گوہرِ نایاب

کاشف شکیل

وہ روز ساحل سمندر کی سیر کو آتا تھا، ریت سے کھیلتا، مدوجزر (جوار بھاٹا) کا نظارہ کرتا،بحر نا پیدا کنار کو ساحل سے ہمکنار ہوتے دیکھ عجیب سی لذت محسوس کرتا، اسے محسوس ہوتا کہ وہ خود بھی ظلمتوں کا بحر بیکراں ہے مگر اسے ہمکنار ہونے کے لیے کوئی ساحل نہیں مل رہا ہے، موجوں کے تلاطم میں اس کا وجود تھپیڑے کھاتا، لہروں کے شور میں اسے موسیقیت کی معراج نظر آتی، سمندر کی تاریکی اسے اپنے دل کی ظلمتوں کا ہلکا سا عکس نظر آتی تھی، ساحل پر بکھرے ریت کے ذروں سے زیادہ اس کے اپنے وجود کے ٹکڑے تھے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ ساری چیزیں اس کا ہدف اصلی نہ تھیں، اس لئے کی وہ کم ظرف ہوتے ہیں جو ساحل پر بیٹھ کر سمندر کا نظارہ کرتے ہیں، جویائے در یتیم تو غوطہ زن ہوتا ہے، “یغوص البحر من طلب اللآلي” ، وہ بزدل ہوتے ہیں جو طوفان آشنا ہونے کی کوشش نہیں کرتے،
اے موج حوادث ان کو بھی دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
اس کی حیثیت محض تماش بین کی نہیں تھی جو سمندر کی اٹکھیلیوں سے محظوظ ہو، بلکہ اس کی منزل وہ گوہر نایاب تھا جس نے غواصوں سے ان کی آنکھیں چھین لیں مگر اذن دید بخشی، وہ موجوں، لہروں یہاں تک مد و جزر کو بہت سطحی خیال کرتا تھا، وہ فکر میں ڈوب کر بس ڈوبنے کی فکر کرتا تھا، اس گوہر دل کو گوہر نایاب کی تلاش تھی،
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
دن گزرتے گئے، عزم پختہ ہوتا گیا، وہ صبح میں جب بھی چائے کے ساتھ بسکٹ کھاتا تو بسکٹ کی حالت پر تعجب کرتا کہ کمبخت چائے میں ڈوب کر اپنا وجود کھو بیٹھا مگر اپنی شیرینی چائے کو دے گیا، فنا فی المحبوب کی کیفیت اس کو بہت بھاتی تھی،
گوہر نایاب کی تلاش پہلے اس کا شوق تھی، پھر طلب ضرورت اور عشق کے مراحل سے گزرتے ہوئے اس کا جنون بن گئی، جنون اور دیوانگی کا دوسرا نام ناعاقبت اندیشی ہے، عشق میں ٹھوکریں کھانے سے عقل آتی نہیں بلکہ مزید چلی جاتی ہے،جہاں عقل کی رسائی ختم ہوتی ہے وہاں سے عشق شروع ہوتا ہے،
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اس نے اپنا وہ جسم جو مٹی کے ڈھیر سے زیادہ کچھ نہیں تھا سمندر کے حوالے کردیا، تاکہ وہ اپنی روح اور دل و جان کے پاس پہنچ کر امر ہو جائے یعنی اپنی طلب صادق کو حاصل کرلے،وہ سمندر کی تہہ میں غائب ہوتا گیا، نیچے اور نیچے مزید نیچے، ساری دنیا ماوراء چھوڑ کر منزل کی تلاش میں نکلا، اور تقدیر نے اس کو منزل تک پہنچا دیا، اس کے دائیں ہاتھ میں گوہر نایاب تھا یعنی معشوق، زندگی کا حاصل، زیست کی روح، دل کی دھڑکن،
وہ ایک زندگی تیاگ کر دوسری زندگی حاصل کر چکا تھا،
ایک جان قربان کرکے دوسری جان پا گیا تھا،
ایک روح فنا کرکے دوسری روح سے رشتہ جوڑ چکا تھا،
مادی نگاہوں نے گرچہ اس کو مردہ سمجھا، بصیرت سے عاری بصارتوں نے گرچہ اس کو ہلاک جانا مگر وہ امر ہو گیا تھا، ابدی حیات سے متصف، شاید اسی لیے سمندر نے اس کو سطح پر نہیں پھینکا کہ اسے معلوم تھا کہ یہ مٹی کا ڈھیر اپنی حقیقی روح کے پاس ہے یعنی گوہر نایاب کے پاس ۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ حافظ

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں