ڈاکٹر فرقان حمید
ترکی اور امریکہ کے تعلقات، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی طرح اونچ نیِچ کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ ترکی اور پاکستان امریکہ کے بہت قریبی اور قدیم اتحادی ممالک ہیں۔ اگرچہ امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اس وقت سرد مہری کا شکار ہیں اور کم و بیش یہی حال ترکی اور امریکہ کے تعلقات کا بھی تھا۔ خاص طور پر امریکہ کے شام میں اپنے فوجی دستے بھیجنے اور شام میں ترکی کی دہشت گرد تنظیموں پی کے کے، پی وائی ڈی اور وائی پی جی کی پشت پناہی کرنے کے ساتھ ساتھ ان تنظیموں کے اراکین کو فوجی تعلیم و تربیت دیے جانے پر دونوں ممالک کے درمیان موجود قریبی تعلقات کشیدگی کا روپ اختیار کرتے رہے۔ ترکی نیٹو میں امریکہ کے بعد فوجی دستوں کی تعداد کے لحاظ سے سب سے بڑا اتحادی ملک ہے لیکن شام کی صورت حال کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان خاص طور پر صدر ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے سرد مہری کا شکار چلے آرہے تھے۔ اگرچہ دونوں رہنماوں کے درمیان کئی بار ملاقات بھی ہوچکی ہے لیکن امریکہ کی جانب سے ان دہشت گرد تنظیموں کے علاوہ ترکی میں 15 جولائی سنہ 2016 کو ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے والی دہشت گرد تنظیم ” فیتو ” کے سرغنہ کے امریکہ میں پناہ لینے اور وہاں سے ایردوان کے خلاف کاروائیوں جاری رکھنے کی وجہ سے دونوں اتحادی ممالک ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے لیکن ان دونوں رہنماوں کے درمیان اکثر و بیشتر ٹیلی فون پر شام اور علاقے کی صوررتِ حال پر بات چیت ہوتی رہی اور صدر ایردوان امریکی صدر کو علاقے میں موجود کرد دہشت گردف تنظیموں سے پیچھا چھڑانے کے لیے مسلسل دباو ڈالتے رہے لیکن امریکی صدر اُن کی سنی ان سنی کرتے رہے تاہم ان کو اس بات کا بھی یقین تھا کہ اگر شام میں دہشت گرد تنظیم ” داعش” کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے تو یہ ترکی کی مدد کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ وہ اس بات سے بھی آگاہ تھے علاقے میں ترک فوج کی جانب سے مختلف علاقوں میں دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف فوجی آپریشن میں ترکی بڑے پیمانے پر کامیابی بھی حاصل کرچکا ہے لیکن امریکہ کی دہشت گرد تنظیم پی کے کے، پی وائی ڈی، وائی پی جی کی پشت پناہی کیے جانے سے وہ نتائج حاصل نہ کیے جاسکے جس کا امریکہ توقع کیے بیٹھا تھا۔ امریکہ نے اگرچہ گزشتہ سال بھی شام سے اپنے فوجیوں کا انخلا شروع کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن علاقے کے حالات کی وجہ سے وہ ایسا کرنے میں ناکام رہا تھا۔ دسمبر 2017 میں امریکی برگیڈیئر جنرل جوناتھن براگا نے کہا تھا کہ ’’ہم شام سے لڑاکا افواج کی تعداد میں کمی لا رہے ہیں۔” یعنی امریکہ گزشتہ سال ہی سے شام سے نکلنے کی تیاریاں کررہا تھا لیکن حالات ان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ شام میں ترکی کی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی اور ان دہشت گردوں کے ساتھ گھل مل جانے کے عمل پر ترکی مسلسل امریکہ کو تنقید کا نشانہ بناتا رہا لیکن ترکی کی جانب سے علاقے میں امریکہ کے دباو کے باوجود مختلف علاقوں میں کامیاب فوجی آپریشن کے نتیجے میں امریکہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی پر مجبور ہوگیا اور خاص طور پر صدر ایردوان کے روس کے صدر کے ساتھ قریبی مراسم اور روس سے ایس 400 دفاعی میزائلوں کے سودے نے امریکہ کو ترکی اور شام سے متعلق اپنی پالیسی میں نظر ثانی پر مجبور کردیا اور اسی مجبوری کے نتیجے میں امریکی صدر ٹرمپ نے کئی بار بلمشافہ اور ٹیلی فون پر علاقے کی صورتِ حال کا تمام پہلووں سے جائزہ لیا۔ صدر ایردوان اور صدر ٹرمپ کے درمیان مسلسل رابطے کے نتیجے میں صدر ایردوان نے صدر ٹرمپ کو شام سے فوجی انخلا کے معاملے میں قائل کرنے میں کامیابی حاصل کی اور اس کے بعد ہی صدر ٹرمپ نے اپنے فوجیوں کو شام سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس بارے میں سابق امریکی نائب وزیر خارجہ اور ریٹائرڈ جنرل مارک کیمیت کا کہنا ہے کہ ” صدر رجب طیب ایردوان نے شام کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو آمادہ کیا ہے۔” انہوں نے اپنے ایک جائزے میں لکھا کہ” ترکی امریکہ کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل ملک ہے۔ ٹرمپ کا شام سے انخلاء کرنے کا فیصلہ انقرہ کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے حوالے سے ایک ٹھیک سمت میں اٹھایا گیا ایک قدم ہے کیونکہ دہشت گرد تنظیم ،پی کے کے، پی وائی ڈی اور وائی پی جی کی شام میں موجودگی اور دہشت گرد تنظیم فیتو سے امریکہ کے تعاون سے تعلقات کو نقصان پہنچ رہا تھا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ٹرمپ کا ترکی سے تعاون کو بڑھانے کا فیصلہ ایک صحیح اقدام ہے۔ ” ترک صدر رجب طیب ایردوان نے امریکی فوجیوں کے انخلا سے متعلق بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ “امریکی صدر ٹرمپ نے ان کو ٹیلی فون کرتے ہوئے ترک فوجی دستوں کے شام میں باقی ماندہ داعش کے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنے اور ان کا مکمل صفایا کرنے کی صلاحیتوں کا مالک ہونے سے متعلق جب سوال کیا تو میرے مثبت جواب اور امریکہ کی جانب سے لاجسٹک امداد فراہم کرنے کی یقین دہانی پر صدر ٹرمپ نے شام سے اپنے فوجیوں کے انخلاء کا فیصلہ کیا۔ ” صدر ایردوان نے صدر ٹرمپ کو یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ ” ہم نے جس طریقے سے جرابلس سے 3000 داعش کے دہشت گردوں کا صفایا کیا ہے بالکل اسی طرح علاقے میں رہ جانے والے باقی ماندہ داعش کے دہشت گردوں کے علاوہ پی کے کے، پی وائی ڈی اور وائی پی جی کے دہشتگردوں کا بھی صفایا کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔”
ترک صدر رجب طیب ایردوان کی امریکی صدر کو یقین دہانی کے بعد صدر ٹرمپ نے غیر متوقع طور پر بدھ کی صبح سوشل میڈیا میں اپنے ٹوئٹر اکاونٹ سے جلد ہی شام سے اپنے فوجیوں کے انخلا کے عمل کو شروع کرنے کااعلان کرتے ہوئے نہ صرف اپنے قریبی ساتھیوں بلکہ دنیا بھر کو حیران کردیا۔ اس اچانک اعلان کے بعد سوشل اور مین اسٹریم میڈیا میں بحث شروع ہوگئی تھی اور کئی سوالات اٹھائے جا رہے تھے جس کے جواب میں وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کو الگ الگ بیانات جاری کرنا پڑے تھے۔صدر کے ٹوئٹ پر اپنے وضاحتی بیان میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز نے کہا ہےکہ داعش کے خلاف مہم دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے جس سے قبل امریکہ نے شام سے اپنے فوجی دستے واپس بلانا شروع کردیے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ شام میں اتحادی فوج کی عسکری مہم ختم ہو رہی ہے۔ ان وضاحتی بیانات کے بعد بدھ کی شام صدر ٹرمپ نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں انہوں نے داعش کے خلاف فتح کا دعویٰ دہراتے ہوئے شام میں تعینات امریکی افواج کی واپسی کا بھی اعلان کردیا اور پینٹاگون نے شام سے امریکی افواج کے انخلا کی تفصیلات بھی جاری کردی ہیں جس کے مطابق فوجی دستوں کی واپسی 60 سے 100 دن کے اندر مکمل کرنے سے آگاہ کیا گیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان نے امریکہ کی جانب سے شام سے انخلا کے پروگرام کا اعلان کرنے کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ” ہم دہشت گرد تنظیم داعش کے خاتمے کے لیے اپنے منصوبے پر کام کرتے رہیں گے اور صدر ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے نتیجے میں شام میں اپنی موجودگی برقرار رکھیں گے۔” انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے فوجیوں کے شام سے انخلاء کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے اور اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ علاقے کو دہشت گرد تنظیم داعش سے پاک رکھیں۔ شام سے امریکی فوجیوں کا انخلا بڑے منظم طریقے سے جاری ہے اور امریکی فوجی سازو سامان اور فوجی دستوں کو ترکی منتقل کرتے ہوئے امریکہ روانہ کیا جا رہا ہے۔ علاقے میں بڑے پیمانے پر فوجی گاڑیوں کی نقل و حرکت دیکھی جا رہی ہے۔ ٹرک،بکتر بند گاڑیاں اور ٹینک قافلے کی حالت میں ترکی کے علاقے کلیس کے سرحدی قصبے البیلی پہنچ چکے ہیں جہاں ان گاڑیوں کو سخت حفاظتی اقدامات میں ترک فوجی چھانیوں میں پہنچایا جا رہا ہے۔
Mob:+90 535 870 06 75
furqan61hameed@hotmail.com