ملت ٹائمز کی سروس اب اردو کے ساتھ ہندی اور انگریزی میں بھی دستیاب ہے ۔اس کے علاوہ ملت ٹائمز کا یوٹیوب چینل بھی فعال ہے ۔ملت ٹائمز کی خبریں ویب سائٹ ،فیس بک ،ٹوئٹر ،یوٹیوب ،وہاٹس ایپ او ردیگر ذرائع سے تقریبا یومیہ ڈھائی لاکھ لوگوں تک پہونچ رہی ہے
(خاص رپوٹ)
سال 2018 ملت ٹائمز کیلئے بہت اہم رہا ۔ا س سال ملت ٹائمز کی تقریبا دس سے زیادہ اسٹوری اور خبریں حکومت ،انتظامیہ ،ملی تنظیم اور سماج پر اثر انداز ہوئیں ۔قارئین کی تعداد میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ۔ ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل اور فیس بک بیج پرفلوورز اور سبسکرائب کی تعداد بھی کافی تعداد میں بڑھی ۔2018 اس لئے بھی ملت ٹائمز کے یادگار رہے گا کہ اس سال ادارے کو حقائق پر مبنی خبریں چھاپنے کی پاداش میں مقدمات کا سامنا کرناپڑا اور کئی طرح کی نوٹس بھی ملت ٹائمز کے خلاف جاری کی گئیں ۔کچھ لوگوں نے بغیرکی وجہ کے شبیہ خراب کی سازش رچی ۔
سال 2018 میں ملت ٹائمز کی سب سے مشہور اور موثر خبر سیتامڑھی میں ہوئی ماب لنچنگ کے بارے میں ثابت ہوئی جسے میڈیا ،حکومت اور مقامی لوگوں نے چھپادیاتھاتاہم ملت ٹائمز میں خبر آنے کے بعد 80 سالہ زین الانصاری کے بہیمانہ قتل کا انکشاف ہوا ۔ انڈین ایکسپریس ۔بی بی سی ،آج تک ،این ڈی ٹی وی ،دی کوئنٹ اور دی وائر وغیرہ نے ملت ٹائمز کی بنیاد پر یہ خبر نمایاں طور پر شائع کی ۔ بہار اسمبلی میں بھی اس مسئلے کو اٹھایا گیا اور اپوزیشن نے نتیش سرکارکو ذمہ ٹھہرایا۔
سال 2018 میں ملت ٹائمز کی ایک اور مشہورترین اور موثر خبر عشرت جہاں کے بارے میں انکشاف ہے جسے اس کے شوہر مر تضی انصاری نے کوئی طلاق نہیں دیا ہے ۔طلاق ثلاثہ کے خلاف جن پانچ خواتین نے سپریم کورٹ کا درواز ہ کھٹکھٹایاتھا اس میں نواد ہ بہار سے تعلق رکھنے والی عشرت جہاں بھی ہے ۔ ملت ٹائمز نے اس کے شوہر مرتضی انصاری سے براہ راست بات کی جس میں انہوں نے بتایاکہ ہم نے عشرت جہاں کو کوئی طلاق نہیں دی ہے ۔اس کا ایک لڑکے کے ساتھ معاشقہ چل رہاتھا جس کی بنیاد پر وہ میرے گھر سے بچوں کو چھوڑ کر فرار ہوگئیں ۔مرتضی انصاری کی تائید ان کے چار بچوں اور گاﺅں کے سرکردہ لوگوں نے بھی کی تھی ۔ ملت ٹائمز کی تحقیقی رپوٹ بھی بہت مقبول ہوئی ۔انڈین ایکسپریس ،دی ہندو ،ڈی این اے،ماہنامہ ایسٹرن کریسنٹ سمیت کئی قومی اخبارات اور میڈیا نے اس مسئلے کو اٹھایا ۔
2018 میں اثر انداز ہونے والی ملت ٹائمز کی تیسری اہم خبرکا تعلق سعودی عرب سے ہے ۔وہاں بہار کے مدھوبنی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان الطاف احمد کی موت ہوگئی تھی اور کمپنی میت کے رشتہ داروں اور اقربا کو ملاقات کی اجازت نہیں دی رہی تھی ۔ نہ ہی اہل خانہ کو معلومات فراہم کی جارہی تھی ۔ستمبر 2018 میں ملت ٹائمز نے یہ خبر شائع کی تھی جس کے بعد ہندوستانی سفارت خانہ برائے سعودی عرب نے فوری توجہ دی اور ٹوئٹر پر ریپلا ئی کرتے ہوئے تفصیلات طلب کی اورکہاکہ مکمل معلومات دیں معاملہ حل کیاجائے گا جس کے بعد لاش کو گھر بھیجا گیا ۔
سال 2018 کی چوتھی اثر انداز خبر کا تعلق بہا رسے ہے ۔درگا پوجا کے زمانے میں سیتامڑھی اور شیوہر کے درمیان واقع گاﺅں روپولی کے حالات کشید ہ تھے اور مسلمانوں میں خوف ودہشت کا ماحول تھا ۔اکثریتی فرقہ نے مسلمانوں پرحملہ کی مکمل منصوبہ بندی کررکھی تھی اور کسی موقع کا انتظار تھا ۔اس دوران گاﺅں والوں نے ملت ٹائمز کو پورے حالات سے آگاہ کیا ۔ملت ٹائمز میں تفصیلی رپوٹ آنے کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی ۔ ایس پی اور دیگر افسران نے گاﺅں میں جاکر دونوں گروہ میں صلح سمجھوتہ کرایا اورمعاملات کو کنٹرو ل کیا ۔ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل پر یہ خبر 30 اکتوبر 2018 کو شائع ہوئی تھی ۔
دہلی کے جامعہ نگر میں ایک علاقہ ڈھوبی گھاٹ کہلاتا ہے ۔جہاں جگی جھونپڑی میں مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے ۔خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے یہاں کے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دینے کے بجائے ان سے کام کراتے ہیں ۔ملت ٹائمز کے نمائندہ محمد منو رعالم نے یہاں جاکر تفصیلی رپوٹ کی ۔ملت ٹائمز کی رپوٹ دیکھنے کے بعد ایکٹیوسٹ محترمہ شمع خان نے اس علاقے کا جاکر دورہ کیا اور وہاں انہوں نے بچوں کو مفت میں تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا ۔اس وقت محترمہ شمع خان تقریبا چالیس بچوں کو مفت میں تعلیم دے رہی ہیں اورتعلیم سے متعلق اخراجات بھی وہ اپنی این جی او کی جانب سے پوراکرتی ہیں ۔ڈاکٹرعرشیہ بھی اس مہم میں ان کے ساتھ ہیں ۔سماج او رمعاشرہ پر اثر انداز ہونے والی ملت ٹائمز کی یہ پانچویں اہم خبر ہے ۔
ملت ٹائمز کی چھٹی نمایاں ترین خبر کا تعلق معروف عالم دین مولانا سلمان ندوی استاذ حدیث دارلعلوم ندوة العماءسے ہے ۔مولانا سلمان ندوی صاحب نے شری شری روی شنکر سے ملاقات کرکے بابری مسجدکا مسئلہ عدلیہ سے باہر حل کرنے کی کوشش کی تھی اور ان کی تجویز تھی کہ مسلمان بابری مسجد کی دعویداری سے دستبر دار ہوجائیں ۔ملت ٹائمز نے سب سے پہلے یہ رپوٹ شائع کی تھی جس میں شری شری روی شنکر کے ساتھ ہوئی ان کی خفیہ میٹنگ کی معلومات فرہم کی گئی ۔ جس کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے اس مسئلے پر خصوصی توجہ دی ۔بورڈ کے جنرل سکریٹری نے ملت ٹائمز کے ساتھ بات کرتے ہوئے یہ بھی اعتراف کیاکہ مولانا عاملہ کی میٹنگ میں اس طرح کی اب تک کوئی تجویز پیش نہیں کی ہے۔ اس خبر کی بنیاد پر ملت ٹائمز کو مسلمانوں کے ایک مخصوص گروپ کی جانب سے بے پناہ مخالفت اور تنقید کا بھی سامناکرناپڑا ۔سوشل میڈیا پر مسلسل ملت ٹائمز کی مخالفت میں ٹرینڈبھی چلایاگیا۔
دہلی میں مسلم اکثریتی آباد ی پر مشتمل ایک محلہ ابو الفضل انکلیو ہے ۔ یہاں الشفاءہسپتال کے سامنے کئی سالوں سے کوڑے پھینکے جارہے تھے ۔راستے سے گزرنے والوں کو بے پناہ تکلیف کا سامناکرناپڑتاتھا۔ متعدد مرتبہ مسلمانوں نے احتجاج کیا ،ریلی نکالی اور حکومت سے صاف کرانے کا مطالبہ کیا ۔اس پورے مسئلے پر ملت ٹائمز کے نمائندہ منور عالم نے ستمبر2018 میںتفصیل کے ساتھ رپوٹنگ کی ۔ علاقائی لوگوں سے بات چیت کی اور حکومت کی کارکردگی پر سوال قائم کیا ۔اب وہاں کی صفائی ہوگئی ہے اور گزرنے والوں کو پریشانی کا سامنا نہیں کرناپڑرہاہے ۔ اس طرح یہ ملت ٹائمز کی یہ ساتویں نمایاں اسٹوری رہی جو دہلی کی کجریوال سرکار پر اثر انداز ہوئی ۔
انتظامیہ پر اثر انداز ہونے والی ملت ٹائمز کی آٹھویں اہم اسٹوری کا تعلق گڑگاﺅں سے ہے جہاں کچھ شرپسندوں کے ذریعہ مسلمانوں کو نماز میں رخنہ پیدا کرنے اور ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ ملت ٹائمز کے ذریعہ یہ خبر منظر عام پر آنے کے بعد ہریانہ پولس نے اس معاملے میں 6 افراد کو گرفتار کیا۔ گرفتار شدگان میں ارون، منیش، دیپک، مونو عرف نمبردار، موہت اور رویندر شامل تھے، انھوں نے نہ صرف مسلمانوں کو نمازِ جمعہ پڑھنے سے روکا بلکہ انھیں ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے کے لیے بھی کہاتھا۔ ان نوجوانوں پر تعزیرات ہند کی کئی دفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
ملت ٹائمز کی نویں اہم خبر کا تعلق آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ سے ہے ۔بورڈ نے سال گذشتہ سوشل میڈیا ڈیسک کے قیام کا اعلان کیاتھا لیکن یہ منجمد پڑا ہواتھا اور اس پر کوئی کام نہیں ہورہاتھا ۔ملت ٹائمز نے ایک اسٹوری شائع کرکے ذمہ داروں کی توجہ اس جانب دلائی کی کہ سوشل میڈیا پر صرف اکاﺅنٹ بناکر چھوڑ دیاگیا ہے ۔وہاں کسی طرح کی کوئی اپڈیٹ نہیں ہور ہی ہے ۔ویب سائٹ پر بھی تازہ اپڈیٹ نہیں ہے ۔ملت ٹائمز کی اسٹوری آنے کے بعد آل انڈیا مسلم پرنسل لاءبورڈ کے سوشل میڈیا انچار ج نے اس پر توجہ دی اور سوشل میڈیاڈیسک کو فعال بنایا ۔اب بورڈ کا سوشل میڈیا ڈیسک مسلسل اپڈیٹ ہورہاہے اور ایک بڑی تعداد فیس بک ،ٹوئٹر اور وہاٹیس ایپ وغیرہ کے ذریعہ بورڈ سے وابستہ ہے ۔
نئی دہلی سے متصل ایک علاقہ نبی کریم کہلاتاہے یہاں بہار اور یوپی کے مسلمان بڑی تعداد میں بیگ کا کاروبار کرتے ہیں ۔تاہم 2018 کے اخیر میں سیلنگ سے یہاں کے لوگوں کی زندگی درہم برہم ہوگئی ۔کئی لوگوں کو کارخانہ بند کرنا پڑا ۔بہت سارے بے روزگا رہوگئے ۔ملت ٹائمز نے اس پورے معاملے پر گراﺅنڈ رپوٹ کی اورعوام کی زبانی ان کے مسائل کو دنیا کو سامنے پیش کیا جس کے بعد وہاں کے علاقائی لیڈر ہارون یوسف ، ایم ایل اے عمران حسین وغیرہ نے معاملے پر توجہ دی ۔دہلی کی عام آدمی پارٹی نے بھی اس مسئلہ کو اٹھایا ہرچند کہ سیلنگ کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے اور پریشانیاں برقرار ہے ۔بہر حال اس طرح یہ ملت ٹائمز کی دسویں اہم خبر ہے ۔
دہلی کے بیگم پور میں اکتوبر 2018 میں مدرسہ کے طالب علم محمد عظیم کو اکثریتی فرقہ کے بچوں نے بے دردی سے ماردیاتھا ۔اس پورے واقعہ کی ملت ٹائمز کے نمائندہ منورعالم نے جاکر گراﺅنڈ رپوٹ کیا اور قتل کی اصل وجہ کو پیش کیا ۔دہلی سرکار اور پولس نے اس معاملے میں فوری توجہ دی ۔
اس کے علاوہ بھی ملت ٹائمز کی دسیوں ایسی خبریں ہیں جو سماج اور معاشرہ پر اثر انداز ہوئی ہیں ۔کچھ معاملے ایسے بھی ہیں جسے ملت ٹائمز نے خبر بنانے کے بجائے اندورنی طور پر سلجھانے کا کام کیا جس میں ایک معاملہ طلاق کاہے ۔بہار سے کی ایک خاتون نے ملت ٹائمز سے رابطہ کرکے اپنے شوہر کی طرف سے ہورہے مظالم کی داستان سنائی اور کہاکہ اس نے مجھے ایک طلاق دے دی ہے ۔براہ کرام آپ میری خبر شائع کریں تاکہ ہمیں انصاف مل سکے ۔ملت ٹائمز نے اس خبر کو منظر عام پرلانے کے بجائے خاتون کو سمجھانے کی کوشش کی ،شوہر سے گفتگوکی گئی ،گاﺅں کے کچھ سرکردہ لوگوں کی توجہ اس جانب دلائی گئی جس کے بعد یہ رشتہ بحال ہوااور اب وہ خاتو ن اپنے شوہر کے ساتھ ہے ۔(شوہر اور بیوی کا نام یہاں قصد ا نہیں لکھاگیاہے ۔ معاملہ شمالی بہار کا ہے )
مذکورہ خبریں وہ ہیں جو حکومت اور سماج پر اثر اانداز ہوئی ہیں اور اس کا فائدہ سامنے آیاہے ۔ملت ٹائمز کو ان خبرو ں کی بنیاد پر متعدد طرح کی پریشانیوں کا بھی سامناکرناپڑاہے ۔ اس کے علاوہ بھی ملت ٹائمز کی پچاسوں ایسی خبریں ہیں جو سماج اور حکومت پر اثرانداز ہوئی ہے۔
سال 2018 میں ملت ٹائمز کو حکومت اور سماج کی جانب سے کئی طرح کی مخالفت کاسامناکرناپڑا ۔بہار سرکار نے نوٹس بھیج کر ملت ٹائمز پر کیس کرنے کی دھمکی دی ۔فیس بک اور یوٹیو ب سے ویڈیو ڈیلیٹ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسی سال اپریل2018 میں دیوبند کے ایک مولانا نے ملت ٹائمز کے خلاف نوٹس بھیج کر ملک کی داخلہ سلامتی کیلئے خطرہ بتاتے ہوئے اس پر دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا ۔ حکومت وعدلیہ سے این آئی اے سمیت متعدد ایجنسیوں سے تحقیق کرانے کا مطالبہ کیا اور اس پر بین لگانے کی اپیل کی،ملت ٹائمز کے علاوہ یہ نوٹس ملت ٹائمز کے بانی ایڈیٹر اور کئی دیگر ذمہ داروں کے نام بھی بھیجی گئی تھی ۔یوٹیوب اور فیس بک کی جانب سے بھی ملت ٹائمز کو کئی طرح کی پریشانیوں کا سامناکرنا پڑا ۔یوٹیوب نے روہنگیا میں ہوئے مظالم ،زین الانصاری کی لنچگ اور اس طرح کی کئی اہم ویڈیو ڈیلیٹ کردی اور موناٹئزیشن بھی بند کردیاہے ۔فیس بک نے بھی ملت ٹائمز کی کئی اہم اسٹوری ڈیلیٹ کردی ۔کئی اہم شخصیات نے بھی ملت ٹائمز کی شبیہ بگاڑ اور نقصان پہونچانے کی کوشش کی لیکن ملت ٹائمز کی پوری ٹیم مثبت انداز میں اپناکام کرتی رہی ۔
ملت ٹائمز کی سروس اب اردو کے ساتھ ہندی اور انگریزی میں بھی دستیاب ہے ۔اس کے علاوہ ملت ٹائمز کا یوٹیوب چینل بھی فعال ہے ۔ملت ٹائمز کی خبریں ویب سائٹ ،فیس بک ،ٹوئٹر ،یوٹیوب ،وہاٹس ایپ او ردیگر ذرائع سے تقریبا یومیہ ڈھائی لاکھ لوگوں تک پہونچ رہی ہے ۔