عدیل اختر
بابری مسجد کا مقدمہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیر سماعت ہے، اور یہ لگ رہا ہے کہ قانونی چارہ جوئی کا یہ عمل اب اپنے آخری مرحلہ میں آ پہنچا ہے۔ کوئی نہ کوئی فیصلہ اس سال میں غالباً آ ہی جائے گا، جس کے بعد ملک کے سیاسی اور قانونی نظامِ کا مستقبل طے ہو گا۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ یعنی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جملہ مسلم عوام کسی بھی فیصلے کو سننے اور سمجھنے کے لئے اپنا ذہن تیار کریں تاکہ اس فیصلے کے بعد شروع ہونے والے نئے دور میں مسلمان ہوش و حواس کے ساتھ قدم رکھ سکیں۔
جیسا کہ معلوم ہے، یہ مقدمہ زمین کی ملکیت کا مقدمہ ہے اور عدالت کو یہ فیصلہ سنانا ہے کہ جو زمین بابری مسجد سے منسوب ہے وہ زمین کس کی ملکیت میں ہے۔ کیا بابری مسجد تعمیر کرنے والوں نے خود اپنے اختیار اور ملکیت والی زمین پر مسجد تعمیر کی تھی یا کسی دوسرے کی ملکیت پر قبضہ کر کے مسجد بنائی گئی تھی، اور یہ کہ اتر پردیش سنی سںینٹرل وقف بورڈ اس کا جائز متولی ہے یا نہیں۔
جیسا کہ ہم مسلمانوں کا یقین و اعتماد ہے ، تاریخ اور آثار قدیمہ کے ماہرین کی گواہیاں ہیں، اور قانونی اعتبار سے غیر جانب دارانہ رائے رکھنے والے مستند لوگوں کا نظریہ ہے اور خود بابری مسجد میں مورتیاں رکھنے سے لے کر اسے منہدم کر دینے تک کے واقعات کا سلسلہ سب کی نظر میں ہے، یہ توقع یقین کی حد تک رکھنا چاہیے کہ عدالتی فیصلہ اگر صرف قانونی بنیادوں پر ہوا تو وہ زمین بابری مسجد کی ملکیت قرار دی جانے گی اور مسلمان یہ مقدمہ جیت لیں گے۔ لیکن اگر ایسا ہوا، اور اللہ کرے ایسا ہی ہو، تو مسلمانوں کی یہ جیت خود ان کے لئے بہت بڑا چیلنج ہوگی۔ غنڈہ گردی پر آمادہ فریق مخالف قانون کے اس فیصلے کو قبول نہیں کرے گا اور اپنی شکست اسے برداشت نہ ہوگی۔ غنڈہ گردی اور دہشت گردی کی تاریخ رکھنے والا یہ فریق اپنے اس کردار کے ساتھ ملک میں دہشت گردی کا بازار گرم کر ے گا اور اس کا نشانہ یقینی طور سے مسلمان ہوں گے۔ چنانچہ مقدمہ میں مسلمانوں کی جیت نہ صرف مسلمانوں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہوگی بلکہ خود عدالتی اور دستوری نظام کے لئے بھی ایک چیلنج ہوگی۔ اس لئے اپنی جیت کی توقع کے ساتھ ساتھ اپنی جیت کو خود اپنے اور باقی أہل ملک کے لئے فلاح و کامرانی کا ذریعہ بنانے پر بھی ہمیں ابھی سے غور کرنا ہوگا۔
ہم مسلمان اس زمین پر اللہ کی کبریائی بیان کرنے اور قائم کرنے والا گروہ ہیں اور اللہ کی رضا وپسند کو پورا کرنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اسی کے ساتھ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں اور زمین پر انبیائی سلسلہ کی ایک کڑی ہیں۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں ہم زمین پر” خدا کا آخری پیغام” ہیں۔
بابری مسجد کا تنازعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے جتنا حساس اور نازک ہو گیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اپنے دینی شعور کو پوری قوت، صبر اور حکمت کے ساتھ برو ئے کار لائیں اور اس موقع کو اپنا امتی کردار سامنے لانے کے لئے استعمال کریں۔
اللہ تعالیٰ کی شان بلند ہے، وہ عزوجل ہے اور اسی کے ساتھ رحیم و کریم ہے۔ وہ رب العالمین ہے اور اس کے نبی ہمارے سید و سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ اللعالمین ہیں۔ اللہ تعالیٰ زمین پر فتنہ کو بھی پسند نہیں کرتا اور فساد کو بھی پسند نہیں کرتا۔ مسجد کو بت خانہ بنانا اور بے حرمتی کے ساتھ اسے منہدم کردینا انتہائی درجہ کا فتنہ بھی ہے اور انتہائی درجہ کا ظلم و فساد بھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعہ ہم مسلمانوں کو فتنہ وفساد کا قلع قمع کرنے کی عملی تعلیم دی ہے۔ رسول اللہ کا طریقہ کار ہمارے لئے اسوہ ہے۔ اللہ کے نبی نے جنگ کی ہے، جنگ میں ڈٹ جانے کی تعلیم دی ہے اور حق کی خاطر جنگ میں جان لینے و جان دینے کا ہنر سکھایا ہے۔ اللہ اور اللہ کے نبی نے جنگ کا خوف دلوں سے نکالا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اپنی تعداد کی قلت اور دشمن کی کثرت کو نہ دیکھنا، اللہ نے بارہا چھوٹے گروہوں کو بڑے گروہوں پر غالب کردیا ہے۔ لہذا ہمیں یہ چیز تو اپنے اندر پیدا کرنی ہی ہوگی، اور اسی ایمان و یقین کے ساتھ آنے والے حالات کا سامنا کرنے کے لئے خود کو تیار کرنا چاہیے۔
لیکن، اللہ کی راہ میں جنگ و جدال اور اللہ کے نبی کی جنگوں کے اصل مقصد کو ہمیں پیش نظر رکھنا ہوگا۔ یہ مقصد اعلائے کلمتہ اللہ ہے، یعنی اللہ کا دین آگے بڑھے اور شیطان کی بچھائ ہوئی بساط کمزور پڑے۔ اس راہ میں کھڑی ہونے والی رکاوٹیں ڈھیر ہو جائیں اور اللہ کے بندے بے خوف وخطر اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگیں۔ اس لئے تمام طرح کے مسلمانوں کا پہلا رویہ تو یہ ہونا چاہیے کہ انہیں اللہ کے دین سے خود کو پوری طرح وابستہ کرنا ہے اور دین کو آگے بڑھانے کے مقصد کو اپنے سامنے رکھنا ہے۔ جب یہ مقصد ہم اپنے سامنے رکھیں گے تو ہمیں اپنی حکمت عملی بھی اسی اعتبار سے بنانی ہوگی۔ اور رسول اللہ کی داعیانہ حکمت عملی سے اپنے لئے رہنمائی لینی ہوگی۔
بابری مسجد کو رام مندر قرار دے کر اس ملک کی کثیر آبادی کو گمراہ کیا گیا ہے اور اسے عنوان بناکر فرقہ وارانہ منافرت کو دل و دماغ میں بھر دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے وہ پسماندہ، مظلوم اور جاہل طبقات جن کے دل و دماغ میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ وہ ہندو ہیں اور رام ان کے بھگوان ہیں حالانکہ انہیں مندروں میں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں ہے، اپنے ہندو پن میں پاگل پن کی انتہا پر ہیں۔ لہذا مسلم قیادت اور خاص طور سے مسلم پرسنل لا بورڈ کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس ممکنہ اشتعال کو کم سے کم سطح پر رکھنے کی حکمت عملی بنائے۔
اس نظریہ سے ایک حکمت عملی یہ ہو سکتی ہے کہ مسلمانوں میں یہ اتفاق رائے قائم ہو کہ بابری مسجد کے حق میں عدالتی فیصلہ آنے کی صورت میں مسلمان فوری طور پر بابری مسجد تعمیر کرنے کی کوشش یا اس کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ رام جنم بھومی کا گھڑا ہوا پروپیگنڈا اگر جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے تو یہ مسلمانوں کی بہت بڑی قانونی و اخلاقی فتح ہوگی، اور اس فاتحانہ پوزیشن میں مسلمانوں کا یہ موقف مفتوح قوم کے کثیر عوام کے دلوں میں اٹھنے والی طیش کی لہر کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ اور دوسری طرف اس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ ملک کے قانونی اداروں، تمام طرح کے انصاف پسند لوگوں، فرقہ واریت سے صاف ذہن رکھنے والے عوام اور دیگر لامذہب قوموں یا غیر مسلم و غیر ہندو فرقوں کے دل و دماغ پر مسلمانوں کے اس تحمل کا شاندار اثر پڑے۔ انصاف واخلاق میں یقین رکھنے والے لوگوں کے دل اسلام کی طرف مائل ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود ہندو قومیت کا مصنوعی شیرازہ بکھر جائے اور ظالموں کے ظالمانہ نظام سے بر سر پیکار مظلوم اقوام مسلمانوں و اسلام کی قوت مدافعت سے مرعوب ہوکر اسلام کے سائے میں پناہ لینے پر آمادہ ہو جائیں۔
مسلم قیادت اپنے درمیان میں یہ اتفاق رائے قائم کرنے کے بعد موقع آنے پر ملک کے ذمہ دار اداروں اور عدالت عالیہ کو اپنے اس رضاکارانہ موقف سے آگاہ کرکے ان کی تائید و حمایت بھی حاصل کر سکتی ہے۔
بابری مسجد کی جگہ پر دوبارہ بابری مسجد تعمیر کرنے کے بجائے یہ ہو سکتا ہے کہ اس مخصوص جگہ کو بغیر عمارت کی مسجد کے طور پر محفوظ رکھا جائے اور متصل جگہ پر عوامی فلاح و بہبود کا کوئی رفاہی ادارہ اسلامی تعلیمات کے مطابق قائم کیا جائے جس سے بلا تفریق مذہب سبھی فرقوں کے ضرورت مندوں کی مفت خدمت ہو۔ غربت، بھوک مری، بیماری اور کس مپرسی سے دوچار انسانوں کے لئے وہ راحت کا مرکز ہو۔ اسی کے ساتھ وہاں سے ایمان و اسلام کی دعوت کام انجام دیا جائے۔
مسجد کی عمارت کی تعمیر کا فریضہ آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑا جا سکتا ہے تاکہ یہاں آنے والے لوگوں کو یہ معلوم ہوتا رہے کہ مسلمانوں کی ایک مسجد پر غیر قانونی طریقے سے قبضہ کرکے مسلمانوں کے دشمنوں نے سالہا سال تک ملک میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھا تھا لیکن مسلمانوں نے قانون، اخلاق، شرافت اور مروت کے ساتھ اس چیلنج کا سامنا کیا اور مقدمہ جیتنے کے باوجود دشمنوں کو دل آزاری سے بچانے کے لیے مسجد کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا، اور اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب “فتح مبین” حاصل ہو جائے گی یعنی مسجد کو منہدم کرنے والوں کی نسلیں اسلام کی آغوش میں آکر مسجد کو پھر سے تعمیر کریں گی۔
اس مقدمہ کا دوسرا امکانی پہلو یہ ہے کہ بابری مسجد کو رام جنم بھومی ہی قرار دے دیا جائے۔ یہ فیصلہ یقینی طور سے غیر منصفانہ اور خیانت پر مبنی ہوگا۔ لیکن مسلمانوں کے سامنے اس فیصلہ کو بھی مان لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو ضبط و تحمل سے کام لینا ہوگا۔ البتہ اس فیصلے کے نتیجے میں ملک کا دستوری ڈھانچہ خود بہ خود بتدریج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا چلا جائے گا کیوں کہ ملک پوری طرح ہندو دہشت گردی کی لپیٹ میں آجائے گا، ہندستانی سماج کے تمام غیر ہندو طبقے اپنے مستقبل کے لئے بے چین ہو جائیں گے اور خود نام نہاد ہندو سماج کے مظلوم طبقے اپنے ظالم آقاؤں سے برسر پیکار ہوں گے۔ اس صورت میں مسلمانوں کے لئے بھی یہی راستہ بچے گا کہ وہ حصار بند ہوکر دعوت کا علم بلند کریں اور حملہ آوروں کے مقابلے بدر و احد اور احزاب کے انداز میں اللہ کی نصرت کے بھروسے پر جہاد کریں۔ واللہ خیراً حافظا