جمعیۃ علماءہند کے بانی کے سلسلے میں اکثر لوگوں کے نزدیک یہ واضح نہیں تھاکہ کون اس کے اولین بانی ہیں،کن لوگوں کی جد و جہد کا نتیجہ ہے۔ حالیہ دو روزہ سمینار میں یہ تصویر صاف ہوگئی کہ اس کے حقیقی اور اولین بانی مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ ہیں ۔ مقالہ نگاروں ،مؤرخین اور محققین نے واضح پر یہ ثابت کیا جمعیۃ علماء ہند مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کی فکر ی اور عملی کوششوں کا نتیجہ ہے۔جمعیۃ علماء ہند کی موجودہ قیادت نے بھی اپنا رشتہ 1917 میں بہار کی سرزمین پر قائم ہونے والی جمعیۃ سے ہی جوڑا ہے
خبر در خبر(584)
شمس تبریز قاسمی
جمعیۃ علماءہند کے قیام کو سو سال مکمل ہورہے ہیں ۔نومبر 1919 میں جمعیۃ علماء ہند کا قیام عمل میں آیا تھا اور نومبر 2019 میں ایک صدی کا سفر مکمل ہوجائے گا ۔تنظیم کے ذمہ داروں نے ایک صدی کا سفر مکمل ہونے پر جشن منانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ نومبر 2019 میں دیوبند کی سرزمین پر تاریخ ساز صد سالہ اجلاس منعقد کرنے کی تیاری جاری ہے ۔اس سے قبل ایک سال کے دوران مولانا محمود مدنی صاحب دامت برکاتہم کی قیادت میں جمعیۃ علماء ہند نے جمعیۃ سے وابستہ مختلف شخصیات اور اکابرین پر سمینار کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے جس کا آغاز جمعیۃ علماء ہند نے اپنے اولین بانی مفکر اسلام مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ اور معروف مؤرخ مولانا محمد میاں دیوبندیؒ کی حیات و خدمات پر گذشتہ 1516دسمبر کو دہلی میں دو روزہ سمینار منعقد کرکے کردیا ہے ۔
جمعیۃ علماء ہند ملک کی موقر،قدیم اور قابل ذکر تنظیم ہے اس کا ماضی شاندار اور قابل فخر ہے۔ ملک کی آزادی اور جدوجہد میں جمعیت علماءہند کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں ۔ 80 کی دہائی تک بے شمار نامور ہستیوں اور اکابرین کی اس سے وابستگی رہی ہے۔
اس مؤقر او رعظیم تنظیم کا پہلا خاکہ مفکر اسلام مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ نے 1917 میں پیش کیا تھا ۔ ان کا ماننا تھاکہ انگریزوں کا مقابلہ کرنے، مسلمانوں کی معاشی ،تعلیمی اور سماجی حالت بہتر بنانے اور ان میں قوت پیدا کرنے کیلئے علماء کا اتحاد ضروری ہے۔ مولانا سجادؒ کے بقول جب سوجہت رکھنے والے علماء ایک ہوجائیں گے تو عوام خود بخود متحد ہوجائے گی ۔ چناں چہ انہوں نے مختلف مسلک و مشرب کے علماءسے رابطہ کیا ،ان کے شکو ک وشبہات کا ازالہ کیا ،سوالوں کا جواب دیا اور بہت مشکلوں کے بعد انہیں قائل کرکے گیا کے مدرسہ انوارالعلوم میں ایک اجلاس طلب کیاجس میں جمعیۃ علماء بہار کی بنیاد ڈال دی۔ انہوں نے جمعیۃ کے اس نظام کو ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی پھیلانے کی کوشش کی ،حسن اتفاق سے متعدد صوبوں میں جمعیۃ کے قیام کی ضرورت بھی محسوس کی جانے لگی۔ نومبر 1919 میں دہلی کی سرزمین پر خلافت کانفرنس ہوئی ،مختلف مسلک و مشرب کے علماء نے اس میں شرکت کی اسی موقع پر مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ اور مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ نے مشورہ کیا کہ ایک علاحدہ میٹنگ کرکے جمعیۃ علماء ہند کی تشکیل کردی جائے ۔ چناں چہ 23 نومبر1919 میں خلافت کانفرنس منعقد ہوئی ۔اس کے اختتام پر مشہور بزرگ حسن رسول نما کی درگاہ پر ایک میٹنگ بلائی گئی ۔مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ ، مولانا ثناءاللہ امرتسریؒ، مفتی کفایت اللہ دہلویؒ ،مولانا احمد سعید دہلویؒ، مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ سمیت تقریباً دس بارہ علماء کرام نے شرکت کی۔ اس میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا کہ جمعیۃ علماء بہار ایک کامیاب تجربہ ہے جس کو ملکی سطح پر اپنانے کی ضرورت ہے اور مختلف الخیال و مختلف مسلک و مشرب کے علماء کی تنظیم جمعیۃ علماء ہندکہلائے گی ۔ اسی سال اگلے ماہ دسمبر میں مولانا ثناءاللہ امرتسریؒ کی دعوت پر جمعیۃ علماء ہند کا پہلا اجلاس عام امر تسر کی سرزمین پر منعقد ہوا جس کی صدارت مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ نے کی ۔ اسی موقع پر دستور اساسی پیش کیا گیا ۔مجلس منتظمہ کی تشکیل عمل میں آئی۔ دوسرا اجلاس عام دہلی کی سرزمین پر 1920 میں ہوا جس میں مالٹا کی جیل سے رہائی ملنے کے بعد شیخ الہند محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ نے بطور صدر اجلاس شرکت کی ۔
جمعیۃ علماء ہند کی یہ ابتدائی تاریخ ہے جس کے اوراق بتارہے ہیں کہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ اس تنظیم کے اولین بانی اور محرک ہیں۔ ہر دور کے نامور علماء، مؤرخین اور انصاف پسند قلم کاروں نے اس حقیقت کا واضح لفظوں میں اعتراف بھی کیا ہے ۔ جمعیۃ علماء ہند کے موجودہ صدر قاری محمد عثمان منصور پوری استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند بھی دو روزہ سمینار میں اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے خطبہ افتتاحیہ میں رقم طراز ہیں :
”جس وقت دنیا میں جنگ عظیم چل رہی تھی اور انگریز خلافت عثمانیہ کو تار تار کرنے کے درپے تھے اور ہندوستان میں اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ سب علماء متحد ہوکر تحریک آزاد ی میں حصہ لیں تو ابوالمحاسن حضرت مولانا محمد سجادؒ صاحب نے ملک کے مختلف علاقوں کے دورے فرمائے ، علماء کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی جہدوجہد فرمائی اور ملکی سطح پر جمیعۃ علماء ہند کے قیام سے قبل اولاً آپ نے صوبہ بہار کی سطح پر جمعیۃ علماء بہار قائم فرمائی اور کام شروع کردیا“
(خطبہ افتتاحیہ ۔صفحہ نمبر 4قاری محمد عثمان بموقع دورزہ سمینار ۔1516دسمبر 2018)
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=2022391277838102&set=pb.100002017472883.-2207520000.1545339931.&type=3&theater
جمعیۃ علماء ہند کے بانی کے سلسلے میں اکثر لوگوں کے نزدیک یہ واضح نہیں تھاکہ کون اس کے اولین بانی ہیں، کن لوگوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ حالیہ دو روزہ سمینار میں یہ تصویر صاف ہوگئی کہ اس کے حقیقی اور اولین بانی مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ ہیں ؛ مقالہ نگاروں، مؤرخین اور محققین نے واضح پر یہ ثابت کیا جمعیۃ علماء ہند مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کی فکر ی اور عملی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی موجودہ قیادت نے بھی اپنا رشتہ 1917 میں بہار کی سرزمین پر قائم ہونے والی جمعیۃ سے ہی جوڑا ہے جس کا اولین نام بعض نے جمعیۃ علماء بہار اور بعض نے انجمن علماء بہار لکھا ہے۔ اسی تاریخ کو حقیقی بنیاد مانتے ہوئے پاکستان کی جمیعۃ علماء اسلام نے سال 2017 میں ہی اپنا صد سالہ اجلاس منالیا تھا ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا سہرا صرف انہیں ہی تنہا دیا جائے بلکہ اس کی بنیاد میں معاصر علماء مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، مولانا ثناءاللہ امرتسریؒ ، مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ اور مولانا احمد سعید دہلویؒ بھی شریک ہیں اور وہ تمام افراد اس کے بانی ہیں جنہوں نے حسن رسول نما کی درگا ہ پر منعقد ہونے والی پہلی میٹنگ میں شرکت کی تھی۔
مولانا سجاد رحمۃ اللہ علیہ بے پناہ خوبیوں کے حامل، زمانہ شناس ،فقیہ النفس ،ملت کے بہی خواہ ،عظیم سیاست داں اور حقیقی معنوں میں مفکر اسلام تھے۔ ان کی ہزاروں خوبیوں میں سب سے اہم خوبی یہ تھی کہ وہ صرف کام کرنا جانتے تھے امت کی بھلائی اور خیرخواہی ان کا مشن تھا ،شہرت ، عہدہ اورنام نمود سے کوسوں دور رہتے تھے چناں جمعیۃ علماء ہند انہوں نے قائم کیا لیکن صدر کسی اور کو بنایا ۔ امارت شرعیہ کی بنیا د ڈالی اور امیر شریعت کسی اور کو بنایا ۔ بہار میں حکومت بنائی لیکن وزیر اعلی خود بننے کے بجائے کسی اور کو اس عہدہ پر فائز کیا۔ ان کا یہ خلوص تھا جس کی نظیر آج چراغ جلاکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ انہوں نے جو فکر پیش کی جو نظریہ دیا اسی کے ارد گرد آج ہندوستان کی تمام نامور تنظیمیں کام کررہی ہیں خواہ وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہو، جمعیۃ علماء ہند ہو، آل انڈیا ملی کونسل ہو یا امارت شرعیہ ۔ ان کا یہ نظریہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اپنایا جارہا ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد صاحب علم و بصیرت کو مین نے یہ کہتے ہوئے سناہے کہ بیسویں صدی میں ہندوستان کی سرزمین پر مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ سے بڑا کوئی مفکر پیدا نہیں ہوا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج جو لوگ ان تنظموں میں قیادت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں وہ انہیں امارت شرعیہ کا بانی کہنے کے بجائے پہلے نائب امیر شریعت کہتے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کی تاریخ میں بانی لکھنے کے بجائے جنرل سکریٹری اور محرک بتایا جاتا ہے ۔
مذکورہ سمینار کا افتتاحی اجلاس کانسٹی ٹیوشن کلب کے ماﺅلنکر ہال میں ہوا تھا ۔ راقم الحروف بھی وہاں شریک تھا ۔ملک کے نامور اکابرین نے بہت واضح لفظوں میں مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ اور مولانا محمد میاں دیوبندیؒ کی حیات و خدمات کا تذکرہ کیا۔ علماء نے اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے قیام کا یہ مقصد بھی واضح انداز میں بتایاکہ مختلف الخیال اور مختلف مسلک و مشرب کے علماء کے کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی غرض سے اس کی تشکیل دی گئی کیوں کہ ان بزرگوں کا ماننا تھا کہ علماء کے متحد ہونے کے بعد عوام خود متحد ہوجائے گی اور مسلمانوں کی سیاسی وسماجی قوت میں اضافہ ہوگا۔ ہمار ا خیال ہے کہ کسی تنظیم کے بانیوں اور اکابرین کی خدمات تذکرہ کرتے وقت مقالہ نگاروں اور مقررین کو اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہیئے کہ جو تنظیم مختلف مسلک و مشرب کے علماء کو متحدہ کرنے کیلئے قائم کی گئی تھی آج وہ کس نہج پر ہے ؟۔ اس کے بانی کے افکار و خیالات ملحوظ رکھے جارہے ہیں یا نہیں؟، موجودہ زمانے میں مختلف مسلک کے علماء کی نمائندگی پائی جاتی ہے یا نہیں ؟ اور ایک صدی مکمل ہوجانے کے بعد آج مختلف الخیال لوگوں کیلئے اس تنظیم میں کتنی گنجائش باقی رہ گئی ہے جس کی بنیاد ہی مختلف الخیال اور مختلف مسلک و مشرب کے علماء کو شامل کرنے کیلئے پڑی تھی۔
جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی قابل صد مبارکباد ہیں جنہوں نے ایک اہم ، علمی اور مثبت فیصلہ لیکر اکابرین جمعیۃ پر سمینار کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیاہے ۔آئندہ دنوں میں جمیعۃ علماء ہند کی بنیاد اور تحریک میں شامل مولانا احمد سعید دہلویؒ، مفتی کفایت اللہ دہلیؒ، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ سمیت متعدد اکابرین پر سمینار کا انعقاد کیا جائے گا۔ خدا کرے یہ سلسلہ پابندی کے ساتھ جاری رہے اور یونہی اکابرین کی حیات و خدمات سے نئی نسل کو واقف ہونے کا موقع ملتا رہے۔ عالی جناب مولانا محمود مدنی اور جمعیۃ علماء ہند کے تمام ارکنان کو ایک مرتبہ پھر تہ دل سے مبارکباد ۔
( مضمون نگار تجزیہ نگار اور ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)
stqasmi@gmail.com