سیدہ تبسم منظور ناڈکر
عورت کے کئی روپ ہیں۔ وہ بیٹی ہے ۔۔۔ بہن ہے ۔۔۔ بیوی ہے …. ماں ہے ۔۔۔۔ ہر لحاظ سے معزز اور محترم ٹھہری ہے۔ عورت کا فطری تقدس، پاکیزگی اور اس کی نسوائی حرمت صرف اور صرف اسلام کی مرہون و منت ہے۔مکان تو اینٹ اور پتھروں سے بنائے جاتے ہیں لیکن ان مکانوں کو گھر بنانے کا کام عورت کا ہے۔ اور عورت ہی کا کیوں مرد کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ مرد گھر کا منتظم ہوتا ہے۔عورت اور مرد مطلب میاں بیوی گاڑی کے دو پہیوں کی طرح ہیں۔جو مل کر کام کرتے ہیں تو ازدواجی اور معاشرتی زندگی کی گاڑی درست چلتی ہے۔ ازدواجی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ پر یہ رشتہ بھروسہ، اعتماد، سچائی اور محبت پر قائم ہوتا ہے۔ایک دوسرے کی کمی اور خامی کے ساتھ اپنانا ہوتا ہے صبر و تحمل سے کام لینا پڑتا ہے ہے۔آج جو ہمارے معاشرے میں چل رہا ہے اس سے کوئی بھی منہ نہیں موڑ سکتا۔ ہائیر ایجوکیشن لینے کے باوجود آج کی جنریشن میں قوت برداشت نہیں ہے۔ گرہستی چلانے کی صلاحیت بلکل بھی نہیں ہے۔ آئے دن ہم کئی خبریں سنتے ہیں۔ جو ہمارے آس پاس ہوتی ہے ۔ پچھلے دنوں ایک خبر سنی کے لڑکا اور لڑکی چار پانچ سالوں سے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے ۔۔۔ شادی ہوئی تو چار مہینے بھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ گزار نہیں پائے معشوقہ بن کر تو پانچ سال گزارے بیوی بن کر پانچ ماہ بھی نا گزار سکیں اور نوبت الگ ہونے پر آگئی۔ ایک اور خبر سنی شادی کے چودہ مہینوں کے بعد لڑکی الگ ہونا چاہتی ہے ۔۔۔۔ اس کی وجہ تھی ماں سے فون پر گھنٹوں باتیں کرنا بچے کی طرف سے لا پروا ہونا۔اس پر شوہرنے کچھ کہہ دیا تو الگ ہونا ہے۔ان معاملوں میں کوئی پختہ وجہ نہیں ہے بلکہ چھوٹی چھوٹی وجوہات پر یہ رشتے ٹوٹنے کی کگار پر ہیں۔ سب سے پہلے تو ماں کواپنی بیٹیوں کی ازدواجی زندگی میں دخل نہیں دینی چاہیے۔ اورگھنٹوں فون پر ان سے گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔ کئی مائیں ایسی ہیں جو اپنی بیٹیوں کے سامنے کئی لوگوں کی برائیاں کرتے بیٹھتی ہیں۔ ان ماؤں کو لگتا ہے جو ہم فون پر کئی لوگوں کی برائی کرتے ہیں وہ ہماری بیٹیاں نہیں سنتی ۔۔۔ پر یاد رکھیں جو آپ کر رہی ہے وہی آپ کی بیٹیاں دیکھ رہی ہیں اور وہیں جاکر اپنے سسرال میں دہراتی ہیں۔ سسرال کی باتیں اپنی ماؤں کو بتائی جاتی ہیں۔کیونکہ آپ نے اپنی بیٹیوں کو خود سیکھا رہی ہیں یہاں کی باتیں وہاں اور وہاں کی یہاں لگانا اور یہی مائیں صحیح صلاح مشورہ کرنے کی بجائے انہیں غلط راہ بتاتی ہیں۔اور ایسا نہیں ہے کہ اس میں ان پڑھ مائیں ہیں بلکہ اچھی پڑھی لکھی مائیں بھی شامل ہیں اس سے گھر جڑنے کی بجائے ٹوٹ جاتے ہیں۔اور بیٹیوں کے ہی نہیں بلکہ اپنے گھر میں بھی تناؤ کا ماحول پیدا کرتی ہیں کیونکہ ان کے گھر میں ایک دو عدد بہو تو ہوتی ہی ہے۔بیٹی گھر آکر بیٹھتی ہے اور بہو گھر سے نکل کر اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ایک عورت سے گھر جنت بھی بنتا ہے اور جہنم بھی بن جاتا ہے۔
ایک قصہ کہیں پڑھا تھا۔ ایک بہت ہی سمجھدار اور عقلمد عورت تھی جس کا شوہر اس سے بہت ہی محبت کرتا تھا۔دونوں میں محبت اس قدر تھی کہ شوہر اپنی بیوی کے لئے محبت بھری شاعری لکھا کرتا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا عمر جتنی زیادہ ہورہی تھی ان کی آپسی محبت اتنی ہی زیادہ بڑھ رہی تھی۔جب اس عورت سے اُس کی محبت بھری زندگی کا راز پوچھا گیا۔کہ کیا وہ بہت عمدہ اور اچھا کھانا پکاتی ہے؟ یا کیا وہ بہت ہی حسین و خوبصورت ہے؟یا کیا وہ بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت ہے؟یا کیا اس محبت کا کوئی اور راز ہے؟
تو اس عورت نے جواب دیا کہ
اچھی اور خوشیوں بھری زندگی کے اسباب اللہ رب العالمین کی ذات کے بعد خود عورت کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔ اگر عورت چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت کی چھاؤں بنا سکتی ہے اوراگر یہی عورت چاہے تو اپنے گھر کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سے بھی بھر سکتی ہے۔ یہ اس عورت پر منحصر ہے کے وہ اپنے گھر کو کیا بنانا چاہتی ہے۔ مال و دولت یہ سب خوشیوں کا سبب نہیں ہوتا ہے ۔ تاریخ کے پنے پلٹ کر دیکھیں ایسی کتنی دولت مند عورتوں کی کہانیاں بھری پڑی ہے جن کے شوہر اُن کو ان کے مال و دولت سمیت چھوڑ کر کنارہ کش ہو گئے ہیں ۔اور نا ہی بہت زیادہ بچے پیدا کرنا کوئی بڑی خوبی ہے۔ بچے تو جانور بھی پیدا کرتے ہیں۔ کئی عورتوں نے دس بارہ بچے پیدا کئے مگر نا ان کے شوہر مشکور ہوئے اور نا ہی وہ اپنے شوہروں سے کوئی محبت پا سکیں بلکہ نوبت طلاق تک جا پہنچیں۔اچھا کھانا پکانا بھی کوئی بہت بڑی خوبی نہیں ہے۔ سارا دن کچن میں رہ کر مزے دار کھانے پکا کر بھی عورتیں شوہر کے غلط معاملہ کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں اور شوہر کی نظروں میں اپنی کوئی عزت نہیں بنا پائیں !!!
تو پھر ایسی کونسی وجہ ہے جس سے آپ کی زندگی میں سعادت اور خوشیوں کا راز چھپا ہے؟؟ اپنے اور شوہر کے درمیان پیش آنے والے مسائل سے کس طرح نپٹا کرتی تھیں؟؟
اس عورت نے کہا جس وقت میرے شوہر غصے میں ہوتے ہیں میں اس وقت نہایت ہی احترام کے ساتھ مکمل خاموشی اختیار کر لیا کرتی ہوں ۔ یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ احترام کے ساتھ خاموشی اختیار کرنے کا مطلب ہے کہ آنکھوں سے حقارت اور نفرت نا جھلکے اور نا ہی مذاق دکھائی دے رہا ہو۔ کیونکہ آدمی بہت عقلمند ہوتے ہیں ۔ایسی صورتحال اور ایسے معاملے کو جلدی بھانپ لیا کرتے ہیں۔
تو ایسی صورتحال میں کمرے سے باہر نکل جانا چاہیے نا؟
نہیں بلکل بھی ایسی حرکت نہیں کرنا ۔۔۔ اس سے تو ایسا لگے گا کے عورت اُس سے فرار ہونا چاہتی ہے اور اس کی بات کو سننا جاننا نہیں چاہتی ۔۔۔ خاموشی تو بہت ضروری ہے ہی ۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ شوہر جو کچھ کہے اُسے نا صرف یہ کہ سُننا ہے بلکہ اُس کے کہے سے اتفاق کرنا بھی اُتنا ہی ضروری ہے۔ شوہر جب اپنی باتیں پوری کر لیتا تو میں کمرے سے باہر چلی جایا کرتی تھی۔ کیونکہ اس ساری چیخ و پکار اور شور والی گفتگو کے بعد میں سمجھتی تھی کہ تھوڑا وقت دینا ضروری ہے۔ کمرے سے باہر نکل کر میں اپنے روزمرہ کے گھریلو کام میں مصروف ہو جاتی تھی اور اپنے دماغ کو اس جھگڑے سے دور لےجانے کی کوشش کرتی جو میرے شوہر نے میرے ساتھ کی تھی۔
تو آپ اس ماحول میں کیا کرتی تھیں؟ کئی دنوں کیلئے لا تعلقی اختیار کرلینا اور شوہر سے بول چال چھوڑ دینا وغیرہ؟؟
نہیں ہرگز نہیں ۔۔۔ بول چال چھوڑ دینے کی عادت انتہائی گندی ہے اور شوہر کے ساتھ تعلقات کو بگاڑنے کیلئے تلوار کی مانند ہے۔ اگر تم اپنے شوہر سے بولنا چھوڑ دیتی ہو تو ہو سکتا ہے شروع شروع میں اُس کیلئے یہ بہت ہی تکلیف دہ ہو۔ شروع میں وہ تم سے بولنا بھی چاہے گا اور بولنے کی کوشش بھی کرے گا۔ لیکن جس طرح دن گزرتے جائیں گے وہ اِس کا عادی ہوتا چلا جائے گا۔ تم ایک ہفتہ کیلئے بولنا چھوڑو گی تو اُس میں تم سے دو ہفتوں تک نا بولنے کی قوت آ جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ تمہارے بغیر بھی رہنا سیکھ لے۔ شوہر کو ایسی عادت ڈال دو کہ وہ تمہارے بغیر اپنا دم بھی گھٹتا ہوا محسوس کرے جیسے تم اس کیلئے ہوا کی مانند ہو ….. اور تم اس کے لئے وہ پانی ہو جس کو پی کر وہ زندہ رہ رہا ہے۔اگر ہوا بننا چاہتی ہیں تو ٹھنڈی اور خوش گوار ہوا بنو نا کہ گرد آلود اور تیز آندھی بنو۔
پھر تھوڑی دیر میں مطلب ایک دو گھنٹوں کے بعد میں جوس کا ایک گلاس یا پھر گرم چائے یا کافی کا ایک کپ بنا کر اُن کے پاس جاتی اور انہیں نہایت ہی سلیقے سے کہتی ۔۔۔۔ لیجیئے پی لیں ۔ مجھے یقین ہوتا تھا کہ وہ اس لمحے اس چائے کافی یا جوس کے متمنی ہونگے۔ میرا یہ عمل اور اپنے شوہر کے ساتھ گفتگو اسطرح ہوتی تھی کہ گویا ہمارے درمیان کوئی غصے یا لڑائی والی بات ہوئی ہی نہیں تھی۔
جبکہ اب میرے شوہر ہی مجھ سے اصرار کر کے بار بار پوچھتے تھے کہ کیا میں ان سے ناراض تو نہیں ہوں۔ میرا ہر بار ان سے یہی جواب ہوتا تھا کہ نہیں میں تو ہرگز ناراض نہیں ہوں۔ اسکے بعد وہ ہمیشہ اپنے اس رویئے کی معذرت کرتے تھے اور مجھ سے گھنٹوں پیار بھری باتیں کرتے تھے۔
تو کیا اُن کی اِن پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟
ہاں بالکل میں اُن باتوں پر یقین کرتی تھی۔ میں جاہل نہیں ہوں ۔کیا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میں اپنے شوہر کی اُن باتوں پر تو یقین کر لوں جو انہوں نے مجھ سے غصے میں کہہ دی تھی اور اُن باتوں پر یقین نا کروں جو وہ مجھے سے سکون کی حالت میں کر رہے ہیں ؟ مجھ سے کیونکر منوانا چاہتی ہو کہ میں اُن کی غصے کی حالت میں کہی ہوئی باتوں پر یقین کرلیا کروں؟
تو پھر آپ کی عزت اور انا کہاں گئی؟
کون سی عزت اور کونسی انا؟ کیا عزت اسی کا نام ہے کہ تم غصے میں آئے ہوئے ایک شخص کی تلخ باتوں پر تو یقین کرکے اُسے اپنی عزت نفس کا مسئلہ بنا لومگر اُس کی اُن باتوں کو کوئی اہمیت نا دو جو وہ تمہیں پیار بھرے اور پر سکون ماحول میں کہہ رہا ہے!
میں فوراً ہی ان کے غصے کی حالت میں دی ہوئی گالیوں اور تلخ باتوں کو بھلا کر اُن کی محبت بھری اور مفید باتوں کو غور سے سنتی تھی۔
جی ہاں یہی تو ہے خوشگوار اور محبت بھری زندگی کا راز !!! اور عورت کے اندر ہی موجود ہے مگر یہ راز اس کی زبان سے بندھا ہوا ہے۔ قوت برداشت کی یہ صلاحیت خوش نصیبوں کو ہی ملتی ہے۔ اخلاق کا حسن جس عورت میں آجاۓ تو وہ اللہ تعالی کی اور شوہر کی بھی محبوب بن جاتی ہے۔ عورت کا دائرہ عمل اس کا گھر ہی ہے۔
رابطہ : 9870971871