چودھری آفتاب احمد
ملک میں عام پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں، چوتھے مرحلہ کی پولنگ مکمل ہو چکی ہے،نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) اور یونائیٹڈ پروگریسو الائنس (یو پی اے) کے درمیان مقابلہ ہے، ریاستی اور علاقائی پارٹیاں بھی میدان میں ہیں، جو مقابلہ کو سہ رخی بنا رہی ہیں، این ڈی اے ملک کے اقتدار میں ہے، اور یو پی اے حذب اختلاف میں ہے، این ڈی اے کی تشہیری مہم وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھ میں ہے، جبکہ یوپی اے کی تشہیری مہم کانگریس صدر راہل گاندھی کر رہے ہیں، دونوں میں زبانی جنگ جاری ہے، الزام تراشیاں ہو رہی ہیں، جہاں راہل گاندھی وزیر اعظم کو چور کہہ رہے ہیں، وہیں وزیر اعظم مودی کانگریس پارٹی کو گھپلوں کی پارٹی کہہ رہے ہیں۔
راہل گاندھی ملک کی سب سے بڑی اور سب سے پرانی پارٹی کانگریس کے صدر ہیں، اور وہ پارلیمنٹ میں حکومت کے نکتہ چیں ہیں، یہ ان کا حق ہے، کیونکہ وہ عوام کی جانب سے وزیر اعظم سے سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں، یہ ملک جمہوری ملک ہے، یہاں اقتدار اور اختلاف دونوں کا اہم کردار ہوتا ہے، ایک پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے،تو دوسری پارٹی اس کے اختلاف میں ہوتی ہے، جو پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے، وہ حکومت کے معاملات دیکھتی ہے، اور جو اختلاف میں ہوتی ہے، وہ حکومت کے کاموں پر نکتہ چینی کرتی ہے، یہ اس کا حق ہوتا ہے، تاکہ حکمراں جماعت صحیح طریقہ سے اپنے کام کو انجام دے سکے۔
حزب اختلاف کا لیڈر ہونے کی وجہ سے راہل گاندھی سوال پوچھیں؛ یہ اچھی بات ہے، اگر سوال پوچھنا تہذیب کے دائرہ میں ہو، یہ اس سے بھی اچھی بات ہے، مگر چونکہ ہمارے ملک کے سب سے عظیم عہدہ پر بیٹھے نریندر بھائی مودی نے راہل گاندھی کے سامنے ایسے حالات پیدا کر دئے ہیں، کہ انھیں اس عظیم ہستی کے لئے چور جیسے الفاظ کا استعمال کرنا پڑ گیا ہے۔
معاملہ رافیل ڈیل کو لیکر ہے، کہتے ہیں کہ اس ڈیل یعنی سودے میں گھپلہ ہوا ہے، راہل گاندھی کے الزام میں کتنی سچائی ہے، یہ تو وہ جانیں ،لیکن عام آدمی اب یہ جان گیا ہے، کہ واقعی اس میں گھپلہ ہوا ہے، کیونکہ جب یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں گیا، اور عدالت نے اس سودے کی فائل طلب کی، تو وہ فائل غائب ملی، اتنی ضروری اور حساس فائل کا ایسے وقت میں غائب ہوجا نا راہل کے الزام کو پختگی دیتا ہے، نریندر مودی اس پر پردہ ڈال رہے ہیں، اور راہل کے لگائے گئے الزام کے جواب میں کانگریس کو گھپلوں کی پارٹی بتا رہے ہیں، ایسا وہ اپنے گھپلہ پر پردہ ڈالنے کے لئے کہہ رہے ہیں، کیونکہ فائیل چوری نہیں ہوئی ہے غائب کرائی گئی ہے، چور فائیل چراکر اس سے کیا حاصل کرے گا، کیا وہ بازار میں بکنے کی چیز ہے؟ افسوس! کتنا بڑا جھوٹ، بھکتی میں مگن لوگ مودی کو صحیح مان رہے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے، کہ اگر کانگریس نے گھپلے کئے ہیں، تو بی جے پی حکومت نے ان کی جانچ کیوں نہیں کرائی؟ اور کانگریس کے بدعنوان لیڈروں کو سزا کیوں نہیں دی؟ راہل گاندھی کے چور کہنے کے بعد ہی مودی کی طرف سے کانگریس کو گھپلوں کی پارٹی کہنا شروع کیوں کیا گیا؟
بی جے پی نے 2014کے عام پارلیمانی انتخابات کی انتخابی مہم میں زور شور سے کانگریس کو بدعنوان کہا تھا، دولت مشترکہ کھیلوں اور نہ جانے کتنے گھپلوں کے الزام لگائے گئے تھے،اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی حکومت نے کئی گھپلوں کی جانچ بھی کرائی، جانچ میں کانگریس گھپلوں سے پاک صاف پائی گئی،پھر وزیر اعظم مودی اب کونسے گھپلوں کی بات کرتے ہیں؟ جبکہ وہ خود کانگریس لیڈروں کی پہلے ہی جانچ کرا چکے ہیں، زبان درازی کا یہ حربہ راہل گاندھی کی آواز کو بند کرنے کے لئے ہے،بی جے پی اور اس کے سینئر لیڈروں نیز وزیر اعظم مودی کو راہل گاندھی کے الزام پر ملک کی عوام کو یہ باور کرانا چاہئے تھا ،کہ رافیل ڈیل یا سودے میں کوئی گھپلہ نہیں ہوا ہے، الٹا کانگریس پر الزام لگانا ، اس بات کی تصدیق کرتا ہے، کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔
وزیر اعظم مودی اپنے انتخابی جلسوں کے خطاب میں عوام سے یہ بھی کہہ رہے ہیں، کہ آپ کو مجبور سرکار چاہئے یا مضبوط سرکار چاہئے، مجبور سرکار کا ان کا اشارہ کانگریس کی جانب ہے، اور مضبوط سرکار کا بی جے پی کی جانب، وہ بھی خود مودی کی قیادت میں، مودی کے یہ الفاظ عجیب سے لگتے ہیں، ان کا کہنا ہے،کہ جو کام 70 سال میں نہیں ہوا، وہ کام پانچ سال میں ہوگیا، یعنی بی جے پی حکومت اتنی مضبوط ہے، کہ اس نے پانچ سال میں 70 سال سے زیادہ کام کر دکھایا، بتاتے چلیں کانگریس نے 70 سال میں اس ملک کو مستحکم کیا، شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب جو استحکام کانگریس نے دیا وہ کسی بھی پارٹی نے نہیں دیا، کانگریس نے اس ملک کی سرحدوں کو مضبوط کیا، جبکہ بی جے پی کی حکومت میں پلوامہ جیسا حملہ ہوا، بقول وزیر اعظم اور حکمراں پارٹی بی جے پی لیڈروں کے حملہ کے لئے بارود پڑوسی ملک سے آیا، جب بی جے پی حکومت مودی کی قیادت میں مضبوط ہے، اور مودی وزیر اعظم کی بجائے ملک کے چوکیدار ہیں، تو پڑوسی ملک سے بارود اپنے ملک میں کس راستہ سے آ گیا ، اس طرح نہ تو یہ حکومت مضبوط ہے، اور نہ ہی چوکیدار چست ہے۔ ملک میں پانچ سال پہلے جو انفراسٹرکچر تھا ، وہی اب نظر آ رہا ہے، نئی تعمیر نہیں ہوئی ہے، پھر کونسا وکاس یا بی جے پی حکومت میں ڈیولپمنٹ ہوا ہے، کانگریس نے پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار دیا ہے، آج نوجوان بے روزگار گھوم رہا ہے، روزگار کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے، پانچ سال میں کوئی بھرتی نہیں کھولی گئی، بلکہ سرکاری محکموں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالہ کیا گیا، تاکہ کمیشن کا کام چلتا رہے، یہ حکومت کی ناکامی ہے، یا عوام کے ساتھ دھوکہ؟۔
وزیر اعظم مودی کی اس سے بڑی ناکامی کا ثبوت اور کیا ہوگا، کہ اس مضبوط حکومت کے وزیر اعظم نے دنیا کے زیادہ تر ممالک کا دورہ کیا ہے ، دوسرے ملک کے دورہ کا مقصد ہوتا ہے، کہ وہاں کی کمپنیوں اور انویسٹرس کو اپنے ملک میں کاروبار کے لئے مدعو کیا جائے، مگر افسوس دیکھئے، کہ سینکڑوں غیر ممالک کے دوروں کے بعد بھی کوئی باہری کمپنی ہندوستان میں نہیں آئی، اور نہ ہی کوئی انویسٹر ہندوستان میں آنے کو تیار ہوا، ملک میں جتنی بیرونی کمپنیاں کام کر رہی ہیں، وہ سب کی سب کانگریس کے دور میں ہندوستان میں کاروبار کرنے آئیں، جبکہ بی جے پی کے دور میں بعض کمپنیاں واپس چلی گئیں، ملک کے کاروبار میں نوٹ بندی جی ایس ٹی اور ہندو شدت پسندی نے مندی کو مدعو کیا، اگر ہم پچھلے پانچ سالوں کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا، کہ بی جے پی مجبور اور کانگریس مضبوط حکومت دینے والی پارٹی ہے۔
( مضمون نگار حکومت ہریانہ کے سابق وزیر ہیں )