔۔پھر یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ ‘‘
’’تو آپ ان سے بات کر کے گھر خرید لیتے۔۔۔آگے پیچھے کافی ساری جگہ بھی تھی۔‘‘
’’ نہیں بیٹی !اپنے پاس اتنے پیسے بھی نہیں اور میں نے سنا تھا کہ بند گھروں میں شیطان کا ڈیرہ ہوتا ہے۔‘‘
’’تایا ابا! آپ یہ باتیں کررہے ہیں۔ گھر میں نماز، تلاوتِ قرآن اور خاص کر روزانہ سورہ بقرہ پڑھنے سے شیطان چالیس قدم دور چلا جاتا ہے۔یہ سب آپ نے ہی تو سکھایا ہے ہمیں۔‘‘
’’ ہاں بیٹی !یہ سچ ہے سب۔۔۔ پر دل میں ہزاروں وسوسے رہتےہیں۔ اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کے ہمارے پاس اتنے پیسے ہی نہیں تھے۔‘‘
’’چلئے کوئی بات نہیں ۔اب ویسے بھی اب اس موضوع پر بات کرنے سے کوئی فائدہ تو ہے نہیں ۔۔۔۔اب تو وہ گھر بک چکا ہے۔‘‘
ہم اپنے تایا ابا کے گھر سال میں دو مرتبہ تو آتے ہی تھے کیونکہ یہی ہمارا میکہ تھا ۔ ۔ ۔ ہمارے امی ابو ہمیں بچپن میں ہی چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی کے پاس چلے گئے تھے۔ تایا ابا اور تائی امی نے ہماری پرورش کی۔ کبھی ہمیں محسوس ہونے ہی نہیں دیا کہ ہم ان کی بیٹی نہیں ہیں۔تایا ابا کو صرف دو بیٹے تھے۔۔۔۔ہماری اپنی بیٹی کی طرح پرورش کی۔۔۔۔اور ہماری شادی کی۔ ایان جیسا ایک نیک شریک حیات دیا۔
ہم اپنے بچپن سے اس کھنڈر نما گھر کو دیکھتے آئیں ہیں۔ اب کی بارآئے تو دیکھا اس گھر کو پوری طرح توڑ دیا گیا ہے۔ پھر ہم اپنے تایا ابا سے اس سے متعلق معلومات لی۔پتہ چلا نئے پڑوسی کا نام نواب حیدر ہے ۔ بہت بڑے فاریسٹ آفیسر تھے۔اسی سال ریٹائر ہوئے ہیں۔ کافی روپے بھی ملے اور اچھی خاصی پینشن بھی آتی ہے۔وہی روپیوں سے اس گھر کو خرید کر نئے سرے سے تعمیر کر رہے ہیں۔ ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ان کی بیوی بھی ٹیچر ہے۔ ماشااللہ ! اچھے لوگ ہیں ! اچھے پڑوسی ملنا بھی اللہ تعالی کی بہت بڑی رحمت ہے۔
’’ زویا بیٹی! ان کو جلد سے جلد گھر تعمیر کرنا ہے۔۔۔دونوں بچوں کی نسبت ہو چکی ہے۔گھر تعمیر ہونے کے بعد اسی گھر میں ان کی شادی کرانی ہے۔ ‘‘
ہم اپنے تایا ابا کے ساتھ باہر ہی بیٹھے تھے کہ نواب حیدر صاحب تشریف لائے۔ علیک سلیک ہوئی۔ پھر تایا ابا نے ہمارا تعارف کرایا۔ ان کی شخصیت بڑی جاندار تھی۔بالکل فٹ اینڈ فائن تھے۔دونوں گفتگو کرنے میں مصروف ہوگئے تو ہم اندر جاکر چائے بناکر لائے۔ چائے پی کر حیدر انکل جہاں مزدور کام کر رہے تھے ان کے پاس پہنچے۔۔۔وہی دیکھ ریکھ کر رہے تھے۔کنٹریکٹ دیا ہوا تھا۔پھر بھی وہ صبح سے شام تک وہی رہتے۔آگے پیچھے جو جگہ تھی اس میں پیر پودے بھی لگائے جارہے تھے تاکہ گھر تیار ہونے تک باغ بھی تیار ہوجائے۔ ہمارے دل سے یہی دعا نکلی، ’’ اللہ ان کو یہ گھر مبارک کرے۔‘‘
ہم وہاں ایک ہفتہ رکے رہے۔تب تک ہم نے دیکھا بہت تیزی سے کام ہورہا تھا۔ حیدر انکل کافی آشفتہ لگتے۔تایا ابا کے بالکل سامنے ہی گھر تھااس لئے دونوں کی اچھی شناسائی ہوگئی تھی۔ کافی باتیں ہوتیں کہ گھر کیسے بنانا،کیا کیا رکھنا ہے،فرش کونسا لگے گااور نہ جانے کیا کیا۔ہم اپنے گھر لوٹ آئے۔تائی امی اور بھائیوں نے بہت اصرار کیا کہ ہم رک جائیں پر ہم نے بہت جلد واپس آنے کا وعدہ کیا اور چلے آئے۔
اپنے گھر آکر ہم اپنے مصروفیات میں لگ گئے۔ہفتے میں دو تین بار فون پر تایا ابا اور گھر میں سب سے بات ہوتی رہتی۔ہاں لیکن ہم حیدر انکل کے گھر کے بارے میں پوچھنا کبھی نہیں بھولتے کیوں کہ جو نقشہ ہم نے دیکھا تھا گھر کاوہ گھر کیا ،وہ تو ایک عالیشان بنگلے کا نقشہ تھا۔اس لئے ہمیں بھی بڑا تجسس ہوتا جاننے کے لئے کیسا بنا۔کہاں تک کام ہوا۔فلاں فلاں۔ یوں ہی وقت گزرتا رہا۔۔اچانک ہمیں فون آیا تایا ابا کو ہارٹ اٹیک ایا ہے۔فون آتے ہی ہم اپنے شوہر کے ساتھ دوسرے ہی دن پہنچے۔گھر پہنچ کر بیگ رکھا ۔فریش ہوکر سیدھا اسپتال پہنچے۔ تائی امی ہمیں دیکھ کر رونے لگیں۔ہماری بھی آنکھیں چھلک آئیں۔اندر جاکر ہم اور ایان تایا ابا سے ملے۔اتنی دیر میں حیدر انکل بھی عیادت کے لئے آئے۔ فوراً ٹریٹمنٹ ملنے سے اللہ کے فضل و کرم سے جلدی صحت یاب ہورہے تھے۔ چار پانچ دن ہمارے شوہر ساتھ رک کر واپس چلے گئے۔اس وقت تک تایا ابا بھی ڈسچارج ہو کر گھر آچکے تھے اس لیے ہم وہیں ٹھہر گئے۔ہر وقت ہم تایا ابا کی تیمارداری میں لگے رہتے تھے۔آہستہ آہستہ ان کی طبیعت بالکل ٹھیک ہوگئی۔روزانہ حیدر انکل گھر پر آتے۔۔ایک دو بار ان کی بیوی بھی ساتھ آئی تھیں۔ بہت ہی مخلص اور ملنسار خاتون تھیں۔
آج موسم بہت خوش گوار تھا۔آفتاب کی سنہری کرنیں ہر طرف اپنا نور بکھیر چکی تھیں۔ رات ہی رحمت باراں کی آمد ہو چکی تھی۔مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو سے ایک تازگی سی محسوس ہورہی تھی۔ہم، تایا ابا اور تائی امی اس موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔اسی وقت حیدر انکل تشریف لائے۔
’’آیئے حیدر صاحب! ہوگیا گھر کا کام پورا؟؟؟‘‘
’’الحمدللہ! پورا ہوچکا۔ آپ کی طبیعت کیسی ہے اب۔‘‘
’’اللہ رب العالمین کا شکر ہے ۔اب ٹھیک ہوں۔‘‘
’’ خالد صاحب!کل پیر کے دن قرآن خوانی رکھی ہے۔پھر آہستہ آہستہ سامان شفٹ کرلینگے اور ان شااللہ جمعہ سے رہنے آجائیں گے۔ کل آپ سبھی قرآن خوانی کے لئے آجائیں اور دوپہر کا کھانا ہے۔‘‘
تایا ابا نے ان کا شکریہ ادا کیا اور پہنچنے کی حامی بھری۔
بنگلہ بہت ہی خوبصورت بنا تھا۔ آٹھ نو مہینوں میں کام پورا ہوچکا تھا۔ پیڑ پودے اچھے بڑے ہوگئے تھے۔سامنے کئی طرح کے پھولوں کی کیاریاں لگی ہوئی تھیں۔بڑا خوبصورت سا گیٹ لگا ہوا تھا۔ہمیں بڑا تجسس ہورہا تھابنگلہ دیکھنے کے لئے۔
دوسرے دن صبح گیارہ بجے قرآن خوانی تھی جس کےبعد کھانا تھا۔ رشتے دار دوست احباب بہت سارے لوگ آئے تھے۔
ہم ،تایا ابا اور تائی امی حیدر انکل کے گھر پہنچے دونوں بھائی آفس گئے تھے۔
گیٹ کے اندر داخل ہوئے۔ سامنے خوبصورت سا باغ بنا ہواتھا۔چھوٹی چھوٹی گھاس کے بیچ فوارے لگے تھے۔پھولوں کی خوشبو سے آنگن مہک رہا تھا۔ایک طرف سوئمنگ پول بنا تھا۔ دوسری طرف گیراج بنا تھا۔پیچھے کئی پھلوں کے درخت لگے تھے۔
داخلی دروازےپرپرکشش خوبصورت ڈیزائن کئے گئے تھے۔سفید فرش بچھایا گیا تھا۔ہال میں بڑا سا جھومر لگا تھا۔جگہ جگہ رنگ برنگی بلب لگے تھے۔عمدہ فرنیچر۔سفید رنگ کا کشادہ معیاری کچن جہاں بڑی بڑی الماریاں دیواروں میں ہی بنائی گئی تھی۔ سِنک کے پیچھے لگی بھورے رنگ کی ٹائلسں مختلف نظر آرہی تھی۔ خواب گاہ کو تو خوب ڈیزائن کیا گیا تھا۔انٹیرئر ڈیزائن کے نادر انداز نظرآرہے تھے۔ ہر کمرے میں لکڑی اور پتھر کا پر ذوق استعمال منفرد شان ابھار رہا تھا جبکہ شوخ اور پرسکون رنگ ایک خاص مقدار میں اکٹھے ہو کر ایک اپنائیت بھرا ماحول بنا رہے تھے۔ دلکش اور زندہ دل بالکونی اور سامان رکھنے کی جدید جگہیں۔شیشے کے بڑے بڑے سرکنے والے دروازے اس بند بالکونی کو کمرے سے الگ کر رہے تھے۔ غرض ہال، کچن، ڈائننگ روم، بیڈ روم یہاں تک کے حمام پر بھی بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا گیا تھا۔اس میں ایک بات اچھی لگی کہ انہوں نے نماز کے لئے الگ اور بہت بہترین روم بنایا تھا۔ نیچے سے اوپر تک پورا گھر دیکھ آئے۔ہر آسائش موجود تھی۔ کسی طرح کوئی کمی کی گنجائش نہیں تھی۔ سب نے بنگلے کو بہت سراہا اور دعائیں دیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو یہ گھر مبارک کرے۔
آہستہ آہستہ سامان شفٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔تھوڑا تھوڑا سامان لاکر اس کو قرینے سے سجاتے بھی جارہے تھے۔دو تین دن میں سارا سامان آگیا۔۔۔اللہ کا شکر ادا کیاکہ اس نے آسانیاں فرمائیں اور سارا کام مکمل ہوگیا۔
جمعہ کے دن پوری فیملی کار میں آگئی۔ شفٹ جو کرنا تھا۔اس دن بہت تیز بارش ہو رہی تھی۔ حیدر انکل کار سے اترے، گیٹ کا تالہ کھولاتو بیٹے نے کار اندر لے لی۔ جب تک انکل نے گھر کا تالہ کھولا، پوری طرح بھیگ چکے تھے۔تالہ کھول کر ایک پیر اندر ڈالاہی تھا کے اتنی بری طرح پیر پھسلا کہ حیدر انکل دھڑام سے نیچے گرپڑے۔گھر کی چوکھٹ سر پر لگی۔سر کا پچھلا حصہ پھٹ کر خون بہنے لگا۔ان سب کی چیخ و پکار سن کر سب باہر نکلے۔بارش کا زور بھی کافی تھا۔ہم سب اور پاس پڑوس کے لوگ ان کے گھر کی طرف لپکے۔دیکھا تو سفید دودھ جیسا فرش پورا لال ہو چکا تھا اور حیدر انکل کی سانسوں کی ڈور ٹوٹ رہی تھی۔ایک آخری ہچکی لی اور آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ مالک حقیقی سے جاملے۔
وہ گھر جس کے لیے انھوں تگ و دو کی ،دن رات محنت کی ،ایک دن بھی اس میں رہنا نصیب نہ ہوا۔ہرآنکھ حیدر انکل کے لئے اشکبار تھی۔ ہر کسی کے ہونٹوں پر بس ایک ہی دعا تھی۔اللہ ان کو آخرت میں بہترین گھر نصیب فرمائے۔
’’اور یہ دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور تماشہ ہے۔ اصل زندگی تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش یہ لوگ سمجھتے۔’’( سورہ العنکبوت 64)
ہم سوچنے لگے کہ ہم لوگ دنیاوی لذتوں میں اتنے مشغول ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اپنی آخرت کے بارے میں کبھی سوچنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ ایک دن شان وشوکت، عالیشان گھروں کو چھوڑ کر چلے جانا ہے۔ آخرت کے گھر کی تیاری کر کے رکھنی ہے۔ اپنے عمل واعمال نیکیوں سے اس کو سجانا ہے۔ نجانے کب ہمیں اس کو چھوڑ کر آخرت کے گھر میں جانا پڑ جائے۔
رابطہ: 9870971871