ہندی کا اٹھتا شور اور دینی مدارس کے لیے اعتدال کی راہ!

اظہار الحق قاسمی بستوی

ہندی اور اردو کا جھگڑا نیا نہیں ہے۔ تقسیم وطن سے لے کر آج تک اردو پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اردو بھارت کی زبان نہیں بل کہ؛ پاکستانیوں اورمسلمانوں کی زبان ہے، نیز یہ کہ اردو کا فروغ ملک کو تقسیم کی طرف ہی لے جائے گا جس کا اظہار مختلف اوقات میں فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے۔ اردو کے ساتھ تقسیم کا نام جڑ جانے کی وجہ سے ہمیشہ اس کے ساتھ تعصب برتا گیا اور اردو کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا گیا حالانکہ سچائی یہ ہے کہ اردو بھارت میں ہی پیدا ہوئی اور بھارت ہی میں پروان چڑھی اور آج بھارت میں ہی بوڑھی ہو رہی ہے۔

 بھارتی پارلیمنٹ میں اکثریت کے ووٹ سے ہندی کو قومی زبان قرار دے دیے جانےکے بعد مولانا آزاد ؒ جو کہ اس وقت کے وزیر تعلیم تھے نے ہندی کو قومی زبان تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا: “اب یہ سوال اٹھتا ہی نہیں کہ پورے ملک کی زبان کون سی ہوگی؟ ہندی کو جو جگہ ملنا تھی وہ مل گئی ۔اب ہر ہندوستانی کا فرض ہے کہ اس کے آگے سر جھکائے۔ لیکن اس کے ساتھ اردو کی جو جگہ ہے وہ اسے ملنی چاہیے۔ اردو ایک ایسی زبان ہے جو کثرت کے ساتھ بولی جاتی ہے نہ صرف شمال میں بل کہ ؛ جنوب میں بھی! ( مظلوم اردو کی داستان غم بحوالہ الجمعیۃ آزاد نمبرصفحہ 6 بتاریخ 4/دسمبر 1958)

مولانا آزاد کے ہندی کو قومی زبان ماننے کے برملا اعتراف کے باوجود اس وقت تعجب اور افسوس کی انتہا ہو جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ملک کے پہلے وزیر تعلیم پر بھی اردو کے سلسلے میں ایک غیر ملکی (بزعم دشمناں) زبان کی حمایت کا الزام عائد کیا گیا۔ چناں چہ مولانا فدا حسین صاحب مرحوم اپنی کتاب ” مظلوم اردو کی داستان غم صفحہ 13 ” میں رقم طراز ہیں: ” سیٹھ گوبند داس (ایم پی) نے کہا:فرقہ پرست تو وہ لوگ ہیں جو ہندوستانی کلچر کے خلاف انگریزی یا اردو کی سرپرستی کرنا چاہتے ہیں۔ درحقیقت انھیں پر فرقہ پرستی کا الزام عائد کرنا چاہیے۔ اردو ملک کی تقسیم کی بنیاد ہے اور اردو کی علاقائی حیثیت تسلیم کرلینا ایسا ہے جیسے انگلی دےکر پہونچا پکڑوا لینا “۔ (الجمعیۃ آزاد نمبر صفحہ 115)

ظاہر ہے کہ ہندی کے حامی جب مولانا آزاد جیسے مضبوط قائد کے سامنے اس طرح کی بات کہہ سکتے ہیں اور وہ بھی اُس وقت جب کہ آر ایس ایس اور اس کی حامی تنظیمیں اس قدر مضبوط نہیں ہوئی تھیں تو پھر اِس وقت جب کہ ملک میں ا ن کی تہذیب و ثقافت کا بول بالا ہوچکا ہے اور ملک کے چپہ چپہ پر انھیں کی چھاپ بنتی جارہی ہے وہ ماحول میں لسانی زہرکیوں نہیں گھولیں گے؟ اور ہندی کا راگ کیوں نہیں الاپیں گے؟

ہندی کوتھوپنے کی بھی کوشش کوئی نئی نہیں ہے۔ ہندو مہاسبھا نے اپنے چوالیسویں اجلاس منعقدہ بنارس بتاریخ 20 /فروری 1959 کو ہی ہندی ، ہندو ، ہندوستان کانعرہ دیتے ہوئے کہا تھا:”ہندی ہی ایک ایسی زبان ہے جس کو ہم قومی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں۔ (حوالہ بالا صفحہ21)

اب گزشتہ کچھ زمانے سے مسلسل ایسی باتیں سامنے آرہی ہیں کہ بھارت کے مدارس میں اہل مدارس کو اپنا ذریعہ تعلیم و ذریعہ ریکارڈ صرف ہندی و انگریزی یا اردو کے ساتھ ہندی وانگریزی کو بنالینا چاہیے۔ حکومت اپنے مدارس میں شاید عنقریب اس قانون کو نافذ العمل قرار دے دے۔ ہمارے اپنے حلقو ں سے بھی اسی طرح کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ چناں چہ مدارس میں ہندی زبان کے فروغ کےحوالے سے 24 /جنوری 2019 کو دو اہم پوسٹیں نظر نواز ہوئیں۔ ایک علی گڑھ کے صاحب کی اور دوسری ہمارے استاذ محترم مولانا محمد برہان الدین قاسمی صاحب کی۔ موصوف امام الدین صاحب علیگ نے کہا: 

” اس وقت اردو کا جھنڈا اہل مدارس کے ہاتھوں میں ہے اور انھیں کے کندھوں پر دین کی دعوت وتبلیغ کی ذمہ داری بھی ہے۔ یہ دونوں کام ایک ساتھ دو ناؤ میں سواری کے جیسا ہے ۔۔۔ اہل مدارس نے خود کو اردو کے خول میں بند کرکے اور اس کی حد بندی کو اپنے لیے لازم سمجھ کر بڑی غلطی کی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اردو کے ساتھ علماء کا دائرہ بھی دن بدن سکڑتا جارہا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس مسلمانوں کی اکثریت اردو کو چھوڑ کر ہندی میں منتقل ہو چکی ہے۔ اس وقت اکثر مسلمان فارسی رسم الخط کے بجائے دیوناگری رسم الخط میں پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔

ہندو بھائی تو پہلے سے ہی مجموعی طور پر ہندی میں منتقل ہو چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ علماء اور اہل مدارس سماج سے مکمل طور پر کٹ چکے ہیں جس کی وجہ سے دین کی دعوت کا کام بھی کافی حد تک متاثر ہواہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے مدارس اردو ذریعہ تعلیم اور فارسی رسم الخط کو چھوڑ کرہندی ذریعہ تعلیم اور دیوناگری رسم الخط کو اپنائیں۔ 

یہ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ ہندی کے اتنی بڑی زبان ہونے کے باوجود ہندی میڈیم کا کوئی ایک بھی مدرسہ موجود نہیں ہے۔ جب کہ آپ کو بنگالی، ملیالی اور دیگر کئی علاقائی زبانوں میں کئی مدرسے مل جائیں گے۔ وغیرہ” (ایشیا ٹائمز 24/1/19)

موصوف علی گڑھی صاحب کے انداز گفتگوکی تصویب اور تمام باتوں کی تائید قطعاً نہیں کی جاسکتی کیوں کہ ان کی کئی باتیں سچائی سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ لیکن یہ امر واقعی ہے کہ اس وقت اردو کا جھنڈا اہل مدارس کے ہاتھوں میں ہے۔ لیکن ہندی کے حوالے سے بھی اہل مدارس بالکل لاعلم و نابلدنہیں ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق شمال کے تقریبا پچاس فیصد مدرسوں کے طلبہ کو ہندی آتی ہے لہذا موصوف کا یہ کہنا کہ ہندی میڈیم کا کوئی مدرسہ نہیں ہے یہ نرا بہتان ہے کیوں کہ اہل مدارس کے کسی قدر ہندی جاننے کی وجہ سے اس طرح کے مدرسوں کی ضرورت نہیں ہوئی۔ شمال کے مدرسوں کے اکثر اساتذہ و طلبہ کو کسی نہ کسی حد تک اور بعضوں کو تو بہت اچھی بھی ہندی آتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شمالی ہند کے مدرسوں کے ماتحت چلنے والے پرائمری درجات اور مکاتب میں ہندی کی تعلیم لازماً دی جاتی ہے۔ جہاں تک مہارت کا تعلق ہے تو یہ سچائی ہے کہ اکثر اہل مدارس اس سلسلے میں کم ہی ماہر ہوتے ہیں۔ سماج سے کٹ جانے کا الزام بھی موصوف کی طرف سے علما پر زیادتی ہے کیوں کہ عوام تحریر چاہے وہ کسی بھی زبان کی ہو کم ہی پڑھتی ہے اور عوام سے علماء کا عمومی رابطہ چونکہ اکثر گفتگو کے ذریعے ہوتا ہے اس لیے عوام علماء سے اب تک جڑی ہوئی ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ بھاری بھرکم اردو بولنے والے علماء کی زبان عوام کو کسی قدر کم سمجھ میں آتی ہے لیکن پھربھی عوام علماء سے کٹی نہیں ہے۔ البتہ موصوف کی اس بات سے قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتا کہ (شمال میں )مسلمانوں کی اکثر تعداد دیوناگری رسم الخط کو اردو کی بہ نسبت زیادہ سمجھتی ہے۔راقم الحروف جس علاقے میں خدمت کررہاہے وہاں کی عمومی صورت حال بھی یہی ہے کہ مسلم عوام کی اکثریت ہندی پڑھ اور سمجھ سکتی ہے جب کہ اردو سے مناسبت کم ہی ہے۔ البتہ جنوب کے اہل مدارس و مسلمانوں کا نوے فیصد طبقہ ہندی تو بالکل نہیں سمجھتا۔ مدارس والے صرف اردو جب کہ جدید تعلیم یافتہ مسلمان صرف انگریزی سمجھتے ہیں اور کچھ کچھ ہندی کو سمجھتے ہیں۔ بہرحال محترم امام الدین صاحب کی نیت پر شک کرنے کا کوئی جواز نہیں کہ شاید انھیں مدارس کے حوالے سے ان تفصیلات کا علم نہ ہو۔

آج یہ بات روز روشن کی طرح عیاں و بیاں ہے کہ درست اردو کی تعلیم کافی حدتک اب صرف مدرسوں میں رہ گئی ہے۔اور اگر میں یہ کہوں کہ یہ صرف مدارس اسلامیہ ہی ہیں جن کا ذریعہ تعلیم (میڈیم آف انسٹرکشن) مکمل طور پر اردو ہے ورنہ کسی بھی اسکول کا ذریعہ تعلیم اردو نہیں بچا ہے۔ دیگر تعلیم گاہوں میں کسی نہ کسی زبان کا تسلط اردو پر لازما پایا جاتا ہے۔ جیسے یہی کہ اردو میڈیم اسکولوں میں پڑھانے والے اکثر اساتذہ اردو کی درست ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے ۔حکومتوں نے بھی اردو میڈیم اسکولوں کا برا حال دیکھ کر یا تو انھیں بند کر دیا یا انھیں ہندی میڈیم کے ساتھ ضم کردیا؛ لیکن المیہ یہ ہے کہ مدارس کی اردوکے تئیں اس بے لوث خدمت کے نتیجے میں انھیں اردو کی خدمت کرنے والا تک تسلیم نہیں کیا جاتا۔خود ساختہ اہل اردو مدارس والوں کی اردو خدمت کو یکسر نظر انداز کرتے رہے ہیں۔جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اردو کے حوالے سے اہل مدارس کی خدمات کے بقدر انھیں حقوق دیے جاتے۔ انھیں اعتبار کی نگا ہ سے دیکھا جاتا۔ ان کی اسناد کو نہ صرف کچھ جگہوں پر بل کہ؛ ملک کے تمام محکموں میں قابل اعتبار سمجھا جاتا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ گو کہ یہ بات درست ہے کہ مدارس میں پڑھائی جانے والی اردو میں اردو کے فنون : جیسے شعر و شاعری، قصہ گوئی، ناول و افسانہ نگاری وغیرہ کے اصول واقعتاً نہیں پڑھائے جاتے کیوں کہ اس میں کئی ایک اصناف سخن کو اہل مدارس درست نہیں سمجھتے اور اردو زبان کے سیکھنے اور جاننے کے لیے یہ فنون بنیادی طور پر ضروری بھی نہیں ہیں (حالاں کہ اگر اہل مدارس ان چیزوں کو جزئی طور پر ہی رکھ دیں تو ان کے طلبہ کے لیے یہ فنون بائیں ہاتھ کا کھیل ہیں) لیکن صرف اس وجہ سے اہل مدارس کی اردو خدمت کا انکار روز روشن کے انکار کے مرادف ہے کیوں کہ اہل مدارس کی جملہ تصنیفات اردو میں ہی ہوتی ہیں اور ان کی زبان کا معیار بھی اکثر انتہائی اعلی ہوتاہے۔

دوسری طرف اہل مدارس کو اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے اور ہندی کو اہمیت نہ دینے کے سبب تعلیم کے قومی دھارے سے کٹا ہوا سمجھا گیا اور اردو کی خدمت کے باعث انھیں مشکوک نظروں سے دیکھا گیا اور ہمیشہ انھیں انتہائی پڑھا لکھا ہونے کے باوجود ان پڑھ اور گنوار سمجھا گیا۔ حکومت نے بھی ان کے جائز حقوق کے ساتھ ناانصافی کو روا رکھا۔ اردو اور مسلم دشمن خیمے میں مدارس کے خلاف نفرت کی بھٹی سلگائی جاتی رہی جس کے من جملہ اسباب میں سے ایک سبب اردو کو لازم پکڑنا بھی رہا ہے۔ حالاں کہ اگر اہل مدارس نے اردو کے ساتھ ہندی کو اپنا لیا ہوتا تو شاید ان کے اوپر ہو رہی کیچڑ اچھالی میں کسی قدر کمی ضرور ہوتی۔

اس کا تیسرا پہلو یہ بھی رہا کہ مدارس سے نکلنے والے والے طلبہ کی اکثر یت اپنی معیاری قومی زبان سے ناواقف ہے اور اب تک اچھی طرح سے واقف نہ ہونے کی راہ چل رہی ہے اس کی بنیادی وجہ اہل مدارس کا صرف اردو کو لازم پکڑنا ہے۔ اگر اردو کے ساتھ ہندی کو ہمارے مدارس میں وسعت دی جاتی تو بہت سے بہت صرف یہ نقصان ہوتا کہ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی بھی ہمارے مافی الضمیر کے اظہار کا ذریعہ ہوتی اور مجھے کہنے دیجیےکہ! اردو قطعاً اسلام کی زبان نہیں ہے۔ اسلام کے لیے اردو بھی تمام زبانوں کی طرح ایک زبان ہے۔ اسلام کی زبان صرف اور صرف عربی ہے۔ کیا ایسا ہمارے اسی ملک میں نہیں ہوا ہے کہ پہلے اس ملک کی زبان فارسی بھی رہی لیکن گزرتے وقت کے ساتھ فارسی دم توڑ گئی اور اردو نے اس کی جگہ لے لی۔ اور اب جب کہ اردو کو لے کر چلنا نہ صرف مشکل بل کہ بہت سارے نقصانات کا بھی ذریعہ ہو رہا ہے تو کیوں نہ اردو کے ساتھ ہندی کو بھی اہل مدارس اختیار کریں۔ اور ہندی کو اپنے اداروں میں مناسب جگہ دیں جیسا کہ مرکزالمعارف جیسے اداروں کے ذریعے انگریزی کو جگہ دی گئی۔ جس کے نتیجے میں آج سیکڑوں علماء انگریزی زبان لکھنے اور بولنے پر قادر ہیں اور اس کے ذریعے مختلف جہات سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لیکن ہندی کے حوالے سے اب تک کوئی مناسب پیش رفت نظر نہیں آتی ۔

دوسری طرف ہمارے استاذ اور معروف عالم دین حضرت مولانا برہان الدین صاحب (ڈائریکٹر مرکزالمعارف ممبئی و ایڈیٹر انگریزی ماہنامہ ایسٹرن کریسنٹ) نے بھی ہمارے دوست مفتی محمد طہ جونپوری کی ایک ہندی پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: “بہت اچھا! میں نے اس پوسٹ کو اپنے فیس بک وال پر بھی شیر کیا ہے۔ مزید ہندی کتابیں پڑھو، زبان بہتر ہو جائے گی ۔۔۔ بہتر ہے کہ صرف ہندی یا انگلش میں لکھو۔ یہی دونوں زبانیں اب ہمارے مخاطبین کی زبانیں ہیں اور ہمیں جلد سے جلد ان کی طر ف منتقل ہونے کی ضرورت ہے۔(ایم ایم ای آر سی المنی گروپ، نشر کردہ بتاریخ 24؍جنوری 2019)

اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اب ضرورت آن پڑی ہے کہ اہل مدارس ہندی کی تعلیم کے لیے سنجیدہ ہوں اور لازمی ہے کہ ہندی کافروغ اردو کی قربانی کی بساط پر نہ ہو۔ کیوں کہ اہل مدارس کے لیے دونوں ضروری ہیں۔ اردو تو اس لیے کہ وہ اس سے مانوس بھی ہیں اور پورا علمی اور دینی ذخیرہ اسی میں موجود ہے اور اس لیے بھی کہ اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ ایک ثقافت بھی ہے اور اس کی شیرینی من کو موہنے والی ہے۔ اور ہندی اس لیے کہ حالات اور دعوت دین کا تقاضا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر مدرسہ اپنے یہاں ہندی زبان کے سبجیکٹ کو باقاعد ہ طور شعبہ عالمیت کے سال اول سے کم از کم سال پنجم تک رکھے۔ اور پانچ سال میں گھنٹہ وائز کم از کم بارہویں تک کی ہندی پڑھا دیں۔شعبہ حفظ میں درجہ ہفتم تک کی ہندی سیکھنے کو لازم قرار دیں۔ اپنی دیگر تعلیم کے لیے اردو کو چاہیں توحسب معمول لازم پکڑیں اور اسی کو ذریعہ تعلیم بنا کر رکھیں۔ 

میں قطعاً اس بات کا حامی نہیں کہ اردو کو قربان کردیا جائے لیکن مجھے محسوس ہورہاہے اور شاید میرے جیسے بہت سے لوگوں کو بھی کہ ارباب مدارس کو اب ہندی کو بھی اردو کی طرح اپنا لینا چاہیے۔ اس سے میرے خیال میں ان کا کوئی دینی نقصان نہیں ہوگا؛ بل کہ مدارس میں پڑھنے والے بچوں کے ساتھ ساتھ ملک میں رہنے والے دوسرے لوگوں کا بھی فائدہ ہی ہوگا۔ شاید ہندی کے حوالے سے اہل مدارس کے لیے یہی اعتدال کی راہ ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستان ہمارا ملک ہےاور یہی ہم اہل مدارس کے لئے حقیقی میدان عمل بھی ہے۔ اگر واقعتاً ہم نے اس ملک میں رہنے کا فیصلہ کیا ہےاور اس کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس سلسلے میں سوچنا ہوگا اور ہندی کو اس کی مناسب جگہ دینی ہوگی۔

izhar.azaan@gmail.com