کشمیر میں مظاہرین پر پیلٹ اور بلیٹ کا استعمال تو جموں کے دنگائیوں کو کھلی چھوٹ کیوں؟ 

جموں اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں جمعہ کی صبح سے ہی سیکورٹی فورس تعینات تھی، لیکن انھیں ایسا کوئی حکم نہیں تھا کہ وہ جموں میں ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنا رہے فسادیوں کو روکنے کی کوئی کوشش کریں۔

جموں پولس نے اتوار کو دعویٰ کیا کہ اس نے فساد اور آگ زنی کے الزام میں 100 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا ہے، لیکن جموں و کشمیر کی سردیوں والی راجدھانی جموں پیر کے روز بھی زبردست کشیدگی اور خوف سے دو چار رہی۔

زبردست پرتشدد مظاہروں اور خاص طبقہ پر حملے کے درمیان سب سے زیادہ حیران کرنے والی بات مقامی انتظامیہ کی عدم سرگرمی ہے۔ خفیہ ایجنسیوں نے وقت رہتے بھرپور خبر دے دی تھی کہ جموں میں حالات بے قابو ہو سکتے ہیں، لیکن گورنر ستیہ پال ملک کی نگرانی والی مرکزی انتظامیہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔ نہ تو گجر نگر، ریزیڈنسی اور جانی پور جیسے حساس علاقوں میں سیکورٹی فورس تعینات کی گئی اور نہ ہی سیکورٹی فورس کو فسادیوں کو قابو میں کرنے کا حکم دیا گیا۔

جمعہ کو جب دنگائیوں کی بھیڑ وویکا نند چوک پہنچی تو مظاہرین کو روکنے کے لئے پولس کا کوئی بندو بست نہیں تھا اور ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آئی جس سے یہ محسوس ہو کہ مظاہرین کو حساس علاقوں میں گھسنے سے روکا جائے گا۔ اس کی وجہ سے جمعہ کی صبح شروع ہوا تشدد بغیر روک ٹوک کے دوپہر تک جاری رہا اور دوپہر بعد انتظامیہ نے کرفیو لگانے کا اعلان کیا ،لیکن جب تک سینکڑوں گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا اور گجر نگر سے وویکانند چوک تک کا علاقہ جنگ کے میدان میں تبدیل ہو چکا تھا اور پورے شہر میں پرائیویٹ گاڑیاں جلتی نظر آ رہی تھیں۔

ایک افسر نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’ حساس علاقوں میں فوج اور پولس کے جوان آ چکے تھے لیکن ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے کیونکہ دنگائیوں کو قابو میں کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی حکم نہیں تھا ‘‘۔ اس افسر کا کہنا ہے کہ پولس یا فوج اپنی جانب سے کوئی بھی کارروائی نہیں کرتی ،کوئی بھی کارروائی کرنے کے لئے انہیں اوپر سے حکم جاری ہوتے ہیں اور جمعہ کو جموں میں ایسا نہیں ہوا۔ اس پولس افسر کے مطابق گورنر انتظامیہ کی نیند اس وقت کھلی جب میڈیا اور سول سوسائٹی نے جموں کے بے قابو حالت دکھانا شروع کر دیئے ۔ جموں میں جب حالات پوری طرح بے قابو ہو چکے تھے تب کہیں جا کر کرفیوں کا اعلان کیا گیا۔

جمو ں کے اس تشدد پر جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر راکیش گپتا نے کہا ’’جمعرات کی شام سے ہی جمو ں میں فرقہ وارانہ تناؤ پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا لیکن انتظامیہ نے کسی بھی حساس علاقہ میں حفاظت کا انتظام نہیں کیا ‘‘۔ واضح رہے جمو ں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے ہی پلوامہ حملہ کے احتجاج میں جمعہ یعنی 15 فروری کو بند کا اعلان کیا تھا ۔ انہوں نے جموں میں ہوئے واقعہ کو شرمناک بتاتے ہوئے کہا کہ ’’ اگر انتظامیہ نے وقت رہتے حفاظت ے انتظام کیے ہوتے تو شہر جموں کو شرمندگی سے دو چار ہونا نہیں پڑتا‘‘۔

دوسری جانب اکنامکس الائنس کے چئیرمین محمد یاسین خان نے بھی دنگائیوں کو کھلی چھوٹ دینے کے لئے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ انہوں نے کہا اس دوران ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنایا گیا۔ یاسین خان جو کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرر فیڈریشن کے صدر بھی ہیں کا کہنا ہے کہ ’’ کشمیر میں تو مظاہرین پر پیلٹ اور بلیٹ کا استعمال ہوتا ہے لیکن جموں کے دنگائیوں کو کھلی چھوٹ دینے سے لگتا ہے کہ انہیں سیاسی سرپرستی حاصل ہے ‘‘۔ پلوامہ حملہ کے بعد جموں میں ہوئے تشدد میں سو سے زیادہ گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا تھا اور درجنوں افراد زخمی ہو گئے تھے ۔ ساتھ میں وادی سے سرکاری ملازمین کے گھروں پر پتھراؤ کیا گیا اور طلبا ء کو نشانہ بنایا گیا ۔ ادھر خبریں ہیں کہ کرفیو کے باوجود اور فوج کی موجودگی کے با وجود دنگائیوں نے مسلمانوں کے تجارتی اداروں کو نشانہ بنایا اور قومی شاہرہ پر کشمیری گاڑیوں پر حملے کیے۔